"ABA" (space) message & send to 7575

میاں محمد بخش کا سفرِ عشق میان

لوگ حیران ہیں‘ اتنے دور دراز والے پرستان کی کہانی پلیٹو آف پوٹھوہار کیسے پہنچ گئی؟ یہ داستانِ ہوش ربا‘ پریوں کی شہزادی بدیع الجمال اور آدم زاد شہزادے سیف الملوک کے ماورائے مجاز عشق کی لافانی روداد ہے۔ شہزادہ سیف الملوک محل سرا‘ تخت و تاج‘ عیش و آرام چھوڑ کر سفرِ عشق پر نکلا۔ آئیے شہزادہ سیف الملوک کو تھوڑا سا جان لیتے ہیں۔ شہزادے کے والد کا نام بادشاہ عاصم بِن صفوان بتایا گیا۔
بادشاہ عاصم بن صفوان شہزادہ‘ والی تخت مصر دا
آہا شاہ سلیماں دُوجا‘ صاحب دولت زر دا
اس بادشاہ کے پاس سکندر جیسی سلطنت اور دارا سے بھی زیادہ طاقت تھی مگر کوئی والیٔ ریاست موجود نہیں تھا۔ اُس کی عمر بڑھتے بڑھتے بڑھاپے کی جانب گامزن تھی۔ بڑی مناجات‘ نذرونیاز اور صدقہ خیرات کے بعد اس کا بیٹا سیف الملوک پیدا ہوا۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی نوخیز شہزادے کو عشق کے سفر کا روگ لگ گیا۔ بدیع الجمال اور سیف الملوک کی وارداتِ جمال و عشق ایسی رومانوی داستان ہے جو اس صنف کی ساری کتابوں میں سب سے مشہور اور ممتاز چلی آتی ہے۔ محمد بخش کی شاعری کا یہ شاہکار تخلیقی مسودہ 1863ء تک مکمل ہوا‘ جس کی عالمی پذیرائی اور رسائی میں ہر چڑھتے دن اضافہ ہو رہا ہے۔
پچھلے ہفتے کھڑی شریف کے سجادہ نشین میاں عمر بخش نے والد صاحب کو فون کیا‘ جنہوں نے مجھے بتایا کہ اگلے ورکنگ ڈے کی باقی مصروفیات ملتوی کرتے ہیں‘ میں نے میاں محمد بخش پر تازہ تحقیقی کتاب کا پیش لفظ لکھنا ہے۔ دوسرے دن صبح ہم کھڑی شریف کے لیے نکل پڑے۔
کیپٹل ہلز کے دامن سے گرینڈ ٹرنک روڈ کو تیر جیسی سیدھی سڑک جاتی ہے۔ جہاں یہ جی ٹی روڈ پر Y کراس ٹَچ کرتی ہے اُس قصبے کا نام ہے روات۔ اس کے بائیں طرف کہوٹہ ہے جبکہ دائیں طرف مغلیہ قلعہ مٹی کی ٹیکری پر واقع ہے جس کے اندر شہزادوں کی قبریں ہیں۔ اسی جگہ شہنشاہ ہندوستان ظہیرالدین بابر کے پوتوں کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ تھوڑا آگے پاکستان کا پرانا ریڈیو سٹیشن اور اُس کی ایکڑوں پر پھیلی وسیع تنصیبات ہیں۔ تین کلومیٹر آگے تحصیل گجر خان کا پہلا ریلوے سٹیشن کلیام اعوان آتا ہے۔ مشہور دانشور‘ لکھاری اور شاعر منو بھائی نے ابتدائی تعلیم یہاں حاصل کی تھی۔ اُن کے والد محکمہ ریل میں سٹیشن ماسٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ آدھا کلومیٹر آگے جی ٹی روڈ کے بائیں طرف کیپٹن سرور بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کا مزار اور ان کا قصبہ سنگھوری ہے۔ پوٹھوہار صدیوں سے سینکڑوں تہذیبوں‘ اَن گنت بادشاہوں‘ شہزادوں اور حملہ آوروں کی گزرگاہ بلکہ گیٹ وے ٹو انڈیا رہا ہے۔ مقدونیہ کے الیگزینڈر دی گریٹ المعروف سکندر اعظم اور غور کے بادشاہ شہاب الدین کی یادگاریں بالترتیب جی ٹی روڈ کے مشرق و مغرب میں ماضی کی تاریخ کے اہم دریچے بن کر آج بھی موجود ہیں۔
تحصیل جہلم اور پنڈی کے سنگم پر واقع پنڈوری قصبے میں شہاب الدین غوری کے مقبرے کو ''غوری نیں پہڑے‘‘ کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک اور خوبصورت منظر یہ ہے کہ یہاں جی ٹی روڈ سے مشرق کی طرف لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ والا ریلوے ٹریک سڑک کے ساتھ ساتھ دوڑتا نظر آتا ہے۔ سوہاوہ کراس کرتے ہی‘ جہاں ترکّی کی پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں وہاں تاریخ کے دو مزید ورق اُلٹتے ہوئے نظر آئے۔ پہلے ورق پہ سلطا ن محمود غزنوی کے سومناتھ کے سفر کا ایک ایڈونچر ہے‘ جس میں سلطان کے مشہورِ زمانہ 17 حملوں میں سے ایک کے واقعات ہیں۔ اس حملے کے دوران کچھ پنڈتوں نے‘ جو حلیہ بدل کر گائیڈ بنے ہوئے تھے‘ سلطان کو کشمیر کی طرف دھکیل دیا‘ جس کی کٹی پھٹی زمین اور مشکل راستہ ضلع کوٹلی کی طرف نکلتا ہے۔ ریڈ کے دوران سلطان کا لشکر تتر بتر ہوگیا۔ کوٹلی شہر سے پہلے قلعے کے نزدیک کچھ ساتھی لے کر سلطان کو ری ٹریٹ کرنا پڑا؛ چنانچہ ان ساتھیوںکو نارتھ کی طرف واپس جانے کا حکم دے کر خود حلیہ‘ لباس تبدیل کرکے ٹلہ جوگیاں میں عارضی پناہ لی۔ تھوڑے عرصے بعد سلطان کو سیف ایگزٹ ملا اور وہ واپس وطن پہنچے۔
دوسرے ورق پہ ٹلہ جوگیاں سے غرب کی جانب تخت ہزارے کے رانجھا کی روداد کا عشق نگر ہے‘ جس کا ذکر وارث شاہ ہیر میں یوں کرتے ہیں کہ ٹلّہ پہنچ کر رانجھے نے اپنے کان چھدوائے اور جوگی کا روپ دھار لیا۔ جوگ اور کَشٹ کی ایسی ہی بے شمار کہانیاں‘ خون اور آگ میں ڈوبے ہوئے لاتعداد معرکے شیر شاہ سوری کے قلعہ روہتاس سے مغلِ اعظم کے قلعہ اٹک تک پوٹھوہار کے سینے پر تاریخ کے تمغوں کی طرح سجے ہیں۔
میں اسی تاریخ کے تعاقب میں سوچ کا گھوڑا دوڑاتا جا رہا تھا کہ اچانک بکڑالہ نالے کا اونچا پُل آ گیا۔ بائیں ہاتھ ڈھلوانی سطح پر عمران خان کی دوسری یونیورسٹی ''القادر‘‘ کیمپس پر میری پہلی نظر پڑی۔ باقی تفصیل اس پیش لفظ میں پڑھ لیں‘ جس کی خاطر میرے والد مجھے کھڑی شریف لے گئے:
''یوں تو ہر زمانے‘ ہر علاقے اور ہر زبان کے شاعر ہوتے ہیں مگر کچھ شاعر ایسے ہیں جن کا ہر زمانہ ہوتا ہے۔ وقت اور سرحدوں کی قید سے ماورا۔ اکثر شاعروں کا تعارف عشقِ مجاز ہے۔ لافانی اور آفاقی شاعر حقیقت اور اُس پہ چلنے کے لیے فقر کا رستہ سمجھاتے ہیں۔ پنجابی‘ پوٹھوہاری‘ سرائیکی‘ ہندکو‘ گوجری بولنے اور سمجھنے والے علاقوں میں مہر علی شاہ‘ بُلھے شاہ‘ وارث شاہ‘ شاہ حسین‘ بابا فرید‘ بابا گرو نانک‘ سلطان باہُو اور میاں محمد بخش حقیقت کی شاعری کے لافانی نام ہیں۔
میاں محمد بخش صاحب کی لڑی کے موجودہ سجادہ نشین میاں عمر بخش اور میں سال 2020ء کے فروری میں عمرہ کرنے حرمین شریفین اکٹھے گئے۔ اس دوران عمر صاحب نے رومیٔ کشمیر پہ ایک تحقیقی اور تاریخی دستاویزی کاوش کے بارے میں بتایا‘ جو اب کتاب کی صورت میں چھپ کر میرے سامنے ہے۔ فہرست مضامین 20 صفحات سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ یہ فہرست میاں محمد بخش کے چاہنے والوں کے لیے معلومات کا حیرت کدہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف سیف الملوک کے شاعر نہیں‘ اُن کے شعروں میں تفسیرِ قرآن‘ توبۃ النصوح‘ طبّ و حکمت‘ سیاحت و زیارت‘ دنیاداری کے اصول‘ انسانی تعلقات کی کیمیائے سعادت‘ رشتے ناتے‘ انسانوں کی پہچان جیسے نازک موضوعات موجود ہیں۔
یہ سب دیکھ کر مجھے لگا کہ میں خود کھڑی شریف جائوں‘ اور میاں صاحب کے اُس حجرے میں‘ جہاں اُنہوں نے علم و آگہی کے یہ سارے جہان دریافت اور شناخت کئے تھے‘ اُسی کچے فرش پر بیٹھ کر اُنہیں سپاسِ عقیدت پیش کروں؛ چنانچہ بیٹے‘ بیرسٹر عبداللہ کو ساتھ لے کر ایک دن کھڑی شریف میں گزارنے میاں عمر بخش کے ہاں پہنچ گیا۔
تصوف اور طریقت‘ بَن واس کاٹنے کا نام نہیں بلکہ انسانوں کے جنگل میں رہ کر اُسے علم و آگہی کی روشنی سے ارفع اقدار کی منزل تک پہنچانے کا نام ہے۔ میاں محمد بخش صاحب کی رحلت کو 117 سال بیت گئے مگر اُن کے مرشد پیرا شاہ غازی‘ زیرِ مزار اُن کی عبادت گاہ اور لکڑی کی بنی ہوئی وہ چراغی جس کی مدھم لو میں میاں محمد بخش نے ہم نفسوں کے ضمیر کو آواز دی‘ وہ اُن کے مٹی کے لیپ والے حجرے اور کشمیر کی چھوٹی سی بستی کھڑی شریف سے نکل کر ساری دنیا کو سنائی دیتی ہے۔ کھڑی شریف میں اُن کا وجود عدم ہوا مگر اُن کی موجودگی ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ میاں صاحب کو اپنے پیغام کی عالمگیریت کا مکمل اِدراک تھا۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں‘
شعر مرے اس دیس اپنے وچ‘ پاندے مُول نہ قیمت
دور دراھڈے جس نُوں لبھن‘ جانے بہت غنیمت
میاں عمر بخش کی کتاب آپ کو اُس دنیا میں لے جاتی ہے‘ جس میں میاں محمد بخش نے مجاز سے حقیقت شناسی کا سفر شروع کیا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں