"ABA" (space) message & send to 7575

موت کو سمجھیں ہیں غافل…

زندہ رُود علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات ہے جو ان کے بیٹھے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے تصنیف کی۔ اس شاندار کتاب سے ایک اقتباس اپنے قارئین کے لیے ''گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں دو تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح سکول جانے سے پہلے، دوپہر کو سکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان نے اسے چلنے کے لیے کہا، مگر وہ نہ مانی۔ یہی کہتی رہی بس تھوڑی دیر اور۔ اس پر اقبال نے مسکراتے ہوئے آپا جان سے انگریزی میں کہا: اسے اس کی حس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپا جان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لیے آ بیٹھیں اور ان سے کالج میں درسِ قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔
رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آ رہا تھا اور اسی بنا پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الٰہی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انہوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا:
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
(میں تجھے مردِ مومن کی نِشانی بتاؤں،جب موت آتی ہے تو امواجِ تبسم اُس کے ساحلِ لب پر رقصاں ہوتی ہیں)
پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا: کون ہے؟ راقم نے جواب دیا: جاوید۔ ہنس پڑے، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: چوہدری صاحب! اسے ''جاوید نامہ‘‘ کے آخر میں وہ دعا ''خطاب بہ جاوید‘‘ ضرور پڑھوا دیجیے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرمایا: آخر چالیس برس کی رفاقت ہے، اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آ گئی البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسبِ معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔
اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تا کہ درد کی شدت کم ہو، لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہو گئی۔ میاں محمد شفیع، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آ گئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے۔ انہیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کیلئے کہا۔ وہ بولے: حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انہیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسمیے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لیے روانہ ہو گئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثنا میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے ''ہائے‘‘ کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انہیں شانوں سے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے۔ انہوں نے ''اللہ‘‘ کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔
21 اپریل 1938ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انہیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی‘‘۔
موت کو سمجھیں ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں