تاریخی حادثہ: لندن سمندر کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا
29دسمبر1865ء کو برطانیہ کا ''لندن‘‘ نامی مشہور بحری جہاز مشرقی ہند سے آسٹریلیا کیلئے روانہ ہوا۔ یہ دوخانی جہاز حال ہی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس نے دو مرتبہ آسٹریلیا کا سفر کیا تھا۔ جہاز کے یہ دونوں سفر نہایت کامیاب رہے تھے اور جہاز نے خاصی نیک شہرت کمائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرتبہ روانگی سے ایک ماہ پہلے ہی جہاز کی تمام نشستیں ریز رو ہو چکی تھیں۔
353افراد کو لے کر جب جہازاپنے جان لیوا سفر پر روانہ ہوا تھاتو موسم تقریباً پر سکون تھا لیکن جب جہاز کھلے سمندر میں پہنچا تو موسم کے تیور بدلنے لگے۔ جلد ہی جہاز کو تیز ہوا اور ہر لحظہ بلند ہوتی ہوئی لہروں نے گھیر لیا۔ بہرحال حالات کچھ ایسے خراب نہیں تھے کہ جہاز کی واپسی کے بارے میں سوچا جاتا۔ جہاز مخصوص رفتار سے ''منزل‘‘ کی طرف رواں دواں رہا۔ اگلے روز ہوا کا زور قدرے کم ہو گیا۔ اس دن شام کے وقت مسافر اپنے کیبنوں سے نکلے اور مختلف تفریحات میں حصہ لیا۔ اتوار کی شام سے موسم پھر خراب ہونا شروع ہو گیا، تیز ہوا کے ساتھ بارش کی بوچھاڑ بھی شروع ہو گئی۔ اس روز مسافر جہاز کے بڑے کمرے میں جمع ہوئے اور وہاں انہوں نے عبادت میں حصہ لیا۔
منگل کے روز تک ہوا کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جہاز کے کپتان مارٹن نے حکم دیا کہ جہاز پر سے تمام بادبان اتار لئے جائیں اور جہاز کو انجنوں کی طاقت سے صرف دو ناٹ کی رفتار سے چلایا جائے۔ بادبانوں کے اتارے جانے کے بعد سمندری لہروں نے جہاز کو اور بھی شدت سے اچھالنا شروع کردیا۔ ہر ہچکولے کے ساتھ لہریں جہاز کے اوپر سے ہو کر گزر جاتیں۔ صبح تقریباً سات بجے کے قریب ایک بہت بڑی لہر آئی اور اس نے جہاز پر بندھی ہوئی حفاظتی کشتیوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس لہر کی وجہ سے جہاز کا سامنے والا نوکدار حصہ اتنی قوت سے پانی کے ساتھ ٹکرایا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بے پناہ سردی اور گھمبیر تاریکی میں سمندر کی وحشی لہریں سارا دن جہاز کی آہنی چادروں سے ٹکراتی رہیں۔ سہ پہر کے وقت جب جہاز کے مسافر چائے پی رہے تھے ایک خوفناک لہر عرشے کے اوپر سے ہوتی ہوئی ہال کمرے میں گھس آئی۔ ہال کمرہ عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر چیخ و پکار کرنے لگے اتنے میں ایک اور لہر آئی اور اس نے ہال کمرے کی ہر شے کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا۔انتظامیہ نے ملاحوں کو حکم دیا کہ وہ ہال کمرے سے بالٹیوں کے ذریعے پانی نکالنے کی کوشش کریں۔
اسی اثناء میں نہایت کمزور سی ہلکی ہلکی دھوپ بھی نکل آئی، مسافروں کے چہروں پر اطمینان کے آثار نظر آنے لگے لیکن یہ اطمینان وقتی تھا۔ جوں جوں دن ڈھلتا گیا موسم بتدریج خراب ہوتا چلا گیا۔ آثار بتا رہے تھے کہ جہاز کو اب ایک اور طوفانی رات کا سامنا کرنا ہوگا۔ جہاز کے سہمے ہوئے مسافر دیکھ رہے تھے کہ جنوب مغرب سے سیاہ بادلوں کا لشکر تیزی سے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ تقریباً رات نو بجے تک طوفان میں بے پناہ شدت پیدا ہو چکی تھی۔ مسافروں میں زبردست اضطراب پایا جاتا تھا کچھ مسافر تو اپنے اپنے کیبنوں میں بند ہو کر عبادت میں مصروف ہو گئے تھے۔
کیپٹن مارٹن نے اندازہ لگایا کہ اگر جہاز کے انجن اسی طرح طوفانی لہروں میں جہاز کو کھینچتے رہے تو بہت جلد وہ گرم ہو کر کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ کپٹن نے عملے کو حکم دیا کہ جہاز کے انجن بند کر دیئے جائیں۔ہوا کے منہ زور تھپیڑوں نے چند ہی لمحوں میں بادبان کو چیتھڑوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مجبوراً ایک بار پھر جہاز کے انجنوں کو سٹارٹ کیا گیا لیکن اب جہاز کے انجنوں کی کارکردگی بادبان کے بغیر بہت کم رہ گئی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ آج کی رات جہاز کو انجنوں اور بادبانوں کے بغیر سمندر کی لہروں پر کھلا چھوڑ دیا جائے لیکن بہت جلد افسروں کو اپنا یہ فیصلہ بھی واپس لینا پڑا۔رات کے 10بجے تک جہاز کے ہال کمروں میں تقریباً دو دو فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ تقریباً ساڑھے دس بجے ایک دیو قامت لہر درمیانی دروازے کو توڑتی ہوئی انجن روم میں گھس آئی۔ سیکڑوں ٹن برفیلا پانی انجن روم میں داخل ہو گیا۔ انجنوں نے فوراً کام کرنا چھوڑ دیا اور انجن روم کا عملہ بمشکل تمام اپنی جانیں بچا کر نکل سکا۔اب جہاز کے انجن لوہے کے بیکار ٹکڑوں کی مانند تھے۔ عملے کے ارکان بالٹیوں اور دستی نلکوں کے ذریعے پانی کو مسلسل جہاز میں سے باہر نکال رہے تھے۔ جہاز کا ہر مسافر جی جان سے عملے کے ارکان کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔
طوفان کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ رات کے پچھلے پہر چار بجے کے قریب پانی کا ایک اور زبردست ریلہ جہاز کے اندر داخل ہو گیا۔ کیپٹن مارٹن جہاز کے چیف انجینئر کے ساتھ انجن روم کا معائنہ کرنے کیلئے گیا۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ تقریباً پندرہ فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ جب کیپٹن مارٹن معائنے کے بعد واپس آیا تو لوگوں نے اس کو گھیر لیا اس نے نہایت گھمبیر لہجے میں کہا '' میں آپ کو مایوس کرنا نہیں چاہتا لیکن ہمارے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی۔ اب کوئی معجزہ ہی ہم کو بچا سکتا ہے۔ جہاز پر اس وقت صرف ایک بڑی کشتی اور تین چھوٹی حفاظتی کشتیاں قابل استعمال تھیں۔ کیپٹن مارٹن کے حکم پر ایک چھوٹی کشتی کو تجرباتی طور پر سمندر میں اتارا گیا۔کشتی کے مسافروں میں تین انجینئر ایک کیڈٹ اور عملے کے بارہ ارکان تھے۔ مسافروں کی تعداد صرف تین تھی۔ کیپٹن مارٹن نے کشتی کو الوداع کہتے ہوئے کہا: ''جائو، خدا تمہاری مدد کرے‘‘ اور پھر چند ہی لمحے بعد عظیم الشان جہاز ''لندن‘‘ سمندر میں غائب ہونا شروع ہو گیا۔
پہلا ناخوشگوار واقعہ
خراب موسم کے پیش نظر''بلائی مائوتھ‘‘ کی بندرگاہ پر جہاز کو روک لیا گیا جہاںجہاز کے مسافروں کو پہلے ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ ایک ماہی گیر کشتی لہروں پر ہچکولے کھاتی ہوئی آئی اور قریب پہنچ کر الٹ گئی۔ کشتی میں دو افراد سوار تھے جو سمندر کے یخ بستہ پانی میں غوطے کھانے لگے۔ جہاز کے عرشے پر سے سیکڑوں افراد اندوہناک منظر دیکھ رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے فوری طور پر امدادی کشتی سمندر میں اتارنا چاہی لیکن بعض تکنیکی وجوہ کی بناء پر کشتی کو بروقت سمندر میں نہ اتارا جا سکا۔ اس تاخیر کی وجہ سے ایک شخص لہروں کی نذر ہو گیا۔
جسے اللہ رکھے۔۔۔۔۔۔!
جہاز پر سفر کرنے والے ایک سیاح کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے فوری طور پر اپنا سفر ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے ہمراہیوں کے بہت سمجھانے کے باوجود وہ نہ مانا اور واپس چلا گیا۔
جہاز پر سوار ایک اور نوجوان کو بھی زندگی نے موت کے مسافرں میں سے الگ کر لیا۔ یہ نوجوان اپنے والدین سے ناراض ہو کر آسٹریلیا جا رہا تھا۔ اس کے والدین نے اس کی گمشدگی کے ''دی ٹائمز‘‘ میں اشتہارات دیئے اور اپنے بیٹے سے گھر واپس آنے کی درخواست کی۔ ان اشتہارات کی وجہ سے جہاز کے مسافروں کو لڑکے کے بارے میں پتہ چلا۔ انہوں نے اسے سمجھایا بجھایا اور منت سماجت کرکے اسے سفر ترک کرنے پر رضا مند کر لیا۔ بعد میں ایک ذمے دار شخص کی وساطت سے اس نوجوان کو اس کے گھر روانہ کر دیا گیا۔