ذوالفقار علی بھٹو (پیدائش: 5 جنوری 1928ء، پھانسی: 4 اپریل 1979ء)
1960 ء کی دہائی کے دوسرے نصف میں ذوالفقار علی بھٹو نے جب عوامی سیاست میں قدم رنجا فرمایا، تو اس وقت کتنے ہی جغادری سیاستدانوں کا طوطی پاکستان میں بولتا تھا۔ نواب آف کالاباغ سے تو اک دنیا خوف کھاتی تھی ،مگر 1965ء کے بعد وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں پریشان پھرتے تھے۔ بہت سے سینئر سیاستدانوںکی سیاست کو ایوبی کالاقانون ’’ایبڈو‘‘ کھا گیا تھا، مگر اب پابندیوں کا عشرہ ختم ہونے والا تھا۔سیکولر، قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کا اتحاد یعنی نیشنل عوامی پارٹی 1966ء کے بعدروس چین لڑائیوں اور اندرونی خلفشاروں کی وجہ سے سخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ 1970ء تک اس پارٹی میں سے کتنے ہی گروہ الگ ہو چکے تھے جبکہ بہت سے قابل ذکر رہنمائوںنے نومولودپی پی پی میں شامل ہوکر بصیرتوں کا ثبوت دیا۔ تاشقند کا معاہدہ اور چین کے ساتھ شاہراہ قراقرم کی تشکیل جیسے اہم فیصلے جس ایوبی حکومت نے کیے ،وہ عوامی حمایت سے یکسر محروم تھی کہ اس کے ردعمل کا سامنا کرنے والا کوئی نہ رہا۔یہ تھے وہ حالات جن میں زیرک ذوالفقار علی بھٹو نے پرانے سیاستدانوں اور سکہ بند پارٹیوں سے ملنے کی بجائے نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ لاڑکانہ کے رہائشی تھے اور کراچی کی اشرافیہ میں ہر کوئی سرشاہنواز بھٹو اور ان کے فرزند کو جانتا تھا، مگر بھٹو نے پارٹی بنانے کے لیے لاہور کا انتخاب کیا۔ وہ جی ٹی روڈ پر پارٹی بنانے میں سرگرداں رہے۔ وہ جانتے تھے کہ کراچی، جی ایچ کیو اور اسلام آباد میں ان کے مخالفین زیادہ اور حمایتی کم ہیں۔ وہ سیاست میں امیر حمزہ بن کر آئے اور لشکرحریف کے پرخچے اڑا دیے۔ دسمبر 1970ء میں وہ فاتح تو بن گئے، مگر ان کی نومولود پارٹی اقتدار کے رموزواسرار کو سمجھنے میں مشاق نہیں تھی۔ بالغ رائے دہی کے تحت وفاقی سطح پر ہونے والے انتخابات کے رستے بننے والایہ پہلا عوامی دور حکومت تھا کہ نومولود پارٹی سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں ،مگر جس جرم کی پاداش میں 5جولائی 1977ء کوپی پی پی کی حکومت توڑی گئی اور پھرذوالفقار علی بھٹوکو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اس میں ہوسِ اقتدارہی کو اولیت حاصل تھی۔ عدالتیں اس دور میں کتنی آزاد تھیں؟ اس بارے تو کوئی دورائے نہیں۔ بھٹو کا مقدمہ سننے والے جسٹس نسیم حسن شاہ تو اس ’’عدالتی قتل‘‘ کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔1972ء سے 1977ء کے درمیان ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا کہ یہ تحفہ ہے، جس پر انھیں ابراہیم لنکن اور اتاترک قرار دیا جا سکتا تھا، مگر سیاستدانوں کی اس قدر تکریم بڑوں کی ’’وارا‘‘ نہیں کھاتی تھی۔ قومی اتحاد کی تحریک انتخابات کے دوبارہ انعقاد کے گرد گھومتی تھی، مگر ضیاالحق نے اسے بھٹو کی پھانسی کے لیے استعمال کیا کہ اس کا پردہ نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور چاک کر چکے ہیں۔کم ازکم آج 2014 ء میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں آنے والے چاروں مارشل لاء سیاستدانوں کے غلط کاموں کے خلاف نہیں بلکہ اقتدار کی ہوس اور اداروں کی آڑ میں ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے لگائے گئے تھے۔ بھٹو کا بذریعہ عدالت قتل بھی انھی مفادات کے تحت کیا گیا اک قابل مذمت اقدام تھا، مگر کیا منتخب اداروں کی تکریم، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اور جمہوری تسلسل کو روکا جا سکا۔ بس 4 اپریل اسی بات کو یاد رکھنے کا استعارہ ہے کہ آج جس جمہوری بندوبست میں ہم رہ رہے ہیں ،اس کے لیے جو بہت سی قربانیاں دی گئیں ہیں، ان میں ایک نمایاں ترین مثل ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔٭…٭…٭