"ABA" (space) message & send to 7575

ریفرنس کیوں؟… (2)

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت آج پھر ہو گی۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے حوالے سے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں pending ہے اور عدالت عظمیٰ تقریباً روزانہ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے‘ لیکن آج کل شہرِ اقتدار میں جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں کا دور دورہ ہے۔ سیاسی پارہ ہائی ہے‘ لائن کھنچ چکی ہے اور دونوں ٹیمیں Super Over کے لیے بظاہر تیار دکھائی دے رہی ہیں۔
تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے آخری‘ فیصلہ کُن پارلیمانی جنگ سے قبل‘ حکومت اور اپوزیشن اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے بڑے سیاسی جلسوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ تحریکِ انصاف نے 27 مارچ کو ''امر بالمعروف‘‘ کے عنوان سے جلسہ کیا تو پی ڈی ایم بالخصوص مولانا اور مریم نواز نے 28 مارچ کو شہرِ اقتدار کا رُخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ محض جلسے نہیں عوامی barometers ہیںجو تمام جماعتوں کی موجودہ مقبولیت اور ان کے مستقبل کے بارے میں بہت سی چیزیں واضح کرتے ہیں‘ رائے عامہ کے پاپولر رجحان سمیت۔ ابھی تک کے نمبر کائونٹ میں عمران خان کے جلسوں کے مقابلے میں پورا پی ڈی ایم ڈھیر نظر آیا۔
35 سال تک اقتدار کے ایوانوں میں پلنے والی مسلم لیگ (ن) کا ''مہنگائی مکاؤ مارچ‘‘ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور سے شروع ہوا۔ عجیب تضاد تھا کہ مہنگائی اور غریبوں کے درد رکھنے کا دعویٰ کرنے والے لاہور کے پوش ترین علاقے کے محلات سے اپنے مارچ کا آغاز کر رہے تھے۔ مارچ کے بارے میں (ن) لیگ نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر کافی hype بنانے کی کوشش کی۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز دونوں ہی لاہور کے مختلف علاقوں کے دورے کرتے رہے اور ورکرز کو مارچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت بھی کی مگر جب زیرو آور پر مارچ باہر نکلا تو ایک بات واضح ہو گئی کہ عوام نے مریم نواز کی کال مکمل طور پر مسترد کر دی ہے۔ چند سو گاڑیاں‘ جن سے زیادہ تو لاہور کی کسی بھی اہم شاہراہ پر ٹریفک جام کے دوران عام دنوں میں جمع ہو جاتی ہیں۔ ریلی میں شرکا کی تعداد بھی تسلی بخش نہ تھی۔ کئی ہفتوں کی تیاری کے باوجود نون لیگی مرکزی قیادت اپنے ورکرز متحرک کرنے میں 100 فیصد نا کام رہی۔ وجہ یہ ہے کہ شاید ورکر بھی اپنی جماعت کا بل کھاتا بیانیہ نہیں سمجھ پا رہے۔ کبھی مزاحمت تو کبھی بڑھکیں اور کبھی چیری بلاسم ۔ لندن سے بیٹھ کر مزاحمت کا پاٹھ پڑھانے والے میاں صاحب آج کل تقریریں کرنے سے کیوں گریز کر رہے ہیں‘ وجہ سب جانتے ہیں۔ مریم نواز بھی کچھ چپ چپ سی ہیں۔ ورکر اب کس کی کس بات پر باہر نکلیں اور کس ایجنڈے سے؟ جس لیڈر کے نعرے لگتے ہیں‘ وہ خود مفرور ہے‘ بلکہ عدالتی مفرور‘ جس کا مستقبل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے مطابق تا حیات نا اہلی کے سوا اور کچھ نہیں۔ مریم نواز بھی عدالتی فیصلے سے نا اہلی کا زخم کھانے کے بعد پارلیمانی سیاست اور ایوان سے آئوٹ ہیں۔
اب آئیے ذرا پی پی پی کے جلسے‘ جلوس اور انتخابی prospects کی جانب‘ جو اس وقت دونوں ہی کچھ خاص نہیں۔ اسی ہفتے چیئرمین پیپلز پارٹی پارا چنار اور مالا کنڈ ڈویژن کے دورے پر گئے۔ بے پناہ تشہیر‘ ٹرانسپورٹ پر اچھا خاصا خرچہ اور Canvassing کے باوجود چند سو لوگ ہی دونوں جلسوں میں شرکت کرنے آئے۔ نہ یوتھ‘ نہ جوش‘ نہ ایجنڈا‘ نہ ردھم۔ 15 سال سے ایک صوبے کی مسلسل حکومت کے حق میں کہنے کے لیے کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں تھا‘ جس کی وجہ سے لوگ پی ٹی آئی کے بجائے '' کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘‘ کے نعرے کی طرف متوجہ ہو سکیں۔
چند سال قبل کچھ سینئر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ خیبر پختونخوا میں پی پی پی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور پی پی قیادت انتخابی سیاست میں پھر relevant ہونے کے لیے خیبر پختونخوا کے قلعے میں دراڑ ڈالنے کا پلان بنا رہی ہے۔ کئی سال گزر نے کے بعد بھی پنجاب اور کے پی میں پارٹی کے حالات قابلِ رحم ہیں۔ اردو‘ انگریزی کو تو جانے دیں‘ نہ تو چیئرمین کا بیانیہ عام لوگوں کو متاثر کر رہا ہے نہ ہی پڑھی لکھی‘ با شعور یوتھ ایک نوجوان لیڈر کو لفٹ کرانے کو تیار ہے‘ جس کی بڑی وجہ پی پی کے اندر انکل راج ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو سیاسی کیریئر کے ابتدائی دنوں میں کسی خیر خواہ نے ایسے ہی انکلز سے بچنے کا مشورہ دیا تھا۔ شاید بلاول کو بھی اپنے tried and tested مشیران سے چھٹکارا حاصل کر نا ہو گا جن کے مشوروں اور خوابِ خرگوش کا شکار سیاست کرتے کرتے پی پی غیر مقبول سے irrelevancy کا سفر طے کرنا شروع ہو گئی ہے۔
اب کرتے ہیں تحریکِ انصاف کے موجودہ رول کی بات۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس وقت چاروں صوبوں‘ کیپیٹل‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں صرف ایک پارٹی اور ایک ہی لیڈر ایسا ہے جسے یکساں مقبولیت‘ بلکہ عوامی ہمدردی ملتی ہے۔ عمران خان نے صحیح معنوں میں وفاق کی سیاست کی‘ جس کے مقابلے میں مولانا صاحب صرف اپنے پیرو کاروں کے لیڈر ہیں۔ آلِ شریف کا سارا ٹبّر‘ تین چار نسلوں سے‘ اسمبلیوں میں ہے اور جی ٹی روڈ سے ہٹ کر سائوتھ اور نارتھ پنجاب میں نہ ہونے کے برابر۔ بلاول کے انکلز نے انہیں پنجاب کے میدانوں سے نکال کر سیاسی طور پر گود لے رکھا ہے۔ ایسے جیسے انہیں کہیں ہاری‘ مزدور‘ کسان اور عام ووٹر کی نظر ہی نہ لگ جائے۔
جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے‘ اسلام آباد کے سار ے راستے پریڈ گرائونڈ کی طرف مڑ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی سیاسی تقسیم Imran vs All کے علاوہ کچھ نہیں۔ پی ٹی آئی تین محاذوں پر 'سٹیٹس کو‘ کے خلاف اللہ کے آسرے پر اکیلے جنگ لڑ رہی ہے۔
پہلا محاذ: صدارتی ریفرنس کے ذریعے ووٹ فروشی کی منڈی میں آئین پامال کرنے والے مافیا کے خلاف عدالتی کارروائی۔
دوسرا محاذ عام پبلک تک رسائی کا ہے۔ رائے عامہ کے سارے تجزیہ کار اور تبصرہ نگار کھلے دل سے تسلیم کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے یہ میدان مار لیا ہے۔
تیسرا محاذ قومی اسمبلی کا پارلیمانی فلور ہے جہاں ابھی تک اپوزیشن بھی اپنے عوام کو مایوس کرتی آئی ہے۔
حتمی معرکہ کون جیتے گا اس میں اب کوئی شک باقی نہیں۔ اس میں بھی نہیں کہ عمران خان No more اور Absolutely not کی قیمت چکا رہے ہیں۔ بلیو ایریا کے معروف ٹیلر کا کہنا ہے‘ پی ڈی ایم کے مختلف لیڈروں نے مجھ سے 21 شیروانیاں بنوائی ہیں۔ خان کا ایجنڈا‘ بدی کو چھوڑ کر بھلائی کا ساتھ دینے کی پکار ہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں