"ABA" (space) message & send to 7575

Ukraine War, Acting or Atom bomb?(2)

پاکستان میں ایک خاص حلقے نے پی ایم عمران خان کے دورۂ روس کو نشانے پر لیا۔ وہ کہتے ہیں: جنگ سے پہلے پاکستانی وزیر اعظم کا یہ دورہ امریکی بلاک سے نکل کر روسی بلاک میں شمولیت کا اعلان ہے۔ اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عمران خان کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم Naftali Bennet نے ماسکو پہنچ کر عین جنگ کے دوران روسی صدر سے ملاقات کی۔ اِس پوسٹ اٹیک ملاقات اور عمران خان کی پری وار ملاقات میں کوئی فرق ہے یا نہیں، یہ فیصلہ آپ کر لیں۔
ابھی دو دن پہلے اسلام آباد میں مغرب کی پرستار اور دلدادہ دو سیاسی جماعتوں کے دو اعلانات اس سوچ کو آگے بڑھاتے نظر آئے۔ یہ دونوں اقدام ایک ہی دن میں ہوئے۔ صبح کے وقت مولانا صاحب کی پارٹی کے ایک منجھے ہوئے سینیٹر صاحب نے ایوانِ بالا میں بڑی ''وَکھری ٹائپ‘‘ کی موشن پیش کر ڈالی۔ اس موشن میں لکھا ہے: ایوانِ بالا یورپی یونین کے خلاف پاکستانی وزیر اعظم کی تقریرکا نوٹس لے اور ایوان میں عمران خان کی تقریر پر بحث کی جائے۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
قرارداد کا متن، اس کا سادہ سا مطلب یوں واضح کرتا ہے:
یورپی یونین کے سفیروں نے پاکستان کے نام جو ہدایت نامہ جاری کر کے اُسے براہِ راست میڈیا کے حوالے کر دیا، وہ تو ٹھیک سفارتی رویہ تھا‘ لیکن پی ایم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں مقیم Western Envoys کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک سمیت 22 سفارتی مشنز کے سربراہان کے یکم مارچ کو پبلک پریس میں جاری کیے گئے مشترکہ خط میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ یوکرین میں روس کی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی حمایت کرے۔
عمران خان صاحب نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''آپ ہمیں کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ہم آپ کے غلام ہیں... کہ جو آپ کہیں گے وہ ہم کریں؟‘‘ یہاں یہ ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان‘ دونوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس یوکرین جنگ پر پیش کی گئی قرارداد کی ووٹنگ سے abstain کرنے کا حق استعمال کیا تھا۔ اسی لیے پی ایم عمران خان نے ان سفیروں سے پوچھا، کیا آپ نے ہندوستان کو ایسا خط لکھا؟
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس خط اور اس کے متن کو عام کرنے کی حرکت کو معمول کی روایتی سفارتی مشق کے خلاف قرار دیا۔ اُسی شام ایک اور کُشتۂ عشقِ مغرب نے اسلام آباد میں پریس ٹاک کی‘ جس میں پاکستانی پرائم منسٹر کے خلاف چارج شیٹ میں سب سے بڑا الزام یہ سامنے آیا کہ عمران خان یورپی یونین کی غیر سفارتی خواہشات کے خلاف 'کیا ہم تمہارے غلام ہیں؟‘ کہنے کے مجرم ثابت ہوئے۔
انگریزی زبان کا محاورہ ہے: The first casualty when war comes is truth اپنے ہاں سیاسی جنگ میں سب سے پہلے ملکی مفادات مارے جاتے ہیں۔ ایجنڈا کہیں سے، مال کہیں سے، پروپیگنڈا کہیں سے اور ہر وبال یہیں پہ۔ امریکہ کی ایک بے باک خاتون صحافی Kim Iversen ہیں‘ جنہوں نے یوکرین جنگ میں سچ کے قتل کا دلیرانہ اعتراف کیا، اور بتایا کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور وڈیوز کی ناقابلِ یقین مقدار ہے‘ جنہیں مشہور نیوز آئوٹ لیٹس پھیلا رہے ہیں۔ یہ غلطی میں نے بھی جمعہ کو Rising (امریکی نیوز ویب سیریز) پر کی۔ میں زیلینسکی کے ملٹری گیئر میں فرنٹ لائنز پر لڑنے سے بہت متاثر ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا، وہ تصویر پچھلے سال اپریل کی تھی۔ مجھے معاف کر دیں‘ مگر اس کام میں میں اکیلی نہیں، Bild، جرمنی کے سیاسی نیوز آئوٹ لیٹ نے ایک وڈیو شیئر کی جس میں رشیا کی Kyiv پر خوفناک bombing دکھائی دی۔ بعد میں ظاہر ہوا کہ یہ فوٹیج چین کے شہر Tianjin میں پیش آنے والے ایک کیمیکل دھماکے کی ہے۔
اسی طرح امریکی نیوز ویب سائٹ Newsmax نے تباہ گھر کے سامنے بوڑھی عورت روتے ہوئے دکھائی۔ کیپشن لگایا، ''یوکرین میں حالیہ تباہی‘‘ دراصل یہ تصویر 2015 کی ہے۔ ایک اطالوی نیوز براڈکاسٹ نے یوکرین وار براڈکاسٹ کے نام پر وڈیو گیم War Thunder سے میزائلوں کی بارش والی فوٹیج استعمال کی۔ دیکھنے والے اسے اصلی جنگ جان کر دہشت زدہ رہ گئے۔ اسی طرح ایک شاکنگ وڈیو میں سڑک پر ٹینک ایک سویلین گاڑی کو کچلتا ہے۔ سوار بچ گیا، اسے رشین ٹینک کہہ کر خبر چلائی گئی۔ حقیقت میں یوکرینین ٹینک آئوٹ آف کنٹرول ہوا اور غلطی سے گاڑی پر چڑھ گیا۔ Kim Iversen کہتی ہیں: میں گھوسٹ آف Kyiv کو نہیں چھوڑ سکتی۔ وائرل فوٹیج میں یوکرینی پائلٹ 6 رشین جیٹ گراتا ہے۔ بعد میں یہ نمبر10 تک پہنچ گیا۔ اب پتہ چلا یہ فوٹیج Digital Combat Simulator وڈیو گیم کی ہے۔ لوگ نہ ختم ہونے والی فیک نیوز اور وڈیوز دیکھنے پر مجبور ہیں۔
امریکی ٹی وی Fox News نے یو ایس سیکرٹری آف ڈیفنس کے سابق سینئر ایڈوائزر کرنل Doug Macgregor سے ایک انٹرویو میں پوچھا: آپ کو کیا لگتا ہے، پوتن ایسا کیوں کر رہا ہے؟ کرنل نے جواب دیا: ولادی میر پوتن وہی کر رہا ہے جس کی وارننگ اس نے ہمیں 15 سال پہلے دے دی تھی‘ جو یہ تھی کہ وہ یو ایس فورسز اور میزائل اپنے بارڈر پر کسی صورت برداشت نہیں کرے گا‘ بالکل ویسے ہی جیسے ہم امریکہ سے 1250 کلومیٹر دورکیوبا میں رشین میزائل اور ٹروپس کو برداشت نہیں کریں گے۔ کرنل نے بتایا، ایسٹرن یوکرین کی لڑائی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ صرف 30 سے 40 ہزار کی بڑی تعداد سائوتھ ایسٹ میں موجود ہے۔ وہ سرنڈر نہیں کرتے تو رشینز انہیں اُڑا دیں گے۔ اسی لیے زیلینسکی پوتن کے نمائندوں سے مل رہا ہے۔
یوکرین وار میں گھوم پھر کر امریکی صدر جو بائیڈن کا ذکر بھی آتا رہتا ہے۔ اگلے روز صدر بائیڈن نے کہا، ہم یوکرین کی جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس جنگ کے آغاز میں بائیڈن صاحب نے کہا تھا: یوکرین ہم آ رہے ہیں۔ اِس جنگ میں ساری دنیا کا صرف ایک ہی نکتے پر اتفاق ہے، یہی کہ رشین ایٹمی وار مشین کو دیکھ کر مغرب ابھی تک اِس جنگ میں نہیں کودا۔
اپنے ہاں مولانا صاحب نے صدر جو بائیڈن کا نام لے کر کہا کہ وہ پاکستان میں اُن کی خواہشات کے مطابق ووٹ کو '' عزت‘‘ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ مولانا یہ بھول گئے کہ پاکستان خود مختار آئین و سرزمین، عدلیہ و پارلیمان کے ساتھ ساتھ ایٹمی طاقت بھی رکھتا ہے۔ ویسے بھی سیاست میں کوئی 7ویں بحری بیڑے کو دعوت دینے کا ارادہ اچھا نہیں ہوتا‘ مگر یوں دل بہلانے میں حرج کوئی نہیں۔
ارادہ روز کرتا ہوں کہ ان سے حال دل کہہ دوں
مگر وہ روبرو آئیں تو ''کانپیں ٹانگ‘‘ جاتی ہیں
(ختم )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں