"ABA" (space) message & send to 7575

دیسی اور ولایتی این آر او

دنیا بھر کی سیاست میں قومی سلامتی پر مفاہمت ہوتی ہے‘ قومی مسائل کے حل کے لیے۔ ہم اسے دیسی زبان میں 'مِٹی پائو‘ پالیسی کہتے ہیں۔ یہ پالیسی دوسری جنگِ عظیم ختم ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ وہ اس طرح کہ نازی آرمی کی شکست کے بعد جو بھگوڑے اور مفرور مجرم نئی شناخت کی بنیاد پر پناہ اور روزگار کی تلاش میں یو ایس اے کی طرف بھاگے تھے اُن کی تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلا این آر او امریکہ میں ہوا اور یہ این آر او اپنے گورے ہاتھوں سے گوروں نے گوروں کے ہاتھ میں دیا۔ اس حوالے سے Eric Lichtblau نے 70 کے عشرے میں تیار ہونے والی ایک کانفیڈینشل رپورٹ کی بنیاد پر 266 صفحے کی ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ''نازی نیکسٹ ڈور‘‘۔ اس کتاب کا مرکزی تھیم یہ ہے کہ کس طرح سے امریکہ نازی جرمنی کے سپریم لیڈر ایڈولف ہٹلر کے خاص آدمیوں کے لیے سیف ہیون بن گیا تھا۔ اسی موضوع پر ڈاکٹر جوزف منگیلی کی کہانی کو بھی بڑی شہرت ملی۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد بے شمار لوگوں کو امریکہ سے ہولوکاسٹ کا مشتبہ مجرم بنا کر اسرائیل لایا گیا‘ جہاں کمزور ترین زبانی شہادتوں کے باوجود ایک سپیشل اسرائیلی ٹریبونل نے اُن کے ٹرائل کنڈکٹ کئے۔ 
ان دنوں نیٹ فلیکس پر موجود ایک ڈاکومنٹری میں اُس دور کے امریکن امیگریشن ریکارڈ دکھائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس وقت کے امیگریشن انچارچ سٹاف کے انٹرویوز بھی شامل کئے گئے ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ انکل سام کو اپنی جنگ زدہ اکانومی کی بحالی کے لیے چونکہ نئی لیبر فورس کی ضرورت تھی اس لیے امریکیوں نے غیرت کے دو پیمانے تیار کر لیے‘ ایک پیمانہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کھانے والے چاپانیوں کی امیگریشن کے لیے تھا‘ جبکہ اسی موضوع پر دوسرا پیمانہ نازی جرمنی کے ایسے نسل پرست افسروں اور فوجی بھگوڑوں کے لیے بنایا گیا جنہوں نے لینڈ آف فری کے امیگریشن بارڈرز پر لینڈ کیا تھا۔
اُس دور کے امیگریشن ریکارڈ سے ظاہر ہوا کہ یو ایس اے کے امیگریشن آفیشلز کی طرف سے ان مہاجرین سے صرف تین سوال پوچھے جاتے تھے۔ بظاہر ان تینوں سوالوں کا تعلق امیگریشن کے بجائے مہمان نوازی اور کرٹسی سے تھا۔ ان میں سے پہلا سوال یہ تھا کہ امریکہ پہنچنے تک آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ ڈرے ہوئے تو نہیں ہیں؟ تیسرا سوال کسی سوال سے زیادہ دعا دینے والا تھا۔ آپ کہاں جائیں گے؟ جہاں بھی جائیں خوش رہیں۔ ویلکم ٹو امیریکہ!
یہ تو این آر او کی ولایتی دیگ میں سے ایک چاول تھا‘ جو ہم نے آپ کے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے پیش کیا۔ ایک گورا چاول۔ اب آئیے ذرا کالے افریقہ چلتے ہیں جہاں نیشنل ری کانسیلیئشن کے آئیکون جناب نیلسن منڈیلا نے کالے اور گورے دونوں کو جمہوریت میں شریک کرنے کے لیے ایک کثیرالثقافتی مفاہمت کو ٹاسک بنایا۔ اس مفاہمت کی بنیاد کالونیل افریقی معیشتوں میں گوری اقلیت کے اثاثوں اور مفادات اور مناسب نمائندگی کی حفاظت تھا۔ اسی مفاہمت کے نتیجے میں نیلسن منڈیلا کی بیوی Winnie بھی منڈیلا صاحب سے علیحدہ ہو گئی۔ اس کا دوسرا مقصد گوری اقلیت کے جرائم کی تفتیش کرنا تھا۔ ان جرائم کی گواہی کے بدلے وعدہ معاف گواہوں کو انفرادی معافی ملی۔
اپنے ہاں وطن عزیز میں این آر او کی تاریخ کے تھوڑے سے لینڈ مارک اس طرح سے ہیں۔ این آر او سیریز کا پہلا لینڈ مارک: 4 اور 5 جولائی 1977ء کی شب آنے والے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صاحب کے جاری کردہ مختلف پریزیڈینشل آرڈرز کے ذریعے سے ظاہر ہوا۔ جنرل ضیا صاحب کے اس مارشل لا کی سب سے بڑی چمچہ گیری شریف فیملی نے کی‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت جناب ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی میں سے اتفاق فائونڈری اور شریف فیملی کے دیگر اثاثوں پر بننے والی ہمارے سامنے کھڑی گلوبل منی لانڈرنگ کی ایمپائر ہے۔ این آر او سیریز کا دوسرا لینڈ مارک: یہ روشن خیال مگر ماورائے آئین دور میں ووٹ کو عزت دو کی پہلی تحریک کا زمانہ تھا۔ شریف خاندان کے سارے مرد اپنی روایتی دلیری ثابت کرنے کے لیے چھپ گئے‘ لیکن این آر او کی راہ ہموار کرنے کے لیے شریف خاندان نے مرحومہ بیگم نواز شریف کو میدان میں اُتارا۔ مرحومہ کلثوم نواز کی گاڑی کو پنجاب اسمبلی کے سامنے سواری سمیت لفٹر پر اُٹھانے سے اس این آر او کی بنیاد ڈالی گئی۔ پھر اسی گاڑی کے لیے ہر وہ دروازہ کھلتا چلا گیا‘ جس کی منزل شریف خاندان کے لیے دوسرے این آر او کے ذریعے سے سرور پیلس تھا‘ جس کی چاند نما کھڑکی ریڈ سی پر کھلتی ہے۔ نواز شریف صاحب نے ووٹ کو عزت دو کا جو نعرہ لگایا تھا اس پر باہر نکلنے والے (ن) لیگی کارکن جیلوں میں لاوارث پڑے تھے کہ (ن) لیگ کا سربراہ اپنی پسند کے باورچی لے کر تین نسلوں سمیت کارکنوں سے 2,299 میل دُور بھاگ گیا۔
این آر او سیریز کا تیسرا لینڈ مارک: یہ وکیلوں کی تحریک کی اَن کہی داستانوں میں سے دوسری سب سے بڑی داستان ہے۔ پہلی داستان والی رات میرے والد صاحب صدر ہائوس کی چاردیواری میں چار لوگوں کی میٹنگ میں موجود تھے۔ وہی میٹنگ جس میں افتخار چوہدری صاحب کی بحالی کے ٹیلی فون کی خبر لانے والا گھبرایا ہوا وزیر‘ لڑکھڑاتا ہوا آیا تھا۔
این آر او سیریز کا چوتھا لینڈ مارک اب براڈ شیٹ لیکس کے ذریعے سے سامنے آیا ہے۔ پرویز مشرف صاحب کے دور میں براڈ شیٹ کمپنی سے معاہدہ کیا گیا کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی نا جائز دولت کا سراغ لگائے‘ ان اثاثوں میں سے 20 فی صد حصہ براڈ شیٹ کو ملے گا؛ چنانچہ براڈ شیٹ نے 200 پاکستانی سیاست گروں اور منی لانڈرنگ کے جادوگروں کی فہرست بنا کر سامنے رکھی۔ ان میں سے اکثر کو پرویز مشرف صاحب نے این آر او دے کر اپنی حکومتوں میں شامل کر لیا۔ جو این آر او کی ابتدائی مہربانی سے بچے اُنہیں ماورائے آئین نظامِ حکومت کی تابع داری کے بدلے این آر او پلس ملا۔ اس طرح پاکستان لوٹنے والے 200 افراد کی لسٹ بھی گئی اور پاکستان سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر بھی گئے۔ اس پر براڈ شیٹ نے اس لوٹے ہوئے مال سے‘ جو ٹریس کیا گیا‘ اپنا حصہ لینے کے لیے مقدمہ دائر کر دیا جس کی برطانیہ کے جج Sir Anthony Evans نے آربیٹریٹر کے طور پر سماعت کی۔ شریف فیملی کی لندن میں ملکیتی تھوڑی سی جائداد پر فیصلہ دیا کہ یہ جائداد براڈ شیٹ نے دریافت کی ہے لہٰذا اسے کانٹریکٹ کے مطابق طے شدہ معاوضہ ملنا چاہئے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی سے فوری ریکوری ممکن نہیں اس لیے پاکستان کی ایمبیسی کے اکائونٹ سے یہ رقم وصول کی جائے۔
دیسی اور ولایتی این آر او میں فرق صاف ظاہر ہے۔ ولایتی‘ افریقی این آر او میں نہ امریکی خزانہ لوٹا گیا نہ ہی افریقی غریبوں کے مال پر منی لانڈرنگ کی ڈکیتی پڑی۔ پاکستان کے چوری شدہ مال کا کُھرا ڈھونڈنے کے لیے اربوں دیئے گئے۔ جب کھوجی نے لٹیرے ڈھونڈ نکالے‘ تب انہیں این آر او مل گیا۔ قوم نے ہائی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں اُسی این آر او کے جرمانے پر اَب‘ ہرجانہ دیا ہے۔ 
اک طرف ہم خانماں برباد‘ با حالِ نزار
میر زادوں نے ہوس کی جیب بھر دی اک طرف 
اک طرف انگریز کی چوکھٹ کے دیرینہ غلام 
رہبروں نے قوم کی حالت یہ کر دی اک طرف

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں