"ABA" (space) message & send to 7575

عدم اعتماد! کس کس پر؟ (2)

یہ منظرنامہ اب قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ بن چکا ہے، خاص طور سے مسلم تاریخ۔ سال تھا 1258، مہینہ جنوری کا اور شہر بغداد کا‘ جسے ہلاکو خان نے اپنے تباہ کُن لشکریوں کے ساتھ محاصرے میں لے لیا۔ ہلاکو بادشاہ اس قدر ہلاکت آفرین حملہ آور تھا کہ اینٹوں کے بجائے انسانی کھوپڑیوں سے اپنی فتح کے مینار تعمیر کرتا۔ ایک طرف بغداد کا یہ محاصرہ 29 جنوری سے 10 فروری 1258ء تک چلتا رہا‘ دوسری جانب شہر کے دانشور کوّے کے حلال یا حرام ہونے کی عظیم بحث میں الجھے رہے۔
آج 2022 عیسوی سال کے ماہِ مارچ کی 20 تاریخ ہے۔ ایک نئی بحث کا سامنا ہے۔ ایک پارٹی کے انتخابی نشان پر دو عدد بیانِ حلفی سمیت کاغذاتِ نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ قاضیِ ضلع کی سیشن کورٹ میں داخل کرنے والے‘ پھر اُسی پارٹی کی فلور آف دی ہائوس پر ملی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر کھڑے ہو کر، اللہ کو حاضر ناظر جان کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے وفاداری اور اس کے تحفظ کی قسم کھانے والے اپنے آپ کو پورے کے پورے 22 کروڑ لوگوں کا منتخب Representative کہلانے والے اس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ ملک کا آئین جائے کسی لائبریری کی طاقِ نسیاں پر‘ اس آئین کا آرٹیکل 63A اُن کو سالہا سال سے گہری نیند سوئے ہوئے کسی ضمیر صاحب کے کہنے پر اپنی پارٹی کے مخالفوں کو ووٹ دینے سے کیسے روک سکتا ہے؟
جب آپ یہ وکالت نامہ سوموار کے دن پڑھ رہے ہوں گے، عین اُسی روز یہ بحث ملک کی آخری اور سب سے بڑی عدالت میں بھی سنی جا رہی ہو گی۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اِسی بحث کو آئین کے آرٹیکل 86 کے تحت سربراہِ مملکت کو حاصل آئینی Advisory Jurisdiction کے تحت سپریم کورٹ کو سوال کا جواب دینے کے لیے ریفرنس بھیجا ہے۔ اگر آپ آئین کے آرٹیکل 62 کے ذیلی آرٹیکل نمبر1 کی شق (f) دیکھیں تو اُس کی زبان اِس موضوع پہ بہت واضح ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں آئین کے اس آرٹیکل کو:
[62. (1) A person shall not be qualified to be elected or chosen as a member of Majlis-e-Shoora (Parliament) unless-
(f) he is sagacious, righteous, non-profligate, honest and
ameen, there being no declaration to the contrary by a court of law;
آپ آئین سے اس آرٹیکل کا ترجمہ پنجابی، سندھی، براہوی، پشتو، بلوچی، پوٹھوہاری یا سرائیکی، جس زبان میں بھی کر لیں، اس کا مفہوم ایک ہی بنے گا۔ یہی کہ جو انتخابی امیدوار بات کا پکّا، قول کا سچا اور ووٹ سمیت کسی بھی اعتماد کا امانت دار نہیں، وہ ہر طرح کے منتخب ریاستی عہدے کے لیے نااہل ہو گا۔ سوال اُٹھتا ہے، کتنے عرصے کے لیے یہ نااہلی چلے گی؟ اس کا جواب سال 2018 سے پہلے Chaos کا شکار تھا‘ مگر Sami Ullah Baloch and others Vs. Abdul Karim Nousherwani and others کے مقدمے سمیت 20 کیسز میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال صاحب نے ایک لینڈ مارک فیصلے کے ذریعے ایسے سارے سوالوں کے جواب دے رکھے ہیں۔
یہ فیصلہ صوبہ بلوچستان کے ایک انتخابی مقدمے میں آیا جو اَب PLD 2018 SC Page 405 میں رپورٹ شدہ ہے‘ جو چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 اپریل 2018 کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 فاضل جج صاحبان نے صادر کیا‘ جس کے خلاف فیصلے کے متاثرین، جنہیں مقدمے کی کارروائی کے دوران عدالت نے نوٹس جاری کیے تھے، بطورِ فریق حاضر ہوئے مگر مقدمہ ہار گئے۔ مقدمہ جیتنے والے فریق سمیع اللہ بلوچ کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ بابر اعوان صاحب نے لیڈ کائونسل کے طور پر دلائل دیئے۔ ہارنے والوں میں سے دو فریقوں نواز شریف صاحب اور جہانگیر ترین صاحب نے اِس فیصلے کو آئین کے آرٹیکل 188 کے نیچے نظرثانی کی پٹیشن کے ذریعے چیلنج کیا؛ چنانچہ دوبارہ تفصیل سے سارے قانونی نکات سنے گئے اور یہ فیصلہ برقرار رہ کر مستقل عدالتی (Judicial Precedent) قانون بن گیا۔
ابھی چند ہفتے پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اِس فیصلے میں سے تاحیات نااہلی کی Penalty ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 184 ذیلی آرٹیکل(3) کے ذریعے پھر سے چیلنج کیا‘ جس پہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اعتراض اُٹھا دیا کہ اِس اصولِ قانون پر عدالتِ عظمیٰ کا تفصیلی فیصلہ آ چکا ہے، جس کے خلاف Review Petitions بھی خارج ہو گئی ہیں‘ لہٰذا اب کوئی نئی پٹیشن قابلِ پذیرائی نہیں بنتی۔
عدم اعتماد کی ڈالر باسکٹ میں سے نئے نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ پہلا، قومی اسمبلی کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے سربراہ کا شگوفہ اور دوسرا نیشنل اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا وہ Duet بیان تھا جس میں کہا گیا، اب ہم اسمبلی کے فلور پر دھرنا دیں گے۔ اس چیلنج کے ساتھ ہی مزید نامعقولیت کی حد بھی پھلانگ دی گئی، جب یہ فرمایا، ''ہم دیکھیں گے تم کس طرح سے او آئی سی کا اجلاس کرتے ہو‘‘۔
دوسری جانب کیپٹل آف نیشن میں ایک صوبائی حکومت کے ریسٹ ہائوس میں کچھ ارکان کو توڑ تاڑ کر اُن کی شناخت پریڈ کیمروں کے سامنے کروائی گئی۔ باقی آپ سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں اور جان رہے ہیں۔ اس شناخت پریڈ کا نتیجہ عدم اعتماد کی تحریک کا Waterloo ثابت ہوا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قومی خزانہ لوٹا جائے تو اُسے خرچ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ پھر سے اقتدار حاصل کرنے کے لیے Reinvest کردیں تاکہ پھر سے سرکاری خزانے میں کھلی لوٹ مار کی جا سکے۔
پاکستان بھر کے باضمیر اور آئین نواز صحافتی حلقوں، Intellectuals اور Genuine سیاسی کارکنوں نے اس پہ سخت رد عمل کا اظہار کیا اس طرح پاکستان ترکی کے بعد وہ دوسرا ملک ہے‘ جہاں لوگ اپنے منتخب وزیر اعظم اور جمہوری حکومت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔
اکیلے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا حملہ کر کے پی ڈی ایم نے بہت ساری اور جگہوں پر بھی عدم اعتماد کر ڈالا۔
ثبوت نمبر1: ہمارا آئین اسلامی بھی ہے، وفاقی بھی ہے، پارلیمانی اور جمہوری بھی‘ لیکن ہمیں آئینی نظام پر اعتماد نہیں ہے۔ اسی لیے سندھ ریسٹ ہائوس سے قوم کے بچوں کو پیغام دیا گیا، صرف کرپشن آپ کو اقتدار تک پہنچا سکتی ہے، محنت، صبر اور آئین کی پابندی ہرگز نہیں۔
ثبوت نمبر2: آئینی نظام کاغذ کی نائو ہے۔ اِسے پرے پھینک کر 5 سال کے لیے ایسی قومی حکومت بنائو جو چاروں صوبوں، جی بی، اے جے کے اور وفاقی دارالحکومت کی سب سے بڑی پارٹی کو ''ایبڈو‘‘ کر دے۔
المیہ ہی المیہ! لا الہ کے دیس میں
المیہ ہی المیہ، پاک سر زمین پر
یاس کے بسیرے ہیں، گھات میں لٹیرے ہیں، کشورِ حسین پر (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں