"ABA" (space) message & send to 7575

دہلی کے پاؤں دلدل میں

ہندوتوا کی آر ایس ایس سرکار کے مودی راج میں دہلی نئی طرح سے بلکہ کئی طرح سے اُجڑا ہے۔ آج دہلی کے دونوں پائوں دلدل میں ہیں‘ اس کے باوجود بھارتی جمہوریت کا چوتھا ستون گمراہ کن اور تباہ کن خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہماری نسل کے شاید سب سے بڑے احتجاج پر بھارتی میڈیا مینجمنٹ اس سچ کا ''ٹوٹل لاک ڈائون ‘‘کر کے بیٹھی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا ہائوسز بھی اس تاریخ ساز کسان احتجاج سے انصاف نہیں کر رہے۔ مثال کے طور پہ بی بی سی ورلڈ ‘ واشنگٹن پوسٹ ‘سی این این اور دی گارجین وغیرہ ‘ البتہ جرمنی کے DW ٹی وی نے اس احتجاج کی بہت مناسب کوریج کی ہے‘ جبکہ کینیڈا کے وزیر اعظم مسٹر جسٹن ٹروڈو نے بطور ریاست بھارتی پنجاب کے اس احتجاج کی آواز بن کر دکھا دیا ہے۔اگلے روز اس احتجاج کو جناب جسٹن ٹروڈو نے Nextلیول پر پہنچادیا۔ کینیڈین وزیر اعظم نے عالمی رہنمائوں اور اداروں کو خط لکھے‘ جن میں واضح طور پر کہاگیا تھا کہ عالمی برادری بھارتی پنجاب کے احتجاجی کسانوں کے ساتھ بھارت کے غیر انسانی سلوک کا نوٹس اور اُس پر ایکشن لے۔
انڈیا کی میڈیا مینجمنٹ کے کئی دوسرے رخ بھی دیکھنے کے قابل ہیں ۔مثال کے طور پر پہلا رخ یہ کہ بھارتی پنجاب میں سکھ برادری کے لوگ بھاری اکثریت میں آباد ہیں۔ یہی کسان بھی ہیں جو صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ ہریانہ اور پانی پت سے ہوتے ہوئے دہلی کے دروازے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ 95 فیصد احتجاجی کسان سکھ مذہب کے ماننے والے ہیں ۔ سکھوں سے ایک ظالمانہ مذاق یہ بھی ہے کہ بھارتی آئین آرٹیکل 25(1)(b) کے ذریعے انہیں سکھ آبادی نہیں گنتا‘ بلکہ ان کا شمار ہندو مذہب میں کرتا ہے۔ قانون اور انصاف کی دنیا میں اسے کہتے ہیں ''فراڈ آن کانسٹی ٹیوشن‘‘ ۔چونکہ بھارت کی ہندو لیڈرشپ سرے سے سکھوں کی شناخت ماننے سے ہی انکاری ہے ‘اس لیے ان کااحتجاج اور مطالبات کو نہ ماننا بھی اسی انکار کا حصہ ہے۔ ہاں البتہ پچھلے تین روز سے دہلی اس 12 روزہ احتجاج کی دلدل سے نکلنے کی ڈائریکٹ کوشش میں ہے۔ نریندر مودی حکومت کی ٹوٹل میڈیا مینجمنٹ کا ایک اور رخ ایسا ہے جس پہ انڈین میڈیا گرم توے پر مکئی کے دانوں کی طرح اُچھل رہا ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال تو ضرور آرہا ہوگا کہ بھارت میں مودی سرکار مکمل میڈیا مینجمنٹ کس طرح سے کر رہی ہے۔ اس کی طرف بعد میں چلیں گے ‘پہلے یہ سن لیجئے کہ اس وقت مودی سرکار اور مودی کے دربار کا یار انڈین میڈیاپاک چین دوستی میں سے جنگ کے بھڑکتے شعلے کیوں دیکھ رہا ہے؟اس کی کئی وجوہات ہیں‘مگر ایک سبب چین کے دو اہم ترین رہنمائوں کے پاکستانی دورے ہیں۔
پہلا دورہ:سال 2019 میں7اور8ستمبرکو عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ مسٹر وانگ ژی نے دورۂ پاکستان کیا۔ معروف بھارتی اخبار ''دی ہندو‘‘ میں چھپنے والی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے پاک چین مشترکہ اعلامیہ پر شدید بے چینی کا اظہار کیاکیونکہ اب پاکستان اور چین نے کشمیر کے آزاد علاقوں میں پاک چین سی پیک اقتصادی راہداری میں تعمیراتی سرگرمیاں تیزکردی ہیں۔یاد رہے کہ چینی وزیر خارجہ نے پاکستانی لیڈرشپ سے ملاقات کے بعد اعلامیہ میں جموں و کشمیر کا حوالہ شامل کیا۔ 8ستمبر کے اعلامیہ پر بھارت اور اس کے سرپرست بہت غصے میں ہیں ‘جس کے ایک حصے میں کہا گیا تھا کہ چینی اور پاکستانی حکام نے اتفاق کیا ہے کہ سی پیک ‘ون بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بنیادی حصہ ہے‘جو ترقی کے نئے مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔
دوسرادورہ:دوسرا اہم ترین دورہ امسال یکم دسمبر کے دن چائنہ کے منسٹر فار نیشنل ڈیفنس جنرل وی فن گی کا تھاجس میں پاکستان کی جانب سے چین کو مکمل یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان ''ون چائنہ پالیسی ‘‘ پر عوامی جمہوریہ چین کی مکمل حمایت کرتا ہے‘ جس میں تائیوان ‘تبت اور سائوتھ چائنہ سمندر کے ایشوز بھی شامل ہیں۔ چین کے منسٹر فار نیشنل ڈیفنس کی طرف سے پاک چائنہ ڈیفنس سٹریٹیجی کے بارے میں اظہارِ خیالات سے بھارت میں شدید تشویش کی بڑی لہر اُٹھی ہے کیونکہ اب اس بات میں کوئی شک شبہ باقی نہیں رہا کہ پاک چین سٹریٹیجک شفٹ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ دونوں آل سیزن فرینڈ ممالک کے لیے نئے دور کا آغاز ہے جس میں مغرب کا حصہ کہیں نظر نہیں آرہااس لیے اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر دہلی کے دونوں پائوں دلدل میں ہیں۔
اس احتجاج کے پس منظر سے ملنے والے حقائق‘ جو بھارت کے غیر جانب دارحلقوں میں بہت مقبول ہیں‘ کی تفصیل یہاں رکھیں گے‘ کیونکہ اتنے بڑے احتجاج کا بلیک آئوٹ کرنا دنیا کے کسی بھی خطے کے میڈیا کے لیے ممکن نہیں ۔آئیے اس کی چند مثالیں دیکھ لیں :پہلی مثال ریلائنس گروپ والے مکیش امبانی کی ہے جو مودی کے فرنٹ مین کہے جاتے ہیں اور20 نیوز چینلز کے اکیلے مالک ہیں۔ ان میں News18‘CNBC Awaaz‘ CNN-News 18 اور CNBCTV18 بڑے چینلز میں شمار ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مکیش امبانی ریلائنس گروپ فرسٹ پوسٹ اور منی کنٹرول نامی نیوز پورٹلز کا بھی مالک ہے۔ مودی کے حامی میڈیا کی فہرست میں زی نیوز چینلز کے مالک سبھاش چندرا کا نام بھی بہت ممتاز ہے جو بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ممبر بھی ہیں۔ یہی سبھاش چندرا بھارت کے سب سے بڑے انگلش نیوز ٹی وی کے بھی مالک ہیں جس کا نامWIONہے۔تیسرے نمبر پر ریپبلک ٹی وی آتا ہے جس کو بی جے پی کی براہ راست فنڈنگ اورراجیہ سبھا کے ممبرز کی انویسٹمنٹ کے ساتھ راجیو چندریریکر اور ارنب گوسوامی نے مشترکہ طور پہ لانچ کیا تھا۔چوتھے نمبر پر نیوز24آتا ہے ۔اس ٹی وی چینل کی مالک انورادھا پرساد ہیں‘مسٹر روی شنکر پرساد کی سگی بہن ‘جی ہاں وہی روی شنکر جو مودی حکومت کی حالیہ مرکزی کابینہ کے یونین منسٹر ہیں۔اگلا نمبر سدھارشن نیوز کا آتا ہے ‘جس کے مالک کانام سریش چوانکی ہے۔ مسٹر سریش بڑے لمبے وقت سے آر ایس ایس اور اے بی وی پی جیسی تنظیموں کے عہدیدار اور رضاکار ہیں۔ان کی وجہ سے چائے والا سرکار کو بھارت میں تھری ٹرم کی حکومت مل گئی ۔News-X اور انڈیا نیوز کے مالک کارتک شرما ہیں اور بی جے پی کے خاص آدمی بھی ۔مکیش امبانی کے بزنس ساتھی موہن درناہاتہ‘ جو ریلائنس کے بورڈ ممبر بھی ہیں‘ کے ذریعے مودی سرکار نے بھارت کے سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک NDTV میں 52 فیصد مالکانہ حقوق خرید لیے ہیں۔
یہ اس مہا پُرش فہرست کی ایک جھلک ہے جس کے بل بوتے پر مودی سرکار کی مرضی کے خلاف کوئی ٹاک شو ہوسکتا ہے نہ خبر نامہ۔ اس کنٹرولڈ ڈیموکریسی کو پورے میڈیا کنٹرول کے باوجود بھی دو اور بڑی شکستوں کا سامنا کرنا پڑگیا ‘پہلی شکست او آئی سی کی جانب سے بھارت کے مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی ‘کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرنے اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرنے کی قرارداد سامنے آ گئی۔ اس سے بھی بڑا اور اگلی سطح کامعرکہ یہ ہوا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں پاکستان کی قرارداد منظور ہوگئی۔10نکاتی قرارداد بین المذاہب ہم آہنگی اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخیوں کے خلاف بڑے انٹرنیشنل فورمز سے اُٹھنے والا پہلا بڑا قدم ہے ۔ دوسری جانب مڈل ایسٹ کے ملکوں میں بھارت نے تعلقات کے جال پھیلا رکھے تھے ‘لیکن مسئلہ کشمیر پر مسلم اُمہ کے متفقہ اعلامیہ نے دہلی کو علاقائی تنہائی کے دلدل میں دھکیل دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں