"ABA" (space) message & send to 7575

عدم اعتماد! کس کس پر؟ (1)

آج کل قومی سیاسی اُفق اور میڈیائی سکرین پر عدم اعتماد کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ کیا یہ بادل برسیں گے یا خالی خولی گرج چمک کے بعد کہیں غائب ہو جائیں گے۔ اِن دنوں ہر ٹھیلے، چوک، چوبارے اور ٹی سٹال پر ایک ہی موضوع زیرِ بحث ہے۔ کیا status quo کی ایوانِ اقتدار میں پھر سے واپسی ہونے لگی ہے؟ کیا پاکستان کو پھر سے انہی سیاسی جماعتوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جن کے پاس گھسے پٹے نعروں، چلے ہوئے کارتوسوں اور 30، 30 سال اقتدار میں رہنے کے بعد، کھربوں کی جائیدادوں کے علاوہ اور کچھ نہیں؟
یقینی طور پر آزمائے ہوئے اور compromised سیاسی لیڈران کی ٹولیاں، کس طرح پاکستان کی عالمی سٹیج پر موثر ترجمانی کر سکتے ہیں؟ ملکِ پاکستان کو خود مختار بنانے کا خواب لے کر سیاست میں آنے والے عمران خان، کیا اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ایسے سنگین عالمی حالات میں پاکستان کو خدانخواستہ destabilise اور demoralise کرنے کے پلان کے پیچھے کون سی عالمی طاقتیں ڈوریاں ہلا رہی ہیں؟ تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لئے اِس ٹائم کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ آہستہ آہستہ اِن سب رازوں سے پردہ اُٹھ رہا ہے۔
پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ میں، sitting پی ایم کے خلاف دو بار تحریکِ عدم اعتماد لائی جا چکی ہے اور دونوں ہی بار، اِس تحریک کو فلور آف دی ہاؤس پہ ناکامی کی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی مرتبہ 1989 میں لیڈی پرائم منسٹر محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی جو 12 ووٹوں سے ناکام ہوئی۔ دوسری بار اگست 2006 میں، متحدہ اپوزیشن نے (جس میں آج کی متحدہ اپوزیشن کے تقریباً سارے کردار شامل تھے) وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی، جو 36 ووٹوں کی اکثریت سے ناکام ہوگئی۔ مشرف دور کے سپیکر چوہدری امیر حسین ایڈووکیٹ کے خلاف بھی سال 2003 اور پھر سال 2004 میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی گئیں، جو دونوں ناکام ہوئیں۔ تاریخ یقینا اپوزیشن کے لئے encouraging نہیں ہے۔ شاید اِسی وجہ سے اپوزیشن نے Out of the box اور unconventional طریقوں سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک 3 pronged سٹریٹیجی ہے‘ جسے عوامی شاعر حبیب جالب نے اپنی ایک نظم میں اس طرح سے دھاندلی، دھونس اور دھن کہا تھا۔
دھاندلی دھونس دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
اِن دنوں سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوال یہ ہے کہ اس عدم اعتماد کے پیچھے ہے کون؟ ایک نون لیگی ایم این اے صاحب نے تو نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں کھلم کھلا اعتراف کیا کہ جی ہاں! ہم ہارس ٹریڈنگ میں مصروف و ملوث ہیں۔ ایم این اے صاحب کا جواب سُن کے تو اینکر صاحب بھی ہکا بکا رہ گئے۔ ابھی تک اِن صاحب کو ریگولیٹر یا پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا، بظاہر پارٹی قیادت بھی اِن بیانات کی خاموش تائید کرتی نظر آتی ہے۔ کچھ ایم این ایز نے وزیراعظم عمران خان کو بذاتِ خود بتایا کہ انہیں پیسے آفر کئے جا رہے ہیں۔
باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ اِس بار ممبران قومی اسمبلی کو روپے سے نہیں، بلکہ ڈالروں سے خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاید یہ یو ایس ڈالرز کی ریل پیل no more اور absolutely not کا نتیجہ ہے‘ یا شاید دورۂ روس، چین سے قربت اور نئے علاقائی اتحادی ڈھونڈنے کا بدلہ۔ پاکستان جب بھی آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے کا مرتکب ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی عالمی طاقت ضرور تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ذرا سوچئے، پاکستانی سیاست میں بیرونی مداخلت کا مقصد کیا ہے، اِیسی قوتوں کی کون معاونت کررہا ہے؟
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جیسے ہی اپوزیشن نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش شروع کی، تحریکِ انصاف کے ورکرز ایک بار پھر متحرک اور یکجا ہو گئے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وزیراعظم کے حق میں ٹرینڈز چھائے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرتے ہوئے میلسی، تیمرگرہ، حافظ آباد اور سوات میں جلسوں سے خطاب کیا۔ ہر شہر میں ہزاروں افراد نے وزیراعظم کی کال پر جلسہ گاہ کا رُخ کیا۔
اکثر اوقات الیکشن کے قریب آتے ہی، وُزرائے اعظم شامیانوں میں شام کے جلسے کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ جلسہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اُس پہ پردہ ڈلا رہے۔ دن دہاڑے، کھلے عام کئے جانے والے وزیراعظم عمران خان کے یہ جلسے سٹیڈیمز اور کھلے میدانوں میں منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اِن، میگا عوامی اجتماعات کی خاص بات یہ ہے کہ نہ تو یہ جلسے ٹینٹ کے نیچے کئے گئے اور نہ وزیراعظم بلٹ پروف شیشے کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ عوام بڑی تعداد میں جلسوں میں شریک ہورہے ہیں اور فُلی charged نظر آ رہے ہیں۔ تو کیا Imran vs ALL کا بیانیہ، وزیراعظم کو کمزور کرنے کے بجائے، اُن کی مقبولیت اور اُن کے لئے حمایت اور sympathy میں اضافہ کررہا ہے؟ ابھی اِس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل اَز وقت ہوگا مگر سیاسی اکھاڑے میں 2018 کے بعد، پی ٹی آئی کے سپورٹرز اتنے منظم اور motivated کبھی بھی نظر نہیں آئے، جتنے اب آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پر جلسے کا اعلان کیا تو نون لیگ نے بھی جواباً ڈی چوک پر ہی جلسے کا اعلان کرڈالا۔ ایسے میں مولانا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟ بھولے بھلائے لانگ مارچ کی یاد ایک بار پھر تازہ فرمائی اور 23 مارچ کو اپنے لاؤ لشکر سمیت اسلام آباد پر یلغار کرنے کا اعلان کر چھوڑا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ 46 ممالک کے وُزرائے خارجہ 22 مارچ کو OIC کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد تشریف لائیں گے۔ اِس کانفرنس کا منعقد ہونا کسی ایک سیاسی جماعت کے لئے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے قابلِ فخر اور عظیم سفارتی کامیابی ہوگی۔
عدم اعتماد کی تحریک میڈیائی پذیرائی سے شروع ہوئی۔ ملاقاتی طور پر ایسی ایکشن میں آئی‘ جس کے نتیجے میں کچھ پارلیمنٹیرین گم شدہ افراد کی فہرست میں دھکیل دیئے گئے۔ یہ سب کچھ اُس شاہراہِ دستور کے اِرد گرد‘ آس پاس ہو رہا ہے، جس نے تحریک عدم اعتماد کی اجازت دی‘ مگر ساتھ ہی اِس تحریک کے لیے ہارس ٹریڈنگ کے مکروہ دھندے پر آرٹیکل 63-A کے ذریعے پابندی لگائی۔ ایسا لگتا ہے، جیسے اِس پابندی کو مضبوطی سے نافذ کرنے کے لیے کوئی نیا ضابطہ بھی سامنے آنے والا ہے۔
کانسٹی ٹیوشن ایوینیو کے بغل میں ماورائے آئین رشوت گزاری اور رشوت خوری کے ذریعے پارلیمانی ہارس ٹریڈنگ کی منڈی کا نرخ 40 کروڑ سے 70 کروڑ تک پہنچنا بیان ہو رہا ہے۔ کسی منچلے نے کہا، پچھلے دور اچھے تھے کروڑ دو کروڑ میں تین چار گھوڑے مل جاتے تھے، اب مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہارس فار ٹریڈ کا ریٹ 70 کروڑ پہ جا پہنچا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں