ماسٹر عنایت حسین

ماسٹر عنایت حسین

اسپیشل فیچر

تحریر : شہنشاہ حسین


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

پاکستان کی فلمی صنعت میں موسیقی کا عروج یہاںبننے والی دوسری فلم ’’ہچکولے‘‘ سے شروع ہوتا ہے جب اس کے کئی گانے ہر خاص وعام میں مشہور ہوئے۔ فلم ساز شیخ محمد حسین اور ہدایت کار دائود چاند کی اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گانے سیف الدین سیف نے لکھے جب کہ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی۔ اس فلم کا ایک گانا ’’میں پیار کا دیا جلاتا ہوں، تُوچپکے چپکے آجا‘‘ گلوکار علی بخش ظہور نے گایا تھا۔ جو ریڈیو پر کثرت سے بجتا تھا۔ بھارتی فلموں کے گانوں کے سامنے نوزائیدہ پاکستانی فلمی صنعت کی کوئی وقعت نہ تھی۔ فلم ’’ہچکولے‘‘ کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین کے گانے کی تعریف اُس وقت بھارتی موسیقار نوشاد نے ایک خط کے ذریعے کی اور کہا ’’ماسٹر غلام حیدر کے بعد ماسٹر عنایت حسین ایک مکمل موسیقار ہیں‘‘ اور یہی نوشاد (مرحوم) کے الفاظ پاکستانی فلموں کی موسیقی میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ 26؍مارچ 1993ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ماسٹر عنایت حسین کو ہم سے بچھڑے ہوئے بیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن ان کے گیت آج بھی اسی طرح سننے والوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔ماسٹر عنایت حسین 1918ء کو اندرون لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد نے انہیں استاد بڑے غلام علی خان کی سرپرستی میں دے دیا تاکہ وہ کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرسکیں۔ انہوںنے کئی برس اپنے استاد سے کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ اس دوران وہ لاہور کی گراموفون کمپنی میں غیر فلمی گیتوں اور غزلوں کی موسیقی ترتیب دیتے رہے۔خوب صورت ہونے کی وجہ سے یہ اداکاری کی طرف بھی مائل تھے۔ پندرہ برس میں انہوںنے ممبئی کا رُخ کیا جہاں وہ چار پانچ برس رہے اس دوران انہوںنے امپیریل فلم کمپنی میں کام کیا اور ہدایت کار موتی بی گڈوانی کی فلم ’’مخبری‘‘ میں ماسٹر انداز کے نام سے کام کیا۔ 23؍ برس کی عمر میں انہوںنے نواب رام پور کے دربار میں ملازمت اختیار کی جہاں دو برس گزارنے کے بعد وہ کولمبیا ریکارڈنگ کمپنی میں میوزک ڈائریکٹر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوںنے ہزماسٹر وائس میں ملازمت کرلی اور بہت سے مقبول گانوں کی دھنیں ترتیب دیں۔1946ء میں فلم ساز ہری متل کھوسلا نے فرنیچر بنانے والی فیکٹری خرید کر اسے اسٹوڈیو میں تبدیل کردیا اور اس کا نام ’’لیلامندر اسٹوڈیو‘‘ رکھ دیا جہاں ہدایت کار پرکاش بخشی نے پہلی فلم ’’کملی‘‘ کا آغاز کیاجس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کی۔ اس فلم کے نغمہ نگار پی این رنگین تھے۔ جب کہ اداکاروں میں آشا پوسلے، رمیش، رانی کرن، امرناتھ، گیتا بالی اور شیخ اقبال نمایاں تھے۔ اس فلم کے یہ گانے بہت مشہور ہوئے جن میں استاد برکت علی خان کی آواز میں ایک گانا ’’جا چناں بدلی وچ جا‘‘ اور ان کے ساتھ زینت بیگم کی آواز میں ایک دو گانا ’’شام پئی ہُن گھر آ‘‘ نہایت خوب صورت گیت تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ماسٹر عنایت حسین نے فلم ’’ہچکولے‘‘ کی موسیقی ترتیب دی جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔1954ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم ’’گمنام‘‘ ماسٹر عنایت حسین کی وہ فلم ہے جس کے گیتوں نے انہیں ایک بڑا موسیقار ثابت کردیا۔ جب ان کا گیت’’تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کےپائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘‘ممبئی تک اس گیت کی دُھوم تھی۔ استاد خان صاحب امیر خان(اندور والے) خاص طور پر لاہور ماسٹر عنایت حسین کو مبارک باد دینے کے لیے ہندوستان سے بطور خاص لاہور آئے۔ ابھی اس گیت کی مقبولیت ختم نہیں ہوئی تھی کہ 1955ء میں فلم ’’قاتل‘‘ ریلیز ہوگئی جس کے گیت ماسٹرعنایت حسین کے شاہ کار ثابت ہوئے۔ طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہُوا کوثر پروین کی آواز میں گیت’’مینا نہ جانے کیا ہوگیا کہاں دل کھوگیا‘‘بے حد مقبول ہُوا وہیں اس سے بڑھ کر اقبال بانوکی آواز میں قتیل شفائی کی لکھی ہوئی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا تو باہیں ڈال کے بانہوں میں‘‘ آج بھی سننے والوں میں بے حد مقبول ہے۔ ماسٹر عنایت حسین میں یہ خصوصیت تھی کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم کے گیتوں پر توجہ دیتے تھے وہ زیادہ فلمیں سائن کرنے کے عادی نہ تھے۔ یہی وجہ ہے ان کی ہر برس دو یا تین فلموں سے زائد ریلیز نہیں ہوئیں۔ ایسی مثال کم ہی کسی موسیقار کی ملتی ہے۔ماسٹر عنایت حسین کو ہمیشہ فلم سازوں سے شکایت رہی کہ وہ ایک فلم کی تکمیل میں ایک برس سے تین برس کا عرصہ لگادیتے ہیں لیکن فلم کے تمام گانے ایک ماہ کے اندر مکمل کرنا چاہتے ہیں اور فلم سازوں کا یہی رجحان آگے چل کر نقالی کا سبب بن گیا جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں کی موسیقی زوال کا شکار ہوگئی۔ ہدایت کار انور کمال پاشا اور عنایت حسین کا ساتھ جن فلموں میں رہا وہ اپنی موسیقی کی وجہ سے پسند کی گئیں لیکن 1958ء میں فلم ’’انار کلی‘‘ کے گانوں کی ریکارڈنگ کے دوران ان دونوں کے درمیان اختلافات اتنے بڑھے، ماسٹر عنایت حسین نے صرف تین گانے ہی کمپوز کیے تھے باقی گانے رشید عطرے نے کمپوز کیے لیکن اس پر ماسٹر عنایت حسین نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن فلم میں ان کے ہی گانے زیادہ مقبول ہوئے ’’کہاں تک سُنو گے کہاں تک سُنائوں‘‘، ’’بے وفا ہم نہ بھولے تجھے‘‘، ’’جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے‘‘ ۔ نور جہاں کی آواز میں یہ گیت آج بھی اُسی طرح مشہور ہیں جس طرح پہلے تھے۔ 1962ء میں فلم ’’عذرا‘‘ میں ان کا کمپوز کیا ہُوا گیت ایرانی ماحول میںفارسی انداز لیے ہوئے تھا جس کو سلیم رضا نے گایا۔ جانِ بہاراں، رشکِ چمن، غنچہ دہن سیمیں بدن، اے جان من‘‘۔ ماسٹر عنایت حسین کے بے شمار مشہور گیتوں کا تذکرہ جگہ کی کمی کی وجہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کا مالا بیگم اور سائیں اختر حسین کا گایا ہوا گانا ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی ‘‘ اور فلم ’’نائلہ‘‘ میں مالا بیگم کے گائے ہوئے گانے ’’مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے‘‘، ’’غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے‘‘، ’’دل کے ویرانے میں اک شمع ہے اب تک روشن‘‘ ۔ ان کے مقبول ترین گیت ہیں۔ ماسٹر عنایت حسین کی مشہور فلموں میں دیور بھابی، عالیہ، جانِ آرزو، دل میرا دھڑکن تیری، دل بیتاب، جادو، پہلی نظر، جوش اور سنگدل وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ماسٹر عنایت حسین کے صاحب زادے ماسٹر طفیل نے بھی فلموں میں موسیقی دی۔ ماسٹر عنایت حسین طویل علالت کے بعد 26؍مارچ 1993ء کو لاہورمیں انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کے بعد پاکستانی فلمیں بھی زوال کا شکار ہوگئیں۔ ان کے گراں قدر کام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
فلپائن کی مشہور مساجد

فلپائن کی مشہور مساجد

مغربی بحرالکاہل میں واقع 7100جزائر کا مجموعہ فلپائن کہلاتا ہے۔ فلپائن ملائی قوم نے آباد کیا تھا۔ اسلام یہاں ساتویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) میں انڈونیشیا کے راستے وارد ہوا۔ ہسپانوی بادشاہ فلپ کے نام پر فلپائن کا نام دیا۔1571ء میں انہوں نے منیلا شہر کی بنیاد رکھی اور یہاں کیتھولک مسیحیت کو فروغ دیا۔جنوبی فلپائن کے مسلمان نصف صدی سے علیحدگی کی جدوجہد کر رہے تھے، ان کی مسلح تحریک مورو لبریشن فرنٹ کے نام سے شروع ہوئی جس کے قائد نور مسواری تھے۔ اس دوران نور مسواری کو مسلم صوبے کا گورنر بنا دیا گیا، تاہم کچھ عرصہ بعد معاہدہ امن کی سرکاری خلاف ورزی کی بنا پر نور مسواری نے حکومت سے علیحدہ ہو کر پھر گوریلا تحریک کی قیادت سنبھال لی جواب تک جاری ہے۔ اب کورازون کا بیٹا نوئی اکینو برسر اقتدار ہے۔ فلپائن میں اسلام وارد ہونے کے ساتھ ہی نور مسوری کی رعایا کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہو گئے۔فلپائن میں کئی دینی مدارس ہیں۔ فلپائن میں کئی مساجد ہیں۔یہاں صرف 2 بڑی مساجد قابل ذکر ہیں۔ سنہری مسجد( منیلا)منیلا شہر کے قوایا پو (Quiapo) ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد اور رہائش پذیر ہے، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہیں مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد واقع ہے، جس کا نام سنہری مسجد ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا گنبد سنہری رنگ کا ہے۔ اس وقت منیلا کی تمام مساجد میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں 3ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ۔یہ مسجد 1976ء میں صدر مارکوس کے دور میں خاتونِ اوّل امیلڈا مارکوس کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔نماز جمعہ اور عید کی نماز کے اوقات میں سنہری مسجد مسلمانوں سے بھر جاتی ہے اور یہ دنیا کی چند خوبصورت مساجد میں شمار ہوتی ہے۔گرینڈ مسجد( کوتاباتو)یہ مسجد فلپائن کی سب سے بڑی مسجد ہے جو برونائی کے سلطان حاجی حسن البولکیہ نے فلپائن کے جنوبی صوبے منڈا نائو کے شہر کو تاباتو (Cotabato) میں پانچ ایکڑ کے رقبے پر تعمیر کروائی۔ یہ پلاٹ وہاں کے ایک مسلمان قبیلے نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر 2009ء میں شروع ہوئی۔ اس برس برونائی کے سلطان تین روزہ سرکاری دورے پر فلپائن آئے تو انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ گرینڈ مسجد اتنی خوبصورت اور عالمی شان ہے کہ سارے فلپائن کے مسلمان فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی انتہائی خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے۔ دیکھنے میں یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔مسجد کو گولڈن مسجد اور حاجی سلطان حسن البولکیہ مسجد کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 141فٹ ہے۔ مسجد میں 40ہزارنمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہ مسجد 2011ء کے رمضان المبارک میں استعمال کیلئے کھول دی گئی تھی لیکن اس کا باقاعدہ افتتاح اگلے سال عیدالفطر کے دن 2012ء میں ہوا۔ اس کے مینار اوپر سے سنہری ہیں جن پر ہلال نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی تعمیر پر بیس کروڑ روپے خرچ ہوئے جو سارے کے سارے سلطان حسن البولکیہ نے برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال کے درمیان ایک دیدہ زیب فانونس لٹک رہا ہے۔ حفاظتی انتظامات کے پیش نظر کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ اس مسجد کی پچھلی جانب جزیرہ بونگ ہے جو خلیج مورو میں گھرا ہوا ہے۔

حکایت سعدیؒ :عقلمند سیاح

حکایت سعدیؒ :عقلمند سیاح

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ سیاحوں کی ایک جماعت سفر پر روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ انہوں نے انکار کیا۔ میں نے انہیں یقین دلا یا میں آپ حضرات کیلئے مصیبت اور پریشانی کا باعث نہ بنوں گا بلکہ جہاں تک ہوسکے گا خدمت کروں گا لیکن وہ پھر بھی رضا مند نہ ہوئے۔سیاحوں میں سے ایک شخص نے کہا بھائی ہمیں معاف ہی رکھو۔ اس سے پہلے رحم دلی کے باعث ہم سخت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تمہاری طرح ایک شخص ہمارے پاس آیا اور ساتھ سفر کر نے کی اجازت مانگی او رہم نے اسے ساتھی بنا لیا۔ سفر کرتے کرتے ہم لوگ ایک قلعے کے پاس پہنچے تو آرام کرنے کیلئے ایک موزوں جگہ ٹھہر گئے اور جب سونے کیلئے اپنے بستروں پر لیٹے تو اس شخص نے یہ کہہ کر ایک سیاح سے پانی کی چھا گل لی کہ میں رفاع حاجت کیلئے جانا چاہتا ہوں۔ وہ قلعے میں جا گھسا اور وہاں سے قیمتی سامان چرا کر رفو چکر ہو گیا۔ قلعے والوں کو چوری کا پتا چلا تو انھوں نے ہم لوگوں پر شک کیا اور پکڑ کر قید کر دیا۔ بڑی مشکل سے نجات ملی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سیاح کا شکریہ ادا کر کے کہا کہ اگر چہ مجھے آپ کا ہمسفر بننے کی عزت حاصل نہیں ہوسکی۔ لیکن آپ نے جو اچھی باتیں سنائیں ان سے مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا ۔سچ ہے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک نہایت ہی لطیف نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ گناہ کرنے والے کا فعل صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کو وہ براہ راست نقصان پہنچاتا ہے، ان کے علاوہ نہ جانے اور کتنے لوگ اس کی غلط کاری کے باعث جائز فائدوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لوگ کسی فریب کار کے ہاتھوں نقصان اٹھا کر شریف اور مستحق لوگوں کا بھی اعتبار نہیں کرتے۔

رمضان کے پکوان:مشی مل پوف

رمضان کے پکوان:مشی مل پوف

اجزاء :گائے کے پسندے چھ عدد ،پیاز ایک ڈلی( باریک کٹی ہوئی )،نمک حسب ضرورت،کالی مرچ آدھا چائے کا چمچ، ٹماٹر ساس ایک پیالی، دار چینی پاؤڈر چوتھائی چائے کا چمچ،پانی ایک پیالی،پکے ہوئے چاول ایک پیالی ،پارسلے (مغربی دھنیا ) باریک کٹی ہوئی تھوڑی سی،سویا باریک کٹا ہوا ایک کھانے کا چمچ،لیموں کا عرق دوکھانے کے چمچ، کوکنگ آئل دوکھانے کے چمچ،مارجرین ایک کھانے کا چمچ۔ترکیب:سب سے پہلے ایک فرائنگ پین میں پسندوں کو بلوبینڈ مارجرین کے ساتھ اچھی طرح تل لیں۔ جب پانی خشک ہوجائے تو نکال کر باریک ٹکڑے کرلیں۔ اب ایک دیگچی میں گرم پانی کریں جب کھولنے لگے تو نمک ڈال کر بندگوبھی ثابت ڈال کر ہلکا سا ابال لیں۔ پھر پانی نکال کر پتے الگ کرلیں۔ اسی دیگچی میں ڈالڈاکوکنگ آئل ڈال کر پیاز اور باریک کیا ہوا گوشت ڈال کر بھون لیں۔ جب گولڈن برائون ہوجائے تو دارچینی پائوڈر ،کالی مرچ اور نمک ڈال دیں۔ دس منٹ بعد آدھی ٹماٹر ساس اور آدھا پانی ڈال دیں۔ ہلکی آنچ میں پکنے دیں۔ پکے ہوئے چاول دوبارہ گرم پانی میں نمک کے ساتھ جوش دے کر پانی نکال دیں پھر گوشت، چول دوبارہ گرم پانی میں نمک کے ساتھ جوش دے کر پانی نکال دیں۔

آج کا دن

آج کا دن

تپ دق کا سبب بننے والا بیکٹیریا دریافت 24مارچ 1882ء کو جرمن طبیب و ماہر جرثومیات رابرٹ کوخ نے تپ دق کا سبب بننے والا بیکٹیریا دریافت کیا۔ ان کے چار نکات کے مفروضہ ہائے برائے وجوہات بیماری کو آج بھی بڑے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ کارنامہ سرانجام دینے پر انہیں 1905ء میں طب کا نوبیل انعام سے نوازا گیا۔عالمی ادارہ صحت کے اعلان کے مطابق 24 مارچ کو عالمی یوم تپ دق بھی منایا جاتا ہے۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے1985ء میں آج کے روز محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے کامیابی حاصل کی اور وزیر اعظم بنے۔ جنرل ضیاء الحق نے 29مئی 1988ء کو جونیجو کی حکومت کو ختم کر دیا۔جرمن فضائی حادثہ''جرمن ونگز فلائٹ9525‘‘ بارسلونا (سپین) سے جرمنی کے لئے بین الاقوامی مسافر بردار پرواز تھی۔ 24 مارچ 2015ء کو یہ فرانس کے پہاڑی سلسلے 'فرنچ ایلپس‘ پرگر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس طیارے میں سوار 148 مسافر اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔  

عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

علی بن عیسیٰ کا شمار عظیم مسلمان سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ امراض چشم کے ماہرتھے۔ خصوصی مشاہدے، تجربے اور تحقیق کے بعد قوتِ بصارت کو قائم رکھنے نیز آنکھوں کیلئے مفید ترین دوائیں، مناسب غذائیں اور پرہیز تجویز کرکے ان کی مکمل فہرست بنا کر پیش کرنے والا، آنکھوں کے امراض اور اسباب و علامات پر بحث کرنے والا، آنکھوں کی حفاظت اور احتیاط کے طریقے بیان کرنے والا ایک ضخیم اور مکمل کتاب کا مصنف اور طبیب حاذق۔ابتدائی زمانہ، علمی خدمات اور کارنامےقابل ترین اور باصلاحیت حکما میں وہ سائنسداں جنہوں نے خاموشی کے ساتھ علمی اور فنی کام کئے ان میں علی بن عیسیٰ بھی ہے۔ بغداد میں اس دانشور نے گوشۂ گمنامی میں زندگی گزاری۔ اس کی زندگی کے حالات سے کتابیں خاموش ہیں لیکن اس کے تحقیقی کام ہمارے سامنے ہیں۔ علی بن عیسیٰ عباسی خلیفہ قائم باللہ کے عہد کا ایک ماہرِ امراض چشم تھا۔علی بن عیسیٰ نے اجزائے جسم میں صرف آنکھ کو منتخب کیا اور جسم کے اس نازک ترین لیکن اہم ترین حصے پر تحقیقی کام کئے۔ اس نے آنکھ کے امراض پر زبردست تحقیقات کیں اور پھر اپنے جملہ ذاتی تجربات اور مشاہدات اور نظریات اپنی ضخیم اور معیاری کتاب تذکرۃ الکحلین میں جمع کردیں۔ ہم یہاں تذکرہ الکحلین سے کچھ معلوم پیش کرتے ہیں۔تذکرہ الکحلین نہایت مفصل اور ضخیم کتاب ہے گویا یہ انسانی آنکھ کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کی تین جلدیں ہیں، کتاب کا بڑا حصہ امراض چشم کے اس ماہر ڈاکٹر کے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔آنکھ کا ماہر سرجن:علی بن عیسیٰ ایک ماہر کی طرح اپنی معلومات پیش کرتا ہے۔ اس کی کتاب تذکرہ الکحلین کی پہلی جلد میں آنکھ کے حصوں کی مفصل تشریح اور منافع اعضاء یعنی ہر جزو اور ہر حصے کو بیان کیا ہے اور اس کے فوائد بتائے ہیں جس کو انگریزی میں اناٹومی اور فزیالوجی کہتے ہیں۔ اس ماہر سرجن نیخ آنکھ کی بناوٹ پتلی، حصے، روشنی سب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔دوسری جلد میں آنکھ کی ان بیماریوں کا علاج ہے جو ظاہری طور پر نظر آ جاتی ہیں علی بن عیسیٰ نے آنکھ کی جملہ ظاہری بیماریوں کا بتایا، اسباب اور علامات تفصیل سے لکھے اور مکمل بحث کی۔تذکرۃ الکحلین کی تیسری جلد نہایت اہم ہے۔ اس میں آنکھ کے ان جملہ امراض کو تفصل سے بیان کیا ہے جو آنکھ کے اندرونی حصوں میں کہیں پیدا ہو جاتے ہیں اور جن سے آنکھ کو نقصان پہنچتا ہے یا آئندہ کبھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن باہر سے دیکھنے میں کچھ پتا نہیں چلتا۔تذکرہ الکحلین یا آنکھ کی انسائیکلو پیڈیاکتاب تذکرہ الکحلین آنکھ سے متعلق ایک جامع کتاب ہے اسے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں آنکھ سے متعلق جملہ معلومات بڑی تحقیق کے ساتھ جمع کر دی گئی ہیں۔ آنکھ کے تحفظ اور احتیاط کو بتایا گیا ہے، آنکھ کی روشنی اور قوت بصارت کو قائم رکھنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔اس کتاب میں امراض چشم پر بحث بڑی تفصیل اور تحقیق سے کی گئی ہے۔ یہ کتاب امراض چشم پر ضخیم اور معیاری ہے اس میں آنکھ سے متعلق جملہ مسائل پر نہایت عمدہ بحث ہے اور کم و بیش آنکھ کی ایک سو تیس بیماریوں کا ذکر ہے اور تفصیل سے ان کے اسباب اور ان کی علامتوں کو بتایا گیا ہے۔کتاب میں 143 ایسی دوائوں اور جڑی بوٹیوں کے نام، ان کی پہچان، ان کے خواص اور اثرات اور فوائد بیان کئے گئے ہیں جو آنکھوں کیلئے مفید ہیں اور ان کو آنکھ کے امراض اور شکایتوں کے سلسلے میں استعمال کیا جاتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔کتاب کے ایک حصے میں احتیاط اور پرہیزی غذائوں کا بھی مفصل بیان ہے۔ آنکھ کے مریضوں کیلئے جو غذائیں مفید اور اچھی ہیں ان کو بتایا گیا ہے اور جن غذائوں سے نقصان ہوتا ہے یا نقصان اور تکلیف کا اندیشہ ہے ان کو بھی لکھ دیا ہے۔ غذا پر اس ماہر مصنف نے اچھی بحث کی ہے اور مفید معلومات کا ذخیرہ پیش کردیا ہے۔علی بن عیسیٰ آنکھ کاا یک زبردست معالج تھا۔ اس نے دوائوں کے ذریعے امراض کا علاج کیا اور اس فن میں وہ ماہر تھا، اس نے دوائوں کے ذریعے علاج کو ترجیح دی۔ آپریشن کے ذریعے کسی مرض کا دور کرنا اور آنکھ کا آپریشن کرنا اس کے طریق علاج سے باہر تھا۔تذکرۃ الکحلین یورپ میںآنکھ کے سلسلے میں یہ کتاب مفصل، معیاری اور مستند تسلیم کی گئی۔ اس فن میں یہ دوسری قابل ِذکر کتاب ہے۔ 1499ء میںاس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میںشائع ہوااور یورپ کے ڈاکٹروں نے اس کی اہمیت کو سمجھا۔ دورِ جدید کے دانشوروں نے اسے جب غور سے پڑھا تو اس کی افادیت کا احساس ہوا ۔ 1903ء میں اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔اس کے بعد اس مفید ترین کتاب کو 1904ء میں جرمن زبان کے قالب میں ڈھالا گیا۔ 

موسم بہار

موسم بہار

بہار کا موسم نہ صرف پھولوں اور خوشبوؤں کا موسم ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی دلچسپ اور عجیب حقائق بھی چھپے ہیں۔ آئیے کچھ انوکھی رسومات اور حقائق کے بارے جانتے ہیں۔ بہارSpringکیسے ہوئی؟اس موسم کو انگریزی میں Spring اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پودے زمین سے اچانک(Spring forth) باہر نکلتے ہیں۔ یہ اصطلاح 16ویں صدی میں عام ہوئی۔اس سے پہلے اسےLent یا ''نئی کلیوں کا موسم‘‘ کہا جاتا تھا۔بہاریہ اعتدال (Vernal Equinox)اور علمِ فلکیات بہار کے پہلے دن (20-23 مارچ) کو Vernal equinoxکہا جاتا ہے جب سورج بالکل خطِ استوا کے اوپر ہوتا ہے۔ اس وقت دن اور رات تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس دن ابوالہول کا مجسمہ سورج کی سمت میں مکمل طور پر سیدھ میں ہوتا ہے۔جاپان میں چیری بلاسم کا جنون جاپان میں ساکورا (چیری بلاسم) کے پھول کو بہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپانی موسمیات کے محکمے پھول کھلنے کی پیشگوئی کرتے ہیں اور لوگ ''ہنامی‘‘(پھول بینی) کے لیے پارکوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ایک درخت کے پھول صرف سات دن تک کھلتے ہیں۔جانوروں پر بہار کا جادو بہار میں جانوروں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پرندے 20 ہزار کلومیٹر تک کا ہجرتی سفر کرتے ہیں۔ کچھ ممالیہ جانور (جیسے ریچھ) ہائیبرنیشن سے جاگتے ہیں کیونکہ دن لمبے ہونے سے ان کے جسم میں میلاٹونن ہارمون کم ہو جاتا ہے۔انڈے کا توازن؟ ایک مشہور myth یہ ہے کہ Vernal equinox کے دن انڈے کو عمودی طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی بھی دن ممکن ہے، بس صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ اعتدال کی کششِ ثقل سے نہیں بلکہ انڈے کے خول کی سطح کی ہمواری سے تعلق رکھتا ہے۔بہار اور آئس کریم کا تعلق قدیم فارس (ایران) میں بہار کے موسم میں برف اور پھلوں کے شربت کو ملا کر ایک ٹریٹ بنایا جاتا تھا جو آئس کریم کی ابتدائی شکل سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے الٹے موسم جب شمالی نصف کرہ میں بہار ہوتی ہے، تو جنوبی نصف کرہ (جیسے آسٹریلیا، ارجنٹائن) میں خزاں کا موسم ہوتا ہے۔بہار اور انسانی موڈ سورج کی روشنی میں اضافہ انسانی دماغ میں سیروٹونن (خوشی کا ہارمون) بڑھاتا ہے جس سے لوگ زیادہ متحرک اور خوش نظر آتے ہیں۔ قدیم رومی اسے ورنا لٹرجیا(بہار کی دیوانگی) کہتے تھے۔بہار اور الرجی کا تعلق کیا آپ جانتے ہیں کہ بہار میں نکلنے والے پولن صرف پھولدار پودوں سے نہیں بلکہ زیادہ تر درختوں (جیسے دیودار، چیڑ) اور گھاس سے آتے ہیں۔ دنیا بھر میں 10سے 30 فیصدلوگ پولن الرجی (Hay fever) کا شکار ہوتے ہیں۔دنیا کی بہاریہ رسومات ٭ہولی (بھارت): رنگوں کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ ٭کوپرز ہِل چیڑولنگ (انگلینڈ): ایک پہاڑی سے پنیر کا ڈھیر لڑھکایا جاتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ٭سونگکران (تھائی لینڈ):دنیا کا سب سے بڑا پانی کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔