"ABA" (space) message & send to 7575

ریفرنس کیوں؟ (1)

70 کے عشرے میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اسمبلی کی غیر موجودگی میں قومی بجٹ کیسے پاس کیا جائے؟ یہ بڑا اہم اور tricky سوال تھا کیونکہ فنانس ایکٹ پاس کرنے کا ایگزیکٹو کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا؛ چنانچہ اُس وقت کے عبوری سیٹ اَپ نے فیصلہ کیا کہ public importance کے اِس قومی معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے ایک ریفرنس بنا، جس پہ سپریم کورٹ نے رائے دی کہ پچھلے سال کے قومی میزانیے کو اگلی اسمبلی کے آنے تک extend کر دیا جائے۔ سوال اور مباحثہ دونوں ختم ہو گئے۔
صدارتی ریفرنس کی تاریخ میں 2011 کے سال کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ 2011 کے ماہِ اپریل کی 2 تاریخ کو سابق وزیر اعظم کے قتل کے خلاف ٹرائل کی آواز انصاف کے ایوانوں میں پھر سے گونجنے لگی۔ قانون اور انصاف کی دنیا میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھائے جانے کے فیصلے کی حیثیت ہمیشہ سے ہی متنازع چلی آئی ہے کیونکہ اس فیصلے کے متعصبانہ ٹرائل کو بین الاقوامی سطح پر murder of a trial کہا گیا؛ چنانچہ اس کیس کے فیصلے پر اُٹھنے والے قومی تنازع کے حتمی حل کے لیے صدرِ پاکستان نے سپریم کورٹ کے روبرو آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس بھجوایا‘ جس کی پیروی کے لیے سینئر ASC بابر اعوان صاحب نے وزیرِ قانون کی حیثیت سے استعفیٰ دے کر بھٹو کو عدالتی انصاف دلوانے کا فیصلہ کیا۔ ریفرنس کی سماعت مہینوں تک چلتی رہی جس کے بعد پی پی پی کی قیادت نے اپنا وکیل بدل لیا۔ تب سے اب تک 11 سال ہو چکے ہیں مگر ریفرنس پینڈنگ ہے۔ اس قدر تاخیر کے باوجود پی پی پی کی جانب سے اس ریفرنس کی سماعت یا جلد فیصلے کے لیے 2 روپے کا ٹکٹ لگا کر کوئی درخواست تک فائل نہ کی گئی۔ قانونی حلقے کہتے ہیں کہ اب متاثرہ پارٹی کو اس فیصلے میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی‘ اس لیے ریفرنس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا۔
تیسرا اہم ترین ریفرنس پی ٹی آئی کے پہلے دورِ حکومت میں ریفرنس نمبر1 سال 2020 میں سپریم کورٹ کے روبرو جمع کروایا گیا۔ اِس ریفرنس کے ذریعے پاکستان کے انتخابی تنازعات کو جنم دینے والی سب سے بڑی خرابی یعنی ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی کا سوال اُٹھایا گیا‘ جس کی وجہ حفیظ شیخ کے سینیٹ الیکشن میں قومی اسمبلی کے ممبران کی کھلے عام خریداری کی وڈیو لیک بنی۔ عدالتِ عظمیٰ کے سامنے سوال یہ تھا کہ سینیٹ کے الیکشن کو شو آف ہینڈز کے ذریعے منعقد کرنے کی اجازت دی جائے۔ ایسا تو نہ ہو سکا، لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے secrecy of ballot کا پردہ بڑی حد تک ہٹانے کا حکم جاری کیا۔
یہ الگ بات ہے کہ انتخابات کے ریگولیٹر ادارے نے ووٹ فروشی کے خاتمے میں اپنا آئینی کردار ادا کرنے سے مکمل احتیاط برت رکھی ہے حالانکہ ویڈیو کلپس میں سودے بازی کرنے والے امیدوار کے ایجنٹ نے وڈیو سے انکار بھی نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ اب ضمیر فروشی کا خفیہ کاروبار جو spy camera کے ذریعے ایکسپوز ہوتا تھا، اب اُس نے کیمروں کے سامنے ضمیر ٹریڈنگ کا لنڈا بازار لگا کر رکھ دیا ہے۔
یہ پس منظر، محض اس بات کو واضح کرنے کے لیے تھا کہ اس ہفتے عمران خان صاحب کی ہدایت پر جو صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا گیا، وہ کوئی اَنہونی نہیں کیونکہ وطنِ عزیز کی جوڈیشل ہسٹری میں اس طرح کے اہم سوالات پر صدارتی ریفرنس فائل ہوتے چلے آئے ہیں‘ جن پر متاثرہ یا اُس معاملے میں دلچسپی رکھنے والے فریقوں کو سن کر عدالتِ عظمیٰ نے اپنی دانست میں رائے دے رکھی ہے۔
اب آئیے موجودہ صدارتی ریفرنس پر اُٹھنے والے شور اور سوالات کی طرف جن میں سوال اُٹھانے والے سیاست کار اور تجزیہ کار، تبصروں کی دھوم دھام کوجاری رکھے ہوئے ہیں مگر اِس rush hour میں صدارتی ریفرنس میں اُٹھائے گئے اکلوتے آئینی سوال کا تذکرہ، آپ کو دیکھنے کو کہیں نہیں ملے گا۔ اِس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ریفرنس نمبر1 برائے سال 2022 میں فریم کیے گئے سوال کو سامنے رکھ کر اُس پر گفتگو کی جائے۔
صدرِ پاکستان نے یہ ریفرنس بھجواتے وقت سپریم کورٹ سے اِن لفظوں میں گزارش کی ''میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر، ڈاکٹر عارف علوی، عوامی اہمیت کے قانون کے مطابق سوالات پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہوں‘‘ جس کے بعد صدارتی ریفرنس میں دیئے گئے سوال کے الفاظ یہ ہیں:
'''منتخب اراکین کے انحراف میں بہت سی برائیاں ہیں۔ سب سے پہلے، اگر ممبر کسی منشور کی بنیاد پر، یا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنا پر، یا عوامی اہمیت کے کسی سوال پر اس کے مخصوص موقف کی وجہ سے منتخب ہوا ہے، تو اس کا انحراف ووٹرز کی طرف سے ان پر اعتماد کے اظہار کی واضح خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اگر اس کا ضمیر اسے ایسا حکم دیتا ہے، یا وہ اسے مناسب سمجھتا ہے، تو اس کے لیے واحد راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنے نمائندہ کردار کو ختم کرنے کے لیے استعفیٰ دے دے جس کی وہ اب نمائندگی نہیں کرتا اور دوبارہ انتخاب لڑے۔ اس سے وہ عزت دار، سیاست کو شفاف، اور اصولی قیادت کا ظہور ممکن بنائے گا‘‘۔
Shafiur Rehman J, Khawaja Ahmad Tariq Rahim v Federation of Pakistan.
PLD 1992 Page 646
''یہ ذکر کرنا سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں ہو گا کہ فلور کراسنگ کے کینسر کی وجہ سے، پاکستان، ملک کی سیاست میں استحکام حاصل کرنے میں ناکام رہا‘‘
Ajmal Mian CJ, Wukala Mahaz BaraI Tahafaz Dastoor vs Federation of Pakistan
PLD 1998 SC Page 1263
اس بنیادی سوال کے بعد صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے ریفرنس میں وہ وجوہات شامل کی ہیں، جو اس سوال کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے رکھنے اور جواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ عام قانونی زبان میں ان وجوہات کو ریفرنس کی statement of reasons and intent بھی کہا جا سکتا ہے۔
ملک کی کئی اعلیٰ عدالتوں نے آئینی تشریح سے متعلقہ کیسز میں آئین کی اسلامی اور جمہوری شقوںکو آئین کا basic structure ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ ایسے ڈکلریشنز کی روشنی میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ریفرنس لانے کی وجوہات یوں واضح کیں،
پہلی وجہ: آئینِ پاکستان کی سکیم اور روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، جس میں ہماری جمہوری قدروں، قومی روایات اور پارلیمانی traditions کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح سے صدرِ پاکستان نے پارلیمانی جمہوریت کی اصل روح اجاگر کر دی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں