ماسٹر عنایت حسین

اسپیشل فیچر
پاکستان کی فلمی صنعت میں موسیقی کا عروج یہاںبننے والی دوسری فلم ’’ہچکولے‘‘ سے شروع ہوتا ہے جب اس کے کئی گانے ہر خاص وعام میں مشہور ہوئے۔ فلم ساز شیخ محمد حسین اور ہدایت کار دائود چاند کی اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گانے سیف الدین سیف نے لکھے جب کہ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی۔ اس فلم کا ایک گانا ’’میں پیار کا دیا جلاتا ہوں، تُوچپکے چپکے آجا‘‘ گلوکار علی بخش ظہور نے گایا تھا۔ جو ریڈیو پر کثرت سے بجتا تھا۔ بھارتی فلموں کے گانوں کے سامنے نوزائیدہ پاکستانی فلمی صنعت کی کوئی وقعت نہ تھی۔ فلم ’’ہچکولے‘‘ کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین کے گانے کی تعریف اُس وقت بھارتی موسیقار نوشاد نے ایک خط کے ذریعے کی اور کہا ’’ماسٹر غلام حیدر کے بعد ماسٹر عنایت حسین ایک مکمل موسیقار ہیں‘‘ اور یہی نوشاد (مرحوم) کے الفاظ پاکستانی فلموں کی موسیقی میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ 26؍مارچ 1993ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ماسٹر عنایت حسین کو ہم سے بچھڑے ہوئے بیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن ان کے گیت آج بھی اسی طرح سننے والوں میں پسند کیے جاتے ہیں۔ماسٹر عنایت حسین 1918ء کو اندرون لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد نے انہیں استاد بڑے غلام علی خان کی سرپرستی میں دے دیا تاکہ وہ کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کرسکیں۔ انہوںنے کئی برس اپنے استاد سے کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ اس دوران وہ لاہور کی گراموفون کمپنی میں غیر فلمی گیتوں اور غزلوں کی موسیقی ترتیب دیتے رہے۔خوب صورت ہونے کی وجہ سے یہ اداکاری کی طرف بھی مائل تھے۔ پندرہ برس میں انہوںنے ممبئی کا رُخ کیا جہاں وہ چار پانچ برس رہے اس دوران انہوںنے امپیریل فلم کمپنی میں کام کیا اور ہدایت کار موتی بی گڈوانی کی فلم ’’مخبری‘‘ میں ماسٹر انداز کے نام سے کام کیا۔ 23؍ برس کی عمر میں انہوںنے نواب رام پور کے دربار میں ملازمت اختیار کی جہاں دو برس گزارنے کے بعد وہ کولمبیا ریکارڈنگ کمپنی میں میوزک ڈائریکٹر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوںنے ہزماسٹر وائس میں ملازمت کرلی اور بہت سے مقبول گانوں کی دھنیں ترتیب دیں۔1946ء میں فلم ساز ہری متل کھوسلا نے فرنیچر بنانے والی فیکٹری خرید کر اسے اسٹوڈیو میں تبدیل کردیا اور اس کا نام ’’لیلامندر اسٹوڈیو‘‘ رکھ دیا جہاں ہدایت کار پرکاش بخشی نے پہلی فلم ’’کملی‘‘ کا آغاز کیاجس کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کی۔ اس فلم کے نغمہ نگار پی این رنگین تھے۔ جب کہ اداکاروں میں آشا پوسلے، رمیش، رانی کرن، امرناتھ، گیتا بالی اور شیخ اقبال نمایاں تھے۔ اس فلم کے یہ گانے بہت مشہور ہوئے جن میں استاد برکت علی خان کی آواز میں ایک گانا ’’جا چناں بدلی وچ جا‘‘ اور ان کے ساتھ زینت بیگم کی آواز میں ایک دو گانا ’’شام پئی ہُن گھر آ‘‘ نہایت خوب صورت گیت تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ماسٹر عنایت حسین نے فلم ’’ہچکولے‘‘ کی موسیقی ترتیب دی جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے۔1954ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم ’’گمنام‘‘ ماسٹر عنایت حسین کی وہ فلم ہے جس کے گیتوں نے انہیں ایک بڑا موسیقار ثابت کردیا۔ جب ان کا گیت’’تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کےپائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘‘ممبئی تک اس گیت کی دُھوم تھی۔ استاد خان صاحب امیر خان(اندور والے) خاص طور پر لاہور ماسٹر عنایت حسین کو مبارک باد دینے کے لیے ہندوستان سے بطور خاص لاہور آئے۔ ابھی اس گیت کی مقبولیت ختم نہیں ہوئی تھی کہ 1955ء میں فلم ’’قاتل‘‘ ریلیز ہوگئی جس کے گیت ماسٹرعنایت حسین کے شاہ کار ثابت ہوئے۔ طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہُوا کوثر پروین کی آواز میں گیت’’مینا نہ جانے کیا ہوگیا کہاں دل کھوگیا‘‘بے حد مقبول ہُوا وہیں اس سے بڑھ کر اقبال بانوکی آواز میں قتیل شفائی کی لکھی ہوئی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا تو باہیں ڈال کے بانہوں میں‘‘ آج بھی سننے والوں میں بے حد مقبول ہے۔ ماسٹر عنایت حسین میں یہ خصوصیت تھی کہ وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم کے گیتوں پر توجہ دیتے تھے وہ زیادہ فلمیں سائن کرنے کے عادی نہ تھے۔ یہی وجہ ہے ان کی ہر برس دو یا تین فلموں سے زائد ریلیز نہیں ہوئیں۔ ایسی مثال کم ہی کسی موسیقار کی ملتی ہے۔ماسٹر عنایت حسین کو ہمیشہ فلم سازوں سے شکایت رہی کہ وہ ایک فلم کی تکمیل میں ایک برس سے تین برس کا عرصہ لگادیتے ہیں لیکن فلم کے تمام گانے ایک ماہ کے اندر مکمل کرنا چاہتے ہیں اور فلم سازوں کا یہی رجحان آگے چل کر نقالی کا سبب بن گیا جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں کی موسیقی زوال کا شکار ہوگئی۔ ہدایت کار انور کمال پاشا اور عنایت حسین کا ساتھ جن فلموں میں رہا وہ اپنی موسیقی کی وجہ سے پسند کی گئیں لیکن 1958ء میں فلم ’’انار کلی‘‘ کے گانوں کی ریکارڈنگ کے دوران ان دونوں کے درمیان اختلافات اتنے بڑھے، ماسٹر عنایت حسین نے صرف تین گانے ہی کمپوز کیے تھے باقی گانے رشید عطرے نے کمپوز کیے لیکن اس پر ماسٹر عنایت حسین نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن فلم میں ان کے ہی گانے زیادہ مقبول ہوئے ’’کہاں تک سُنو گے کہاں تک سُنائوں‘‘، ’’بے وفا ہم نہ بھولے تجھے‘‘، ’’جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے‘‘ ۔ نور جہاں کی آواز میں یہ گیت آج بھی اُسی طرح مشہور ہیں جس طرح پہلے تھے۔ 1962ء میں فلم ’’عذرا‘‘ میں ان کا کمپوز کیا ہُوا گیت ایرانی ماحول میںفارسی انداز لیے ہوئے تھا جس کو سلیم رضا نے گایا۔ جانِ بہاراں، رشکِ چمن، غنچہ دہن سیمیں بدن، اے جان من‘‘۔ ماسٹر عنایت حسین کے بے شمار مشہور گیتوں کا تذکرہ جگہ کی کمی کی وجہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کا مالا بیگم اور سائیں اختر حسین کا گایا ہوا گانا ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی ‘‘ اور فلم ’’نائلہ‘‘ میں مالا بیگم کے گائے ہوئے گانے ’’مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے‘‘، ’’غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے‘‘، ’’دل کے ویرانے میں اک شمع ہے اب تک روشن‘‘ ۔ ان کے مقبول ترین گیت ہیں۔ ماسٹر عنایت حسین کی مشہور فلموں میں دیور بھابی، عالیہ، جانِ آرزو، دل میرا دھڑکن تیری، دل بیتاب، جادو، پہلی نظر، جوش اور سنگدل وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ماسٹر عنایت حسین کے صاحب زادے ماسٹر طفیل نے بھی فلموں میں موسیقی دی۔ ماسٹر عنایت حسین طویل علالت کے بعد 26؍مارچ 1993ء کو لاہورمیں انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کے بعد پاکستانی فلمیں بھی زوال کا شکار ہوگئیں۔ ان کے گراں قدر کام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔