"ABA" (space) message & send to 7575

Ukraine War, Acting or Atom bomb?.... (1)

دوسری جنگِ عظیم کا آغاز امریکی بندوق303سے ہوامگر انجامِ کار میں امریکہ نے ایٹم بم چلا دیے۔ 37سال کی خاموشی کے بعد 1982ء میںبرطانیہ بہادر نے یورپ کی پہلی جنگ شروع کی جس کے نتیجے میں ارجنٹینا کے علاقےFalkland Islandsپر قبضہ کر لیا۔پوسٹ کولڈ وار یورپ کی دوسری جنگ روس اور جارجیا کے مابین لڑی گئی جس کے نتیجے میں دو عددری پبلک South Ossetia اور Abkhazia روس کے حصے میں آ گئیں۔ 2014ء میں جزیرہ نما Crimea پر تیسری یورپین جنگ ہوئی۔ ایک طرف یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ کا حمایت یافتہ یوکرین تھا‘ دوسری جانب رشیا اکیلا۔ اب کریمیا روسی فیڈریشن کی انیکسی ہے۔
تازہ یوکرین‘ روس جنگ نے یورپ سمیت پورے مغرب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔سنسنی کی دو وجوہات ہیں‘ایک ہے یوکرینی لیڈر کی ایکٹنگ۔ جس نے سوال پیدا کردیا ہے کہ کیا سیاست میں اداکاری آ گئی ہے؟ سیاسی مبصرین کی رائے مانئے تو اس سوال کا جواب ''ہاں‘‘ ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پرانے دوست کہتے ہیں کہ بورس جان بوجھ کے بیوقوف لگنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں تاکہ اُن کے سیاسی حریف انہیں underestimateکرنے کی غلطی بار بار دہراتے رہیں۔ بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کے بارے میں بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ اپنے pose باقاعدہ پریکٹس کرتے ہیں۔ پھر وہ سیاست دان ہیں جو سیاسی میدان میں سرگرم ہونے سے قبل اداکار تھے۔ آرنلڈ شوازینیگر‘ Terminatorسے آئے اور I will be backکہتے ہوئے گورنر کیلیفورنیا بن گئے۔ رونالڈ ریگن بھی ہالی ووڈ سٹار سے وائٹ ہاؤس کے مکین بنے تھے۔
یوکرین کے time-warلیڈر اور نوجوان صدر ولادیمیر زیلنسکی کسی زمانے میں تھیٹر اداکار اور کامیڈین ہوا کرتے تھے۔ یوکرینی ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام میں ایکٹنگ کرتے کرتے عوام میں مقبول ہوئے‘ پھر یہی مقبولیت کی لہر انہیں ایوانِ اقتدار تک لے گئی۔ صدر ٹرمپ کی دوسری impeachment زیلنسکی کے ساتھ ہونے والی متنازع ٹیلی فون کال (جس میں صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو دھمکی دی تھی) کا ٹرانسکرپٹ لیک ہونے کے نتیجے میں ہوئی۔ اب زیلنسکی یوکرین کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کے دوران ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اور عالمی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
اس وقت Fact اور fiction میں فرق کرنا‘ مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہے۔مغربی میڈیا آئوٹ لیٹس سے فیک نیوز کی بمباری روس کی اصلی بم باری سے کہیں زیادہ ہے۔ یوکرینی حکام کے بیانات میں صاف تضاد دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف زیلنسکی کا دعویٰ ہے کہ یوکرینی فوج‘ روسی فوجوں پر حاوی ہے اور 10 دنوں میں نوہزار روسی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ دوسری طرف وہی زیلنسکی نیٹو اور مغربی طاقتوں سے اپیلیں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ روس‘ یوکرین میں genocide کرنے والا ہے‘ مغرب فوراًمدد کو پہنچے۔ مزاحیہ ایکٹر لیڈر کبھی کہتا ہے کہ روسی فوج پسپائی کا سامنا کرنے کے باعث disillusioned ہوگئی ہے اور راہِ فرار تلاش کر رہی ہے‘کبھی اپنے اتحادیوں سے weaponsسپلائی کرنے کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔
کریملن‘ زیلنسکی کی سب تقاریر اور بیانات کو جنگی اداکاری قرار دیتا ہے اور یوکرینی بیانیے کو جھوٹ اور فریب پر مبنی۔ مغربی میڈیا کی رپورٹنگ بھی غیرمؤثر ہے اور تیسری دنیا کیلئے ہر قسم کے تعصب سے بھرپور۔ ایسے میں یہ assessکرنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ نیوٹرل نیوز ایجنسیز اور ویب سائٹس کا کہنا ہے کہ اس وقت روسی فوج‘ یوکرین کے دارالحکومت کیف کے بارڈر پر موجود ہے اور اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ روس پچھلے کچھ روز سے کیف پر راکٹ اور میزائل داغ رہا ہے۔ تو اب آگے کیا ہوگا؟ ممکنہ طور پر یوکرینی جنگ کے تین outcomes ہوسکتے ہیں۔
پہلی صورت روس یوکرین کے دارالحکومت Kyiv کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد روس کا کیا پلان ہے‘ کریملن کے گنے چنے رازداروں کے علاوہ یہ بات کسی کو معلوم نہیں۔ کیا روس‘ یوکرین کو ایک صوبہ قرار دے کر اپنی فیڈریشن میں ضم کر لے گا؟ یا پھر روس یوکرینی حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی نگرانی میں نئے انتخابات کروائے گا؟ یہ بات تو واضح ہے کہ کریملن کو 2014ء کے اداکارانہ انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی یوکرینی ریاست کے طرزِ حکمرانی سے اصولی طور پر اختلاف ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ کسی بھی صورت میں‘ روس یوکرین کو یورپ اور امریکہ کے ساتھ الحاق کی اجازت نہیں دے گا۔ اس ضمن میں یوکرین کو ڈاکومنٹ آف سرنڈر کے علاوہ‘ non-aligned status اور نیٹو سے دور رہنے کے معاہدے پر بھی دستخط کرنا ہوں گے۔ روس‘ امریکی اور نیٹو فورسز کو ہرگز اپنی سرحد پر برادشت نہیں کرے گا۔
دوسری صورت‘ مزاحمت کی کامیابی اور روس کی شکست ہے۔ پچھلے کئی روز سے روسی فوجیں کیف کی سرحد پر موجود ہیں مگر ان کو یوکرینی افواج‘ کیف کی سکیورٹی ایجنسیوں اور عام شہریوں کی طرف سے سخت اور مسلح مزاحمت کا سامنا ہے۔ اگر تو روسی فوج کیف پر قبضہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ پوتن سرکار کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا‘ جس کے اثرات روسی سیاسی منظرنامے پر بھی پڑیں گے۔مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق ماسکو کئی دنوں سے اینٹی وارمظاہروں کی گرفت میں ہے۔ مغربی میڈیا ان مظاہروںکو پوتن کی unpopularity کا کھلا ثبوت قرار دیتا ہے۔ اگر تو یوکرین کرائسس drag ہوتا ہے تو پوتن کی سیاست بھی متاثر ہوگی اور کریملن کی عالمی اور علاقائی ساکھ بھی۔ روس اتنے سخت حالات میں ملکی سطح پرunrest اور disturbance کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کیف کو فتح کرنا روس کی اندرونی صورتِ حال پر قابو پانے کیلئے بھی ضروری ہوچکا ہے۔
تیسری صورت‘ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا باقاعدہ طور پر جنگ میں حصہ لینا ہے۔ ابھی تک امریکہ نے boots on ground کا فیصلہ کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے معاشی پابندیوں کے ذریعے روس کو سبق سکھانے اور اس کی معیشت کو شدید ترین نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ہے۔ sanctionsعائد ہوچکی ہیں اور عالمی بائیکاٹ بھی‘مگر یوکرین فوجی مداخلت کی مسلسل درخواست دیتا نظر آتا ہے۔
وائٹ ہاؤس بار بار اپنی فوجیں یوکرین بھیجنے کی خبروں کی تردید کر رہا ہے۔ امریکی میڈیا بھی امریکی فورسز کو روس کے ساتھ براہ راست جنگ میں اتروانے کی مخالفت کر رہا ہے۔ مگر حالات بگڑے اور سویلین جانی نقصان بڑھا‘ تو کیا امریکہ اپنے فیصلے پر نظر ِثانی کرسکتا ہے یا پھر دوسری گلف جنگ کی طرح کا کوئی انٹرنیشنل آرمڈ کولیشن دوبارہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جو روسی فوجوں کو پیچھے دھکیل دے۔ اس possibilityکو کچھ حلقوں کے نزدیک رُول آؤٹ نہیں کیا جاسکتا۔
دو اٹیمی طاقتوں کا مسلح ہو کر جنگ کے میدان میں آمنے سامنے آنا دنیا بھر کیلئے سوچ سے بھی زیادہ‘انتہائی خطرناک ہوگا۔اس جانب روس پہلے ہی قدم اٹھا چکا ہے۔27فروری کو روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ایٹمی اسلحے سے لیس روسی نیوکلیئر فورس کو ہائی الرٹ جاری کردیا ہے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں