"ABA" (space) message & send to 7575

حضرتِ ضمیر کا عدم اعتماد

''ضمیر‘‘ ان دنوں ''بے ضمیری‘‘ کی شہ سرخیوں میں آ گیا ہے۔ ضمیر ہے کون‘ کیسا ہے؟ قد کاٹھ‘ حلیہ‘ رنگ روپ‘ پہناوا کیسا ہے؟ کہاں سے بولتا ہے‘ کب بولتا ہے‘ کیوں بولتا ہے؟ ضمیر صرف ضرورت کے وقت کیوں حرکت میں آتا ہے اور اسے جگانے والا ریموٹ کنٹرول کس کے پاس ہے؟ یہ اور ایسے بے شمار سوال ان دنوں سوشل میڈیا پر لاکھ‘ دس لاکھ نہیں بلکہ کروڑ ہا لوگ پوچھ رہے ہیں۔ ان میں صرف مین لینڈ پر رہنے والے پاکستانی خواتین و حضرات ہی شامل نہیں بلکہ سات سمندر پار بسنے والے پاکستانی بھی ہیں۔ عمر‘ برادری‘ علاقے‘ مذہب اور وطن کی بھی قید نہیں رہی‘ اب تو انڈینز‘ بنگلا دیشی‘ عرب اور فرنگی دیس کے رہنے والے بھی ضمیر صاحب کی جانکاری کے لیے وڈیوز بنا چکے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس حضرتِ ضمیر کو ''گم شدہ افراد‘‘ کی لسٹوں میں تلاش کیا جائے یا کسی اونچے ایوان میں۔ یا پھر کدھر‘ کہاں‘ کب اور کیسے؟ ہاں البتہ ہم جیسوں کی سہولت کے لیے شاعرِ عوام حبیب جالب نے ''ضمیر‘‘ کے کچھ کُھرے یوں تلاش کر رکھے ہیں:
اُصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہِ اہلِ و فا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم
ایک اور F.A.Q یعنی بہت زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ آخر حضرتِ ضمیر‘ ہر الیکشن یا سیاسی بحران کے دوران ہی کیوں جاگتے ہیں؟ ضمیر صاحب جاگتے ہی اُن 15‘ 20 خصوصی افراد کے جتھے کو بار بار آواز کیوں لگاتے ہیں؟ 75 سال سے پاکستانی پارلیمان کے وفا شعار ممبران‘ ان کی آواز اور درشن کے فیض سے ہمیشہ کیوں محروم رہ جاتے ہیں؟ ضمیر صاحب کی نگاہیں بے ارادہ 15‘ 20 Electables کے عجیب سے کارواں کے سراغ میں ہی کیوں بھٹکتی رہتی ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جب ایک کیس میں امریکی وکیل نے پاکستان کے خلاف دشنام طرازی تو اُن دنوں ضمیر صاحب کی مصروفیات کیا تھیں؟
سوالوں کی یہ ہوشربا ڈکشنری تو کبھی ختم نہ ہو گی‘ آئیے ضمیر صاحب سے اجازت لیں اور ایک رباعی کے بعد تاریخ کے واقعہ نگاروں سے ہیلو ہائے کر لیں۔ رباعی یہ ہے:
نہ کسی کو فکرِ منزل‘ نہ کہیں سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے‘ جو رواں ہے بے ارادہ
وہی لوگ ہیں ازل سے جو فر یب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں کبھی اوڑھ کر لبادہ
جدید مورخ کے دروازے پر پہنچے‘ دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ ہاں البتہ آواز آئی: لکھتے جائو۔ میں نے مڑ کر دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی اور نظر نہیں آ رہا تھا۔ اصل میں یہ آواز موبائل فون پر سوشل میڈیا سے آرہی تھی‘ آئیے یہ voice notes شیئر کر لیتے ہیں۔
پہلا نوٹ: جب تک ہم مغرب کے غلام رہے‘ ہم وطنوں پر 400 ڈرون حملے کروائے‘ ہم پر اعتماد تھا۔ جب اُس نے کہا: ہم کسی کے غلام نہیں تو عدم اعتماد آ گیا۔
دوسرا نوٹ: اُس نے تو پوری دنیا میں اسلاموفوبیا‘ ناموسِ رسالتﷺ‘ مسلم اُمہ اور پاکستان کا نام اونچا کیا مگر اُس کے کچھ ایم این اے کچھ پیسوں کے لیے اُسے نیچا دکھانے پر تُل گئے۔
تیسرا نوٹ: جب اینکرز نے حضرتِ ضمیر کے قیدیوں سے پوچھا کہ تم کپتان کا ساتھ چھوڑنے کے بعد عوام سے ووٹ کیسے مانگو گے؟ تو جواب آیا: پبلک تو دو‘ تین دن میں سب کچھ بھول جاتی ہے۔
چوتھا نوٹ: جب نون لیگی پارلیمنٹیرین نے ساری دنیا کے سامنے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اعترافِ توہینِ آئین کیا کہ ہاں! ہم نے پیسے دے کر ایم این اے خریدے ہیں تو یہ سب سُن کر بھی حضرتِ ضمیر نے کوئی ہل جُل کیوںنہ کی؟
پانچواں نوٹ: وہ ملک جہاں تنسیخِ نکاح اور خلع سے شادی منسوخ کرنے کے لیے بھی جج صاحب بار بار وجہ پوچھتے ہیں‘ 22 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے اُس ملک کے وزیر اعظم کو ہٹانے کی وجہ پوچھنے پر قادر سارے ادارے کیوں خاموش ہیں؟
جس مذہب اور سماج میں رشوت کو گناہ کبیرہ میں شامل کیا جاتا ہے‘ وہاں پیسے اور عہدے کے لیے قومی اسمبلی کے ممبران نے اپنی بولیاں‘ مال مویشی کی منڈیوں کی طرح ڈائریکٹ کیوں کر لگوائیں؟ جب عمران خان نے افغانستان پر پھر سے حملہ آوروں کو اڈے دینے کے سوال پر Absolutely Not کہا‘ اپنے آزاد ملک کی خارجہ پالیسی کو آزاد کرنا چاہا تو مغرب کی گود میں بیٹھے ہوئے زر کے غلام ضمیر صاحب کی حویلی میں اکٹھے کیوں داخل ہوئے؟ حلف‘ ایمان‘ وفا اور آئینی عہد و پیمان کی اس خرید و فروخت میں وقت ایک بار پھر اُس امریکی اٹارنی کو صحیح ثابت نہیں کر دیا‘جس نے کہا تھاکہ پیسے کے لیے یہ لوگ‘ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
چھٹا نوٹ: ہم سیاسی جہل کے اُس جزیرے کے باسی ہیں جو طوفانوں کے عین سمندر میں ہے‘ پھر بھی ہم وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ڈھونڈتے‘ بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ہمیں مہنگی غیرت قبول نہیں ہے‘ اس لیے سستی بے غیرتی کا انتخاب کر لیتے ہیں (منقول)۔
پچھلے تین دنوں سے مجھے اور والدہ صاحبہ کو رات دیر تک جاگنا پڑتا ہے۔ والد صاحب بہت بے وقت گھر واپس آتے ہیں کیونکہ شہرِ اقتدار رات بھر جاگتا ہے۔ وی لاگ‘ ٹویٹر اکائونٹس‘ انسٹا گرام ‘ فیس بُک‘ وائس نوٹس‘ واٹس ایپ‘ سب جاگ اور جگا رہے ہیں مگر شاباش ہے حضرتِ ضمیر کو جن کا عدم اعتماد جاگتا ہے اور خود انہوں نے لمبی تان رکھی ہے۔ اردو ادب کی رو سے گھوڑے بیچ کر سونے والے ہی لمبی تان کر سونے والا ضمیر رکھتے ہیں۔
ان حالیہ 30 دنوں میں 30 ملین ڈالر کا مبینہ دھکا لگنے کے باوجود حضرتِ ضمیر کا عدم اعتماد والا پانی پلوں کے نیچے سے شوں کر کے گزرنے سے انکاری ہے۔ کہیں کہیں حلق کے نیچے اُترنے سے بھی۔ جمعرات کا دن بہت مصروف تھا‘ اس لیے جہاں گردی کی نذر ہو جائے گا۔ نہ جانے کیوں مجھے مِڈ نائٹ جیکالز کا تاریخی مقدمہ یاد آ رہا ہے‘ جس میں میرے اہلِ نظر انکل میجر عامر کی وکالت میرے والد صاحب نے کی تھی۔
شدید دبائو‘ دھمکیوں اور تڑیوں کے عین درمیان جس دن میجر عامر صاحب عدالت سے بری ہوئے‘ اُنہوں نے میڈیا ٹاک میں کہا: بابر اعوان کی بحث سن کر دل چاہتا ہے ہر روز ایک بغاوت کروں اور ہر روز انہیں وکیل کر لوں۔ ہمارا کپتان بھی استعمار کے خلاف بغاوتوں کا عادی ہے۔ یہ وطن پرست باغیوں کی بریت کی صدی ہے‘ جس میں 'ضمیر‘ کا عدم اعتماد نہیں چلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں