"ABA" (space) message & send to 7575

بھارت، ایٹم کا لنڈا بازار

یہ ایک ایسی پریس کانفرنس تھی جس نے بین الاقوامی سطح پر ہلچل سی مچا دی ہے۔ بات ہی ایسی تھی۔ جس ملک میں ایٹم بم بنانے والا یورینیم لنڈا بازار میں فروخت کا آئٹم بن جائے، وہاں ایکسٹرا کیئر کی ضرورت ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی گزشتہ پریس ٹاک سے یہ انکشاف ہوا کہ بھارت کی طرف سے ایک unarmed یعنی غیر دھماکہ خیز مواد کا حامل میزائل فائر کیا گیا۔ یہ ballistic میزائل ہمارے صوبہ پنجاب کے علاقے میاں چنوں میں گرا، یا گرایا گیا۔ بھارت کی اِس واردات کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا؛ البتہ سویلین پراپرٹیز damage ہو گئیں۔ بھارتی فوج کے خاص دستے کے ہاتھوں یہ میزائل ہریانہ کے قریب سے فائر کیا گیا تھا۔ وطنِ عزیز کے دفاعی اداروں نے اِس میزائل فائر کے فلائٹ پاتھ کی مکمل ٹریکِنگ کی۔ پاک فوج کے ترجمان نے شاید سب سے اہم اور تشویشناک بات یہ بتائی کہ یہ میزائل کئی انٹرنیشنل فلائٹس اور اندرونِ ملک پروازوں کی سیف فلائٹ کو خطرے میں ڈال سکتا تھا، کیونکہ یہ کئی پروازوں کے فلائنگ aviation کے رستے میں آیا۔
شروع میں تو بھارت نے چُپ سادھ لی لیکن جب اِس سنگین میزائل فائر پر شور زیادہ ہونا شروع ہوا تو مودی سرکار اور آر ایس ایسی فوج کو بھی مجبوراً جواب دینا پڑا۔ بھارتی وزارتِ دفاع نے بس روٹین کا رویّہ دکھایا اور معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے میزائل کا فائر ہونا ایک accident قرار دیا۔ اعلیٰ سطح پر اس کی تحقیقات کے اعلان کے ساتھ ساتھ، بھارتی سینا کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کو اس غلطی کے حوالے سے اعتماد میں لیا جاچکا تھا۔
انڈین ڈیفنس منسٹری کا یہ دعویٰ بذاتِ خود ایک سنگین مذاق ہے کیونکہ اگر میزائل کا فائر ہونا ایک حادثہ تھا، وہ بھی پاکستان کی طرف منہ کرکے‘ ایسے میں بھارتی وزارتِ دفاع یا فوج نے پاکستان کو اِس بات پر اعتماد میں لیا کہ ایک میزائل پاکستان کی طرف رُخ کرکے accident میں فائر ہونے جارہا ہے؟ بھارت کی وزارتِ دفاع کا ری ایکشن انتہائی غیر سنجیدہ اور بڑا مضحکہ خیز تھا‘ جسے ہمارے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے رَد کیا، اینڈ rightly so۔ امن کی آشا کا ناٹک، اور جنگ کی بھاشا کا پرچار کرنے والوں کا رِسپانس، میزائل فائر کے جوابات کے بجائے، نئے سوال اُٹھاتا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اتنی غیرذمہ دار نیوکلیئر ریاست ہے، جہاں پہ معمول کی maintenance کے دوران وہ غلطی سے اپنے ہمسائے ملک پر میزائل داغ دیتا ہے؟ یہ غلطی دو پڑوسی ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ بھی شروع کروا سکتی تھی۔ اگر بھارت کی یہ وضاحت جھوٹی نہیں تو بھارتی technicians کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ضرور ہے کیونکہ یہ واقعہ بھارت کی فوج میں efficiency اور professionalism‘ دونوںکا پول کھول دیتا ہے۔ اربوں ڈالر کے دفاعی بجٹ کی سرمایہ کاری کے باوجود بھارت کی فوج کا یہ مبینہ procedural lapse بھارتی آرمی چیف اور جرنیلوں کے لیے ذلت آمیز لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکے داروں نے، جو بائیڈن صاحب سے لے کر میکرون تک، پاکستان کو FATF میں اُلجھائے رکھنے والے تمام ممالک کے سربراہان نے بھارتی اشتعال انگیزی پر کوئی ردِ عمل نہ دیا۔ متعصب انٹرنیشنل میڈیا نے بھی بھارت کی بے جا اور بے تکی حمایت جاری رکھنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھارتی نااہلی/ شرپسندی پر بات کرنے سے مکمل گریز کیا۔ اگر ایسا اتفاق خدانخواستہ پاکستان کی جانب سے ہوجاتا، تو مغربی میڈیا کا ری ایکشن کیا ہوتا، آپ خوب سمجھ سکتے ہیں۔
یہ بھاتی جارحیت تھی یا ایٹمی جہالت، اس بات کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں‘ مگر ایک بات طے ہے کہ یہ واردات one-off incident ہرگز نہیں، بلکہ ایک pattern کا حصہ ہے۔ بھارت اس سے پہلے بھی اسی طرح کے خطرناک کھیل کھیلتے ہوئے پکڑا جا چکا ہے‘ مگر گلوبل کمیونٹی اُس کے خلاف کسی بھی قسم کے مؤثر ایکشن لینے سے قاصر رہی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ یورینیم ایٹمی ہتھیاروں کا ایک Key Ingredient ہے جس کی خریدوفروخت عام اشخاص ہرگز نہیں کر سکتے لیکن اگر بھارت کی جانب نظر ڈالی جائے تو وہاں یہ sensitive مواد آلو، گاجر یا لنڈے کے کوٹ کی طرح سرِعام بک رہا ہے۔ اب تک بھارت میں سرکاری سکیورٹی سے یورینیم کی چوری اور پھر اُسے بلیک مارکیٹ میں بیچنے کے خوف ناک واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ماہِ جون سال 2021 کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بھارتی صوبے جھارکنڈ میں ایک شخص یورینیم بیچتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
ایٹم بم کے استعمال کی اِس آئٹم کی فروخت کا واقعہ بھارت کے معاشی کیپٹل ممبئی میں بھی رپورٹ ہوا، جس میں دو افراد کے قبضے سے 7 کلو یورینیم برآمد کی گئی۔ بھارت میں یورینیم لنڈا بازار کی کیونکر زینت ہے، اِس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہاں 1994 تا 2021 نیوکلیئر مواد چوری یا گم ہونے کے دو چار نہیں بلکہ 18 واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
اب آئیے South Asia Strategic Stability Institute کے اعداد و شمار کی جانب، اِن کے مطابق بھارت میں کُل 200 کلوگرام نیوکلیئر مواد چوری یا گم ہو چکا ہے۔ 1994 میں انڈین سکیورٹی فورسز اور بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مختلف چھاپوں میں 2.5 کلوگرام یورینیم ریکور کیا۔ اسی طرح 1998 میں 111 کلوگرام، 2000 میں 59.1 کلوگرام، 2001 میں 200 کلوگرام، 2003 میں 225 گرام، 2008 میں 4 کلوگرام، 2016 میں 9 کلوگرام اور 2021 میں 13.75 کلوگرام ریکور کیا۔ یہ تمام وارداتیں اور برآمدگیاں بھارت کے غیرمحفوظ ایٹمی ریاست ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
یہ سب واقعات اور اِن کے پیچھے چھپے ہوئے اسباب، انڈیا کے لئے بالخصوص اور ورلڈ کمیونٹی کے لئے بالعموم، بہت سارے خطرناک چیلنجز کو جنم دیتے ہیں۔ بھارت نے 1974 سے لے کر اب تک، uranium کی چوری کے روک تھام کے لئے کون سے اقدامات کئے ہیں؟ uranium چوری میں ملوث افراد کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا اور اِن افراد کے تانے بانے کن شرپسند قوتوں یا تنظیموں سے جا ملتے ہیں؟ کیا بھارت کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ ہے یا کسی قسم کے rogue elements بھی اِس کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟ میزائل غلطی سے کس طرح چل گیا، کیا یہ نا اہلی تھی یا مودی کے جنگی جنون میں مزید اضافے کی دلیل؟ میزائل maintenance کے دوران لانچ کیسے ہو گیا؟ کیوں مغربی ممالک اور عالمی ایٹمی ادارے، اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں؟ کیا بھارت سے چوری کیا گیا uranium اور نیوکلیئر مواد، ساری دنیا کے امن کے لئے تباہ کن ثابت نہیں ہو سکتا۔
کچھ سنجیدہ حلقے اِسے سوچا سمجھا ٹیسٹ فائر قرار دیتے ہیں تاکہ پاکستان میں میزائل مانیٹرنگ اور رسپانس ٹائم کو جج کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں