"ABA" (space) message & send to 7575

انٹرنیٹ کورٹ

یہ 1990ء کے عشرے میں آخری سالوں کی بات ہے‘ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کی پیشگوئی کے عین مطابق اُن دنوں گراں خواب چینی سنبھلنے میں لگے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے خوابِ گراں سے سنبھلنے والی قوم کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنے کا نتیجہ ہمالہ کے چشمے اُبلنے کی صورت میں نکلنا تھا‘ سو وہ سورج کی طرح نکل کر سامنے آیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کرۂ ارض سے غربت کے خاتمے کا سب سے بڑا اور پہلا ریاستی پروگرام چین میں کامیاب ہوا ہے‘ جہاں صرف تین عشروں کے اندر اندر آٹھ کروڑ سے زیادہ انسان‘ غربت کے تلخ جزیروں سے نقل مکانی کر کے سہولت اور آسودگی کی دنیا میں داخل ہو ئے ہیں۔
تب چین نے اپنے ملک کی تاریخ کی پہلی کمرشل کورٹس اپنے صوبے شنگھائی میں قائم کی تھیں۔ شنگھائی اور ین تائی کے علاقے بڑا لمبا عرصہ پڑوسی طاقتوں کی چیرہ دستیوں کی زد میں رہے‘ جنہیں چین کو خواب سے بیدار کرنے والی لیڈرشپ نے دنیا کا کمرشل حب بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے پاکستان سے پریکٹسنگ وکلا کو نئے کورٹ سسٹم کے افتتاح کے موقع پر شنگھائی بلایا گیا تھا۔ وفد میں میرے والد صاحب بھی شامل تھے۔ یہ کمرشل کورٹ شنگھائی کے جدید انڈسٹریل ایریا کمپائونڈ کے اندر بنائی گئی تھی جس کا مقصد دنیا بھر سے انویسٹرز اور سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلانا تھا کہ اگر ان کے کاروباری تنازعات پیدا ہوں گے تو چین کی حکومت ثالث کا کردار ادا کرے گی اور ان کے سرمائے کو ڈوبنے نہیں دے گی۔
ہمارے ہاں آزادی کے بہت بعد لاہور ہائی کورٹ کے آنرایبل مسٹر جسٹس شاہد وحید صاحب نے کمرشل کورٹس قائم کر کے ''آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیوشن‘‘ کے ساتھ ساتھ کامرس‘ بزنس اور ٹریڈ کی دنیا میں اصولِ انصاف کے متبادل فاسٹ ٹریک نظام کے افتتاح پر بہت پُر مغز گفتگو کی۔ (اس حوالے سے 16اکتوبر 2020ء کو اسی صفحے پر وکالت نامہ لکھا گیا جس کا عنوان تھا ''کمرشل کورٹس‘ اُمید اور قائد‘‘۔
بات ہو رہی تھی عوامی جمہوریہ چین میں انٹرنیٹ کورٹ کی۔ آپ اس انٹرنیٹ عدالت کو 100فیصد سائبر کورٹ بھی کہہ سکتے ہیں جس میں جج کے علاوہ کمرۂ عدالت میں کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں ہینگ زو شہر میں انٹرنیٹ کورٹ نے ایسا مقدمہ سنا جس میں نہ تو مدعی عدالت میں موجود تھا‘ نہ ہی الزام الیہ یا اُن کا کوئی وکیل۔ اس مقدمے کی مدعی مشہور ناول رائٹر ہیں جن کے لکھے ہوئے ناول سے انسپائر ہو کر چائنیز زبان میں ایک ٹی وی سیریز بنائی گئی۔ ناول نگار چینی خاتون نے چین کی سب سے بڑی انٹرنیٹ فرم 'نیٹ ایز‘ کے خلاف ان کے ناول کی تھیم کو معاوضہ دیے بغیر بلا معاہدہ اور اجازت کے استعمال کرنے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
ہینگ زو انٹرنیٹ کورٹ کو تقریباً دو سال پہلے آپریشنل کیا گیا تھا جس کے ساتھ ہی 2,605 انٹرنیٹ کیسز عدالت میں فائل ہوئے جن میں سے 1444مقدمات بغیر کسی جسمانی پیشی کے سیٹل کر دیے گئے۔ اس انٹرنیٹ کورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آن لائن شاپنگ ڈسپیوٹس‘ کاپی رائٹ پروٹیکشن‘ انٹرنیٹ لونز اور ڈومین نام مخصوص کرنے کے جھگڑوں والے لاء سوٹس کی سماعت کرتی ہے۔ ہینگ زو شہر میں انٹرنیٹ کورٹ کو قائم کرنے کا بڑا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس شہر کو ''ہوم آف ٹیک جائنٹس‘‘ کہا جاتا ہے جن میں علی بابا جیسا گلوبل جائنٹ بھی شامل ہے۔ ہینگ زو کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ یہاں ویب سائٹس‘ ای کامرس پلیٹ فارم اور تھرڈ پارٹی پے منٹ پلیٹ فارم پورے چائنا میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں‘ جن میں کلائوڈ کمپیوٹنگ‘ میگا ڈیٹا‘ موبائل پے منٹ‘ سمارٹ لاجسٹک انڈسٹری‘ دنیا بھر میں اس بزنس کو لیڈ کررہی ہیں۔
ہینگ زو انٹرنیٹ کورٹ دنیا میں اپنی طرز کی پہلی عدالت ہے جس میں مقدمے کا خرچہ بھی سب سے کم ہے مگر کیس کی سماعت کے دوران تاریخیں ڈالنے‘ وکیلوں کی ہڑتال اور جج‘ وکیل جھگڑوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ ہینگ زو انٹرنیٹ کورٹ کی وائس پریذیڈنٹ شائو جنگ ٹینگ نے کورٹ کی تفصیلات کے بارے میں دلچسپ انداز میں بتایا کہ یہ عدالت نئی گلوبل انٹرنیٹ دنیا کی ڈیمانڈز کے حوالے سے رسپانس سسٹم ہے جس میں تمام عدالتی مرحلے ‘فائلنگ‘ ڈلیوری‘ گواہیاں اور عدالت آن لائن لگتی ہے۔ اس سے پہلے انٹرنیٹ ڈسپیوٹس جغرافیائی طور پر کئی براعظموں تک پھیلے ہوتے تھے‘ اس لئے سماعت اور اختیار سماعت یا پھر کوارڈی نیشن پر بھاری خرچ اور بہت زیادہ وقت لگ جاتا تھا۔ انٹرنیٹ کورٹ کے ایک سائل نے کہا کہ اب شہری اپنا گھر چھوڑے بغیر مقدمہ لڑ سکتے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ لاء سوٹ دائر کرنے اور آن لائن شاپنگ میں عملی طور پر کوئی فرق نہیں رہا۔
چین کے دوسرے صوبوں اور شہروں کی ہائی کورٹس سمیت دیگر عدالتوں نے انٹرنیٹ کورٹ سسٹم میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے جس کا ہر عدالتی سیشن 25 منٹ سے زیادہ وقت کا نہیں ہوتا اور کوئی بھی بڑے سے بڑا کیس 32 دن سے آگے نہیں جاسکتا۔ اس لئے چین کے موجودہ جوڈیشل سسٹم کو بھی انہی لائنز سے جوڑنے کے لیے ملک کے جوڈیشل بڑے بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اسی لیے تھوڑے ہی عرصے میں چین نے دوسری آن لائن انٹرنیٹ عدالت بھی آپریشنل کردی ہے جس میں کاروباری ٹرانزیکشن‘ ذاتی معلومات اور انٹی لیکچوئل پراپرٹی آن لائن سے متعلقہ کیسز کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔ دوسری انٹرنیٹ کورٹ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں شروع ہوئی جسے بیجنگ انٹرنیٹ کورٹ کا نام دیا گیا ہے‘ جبکہ تیسری انٹرنیٹ عدالت علیحدہ سے چین کے جنوبی کاروباری شہر گوانگزو میں اسی ماہ قائم کی جارہی ہے۔
جوڈیشل ریفارمز اور جوڈیشل سسٹم میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین نے بیجنگ انٹرنیٹ عدالت کو جوڈیشل ریفارمز میں اہم پیش رفت قرار دیا۔ اس سسٹم کے تحت الیکٹرانک شواہد مستحکم ہوتے ہیں اور ان پر نظر ثانی کرنا بھی آسان ہے۔ بیجنگ کی انٹرنیٹ عدالت نے الیکٹرانک ثبوتوں کو ذخیرہ کرنے کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے ''کراس چین پروف سٹوریج ٹیکنالوجی‘‘ بھی ایجاد کر لی ہے۔ بیجنگ انٹرنیٹ کورٹ کا ایک اور فیصلہ بھی ان دنوں بہت مشہور ہوا ہے‘ جسے ''بلیو جینز کیس‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسی مقدمے کے دوران انٹرنیٹ کورٹ نے رول آف لاء پر نیو رولز کے نام سے عدالتی پروسیجر اور ورکنگ کیلئے ایک طرح سے رولز آف بزنس بھی بنا ڈالے ہیں۔ یہ سن کر بھی خوشگوار حیرانی ہوتی ہے کہ انٹرنیٹ کورٹ کے کیلنڈر کے مطابق رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں چین کی پہلی انٹرنیٹ عدالت میں پہلے سال کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ کیسز آئے۔ انٹرنیٹ کورٹ میں کیسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مسئلہ حل کرنے کیلئے دو اہم اقدام کئے گئے۔پہلا اقدام: بیجنگ انٹرنیٹ کورٹ دنیا کی واحد عدالت ہے جو 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے اور کام کرتی رہتی ہے۔ دوسرا اقدام انٹرنیٹ کورٹ میں 38 سینئر جج تعینات کر کے کیا گیا‘ جن میں صرف ایسے جج شامل ہیں جن کو ٹرائل کورٹس چلانے کا کم از کم 10 سالہ تجربہ ہے۔
چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا‘ مگر دنیا پر راج کرنے والا کوئی شعبہ ایسا نہیں‘ جہاں چین ریفارمز کا لیڈر نہ مانا جا رہا ہو۔ چینی قیادت نے اپنی مثال سے لوگوں کو لیڈ کیا‘ تقریروں سے نہیں۔ تقریر شاید انہیں آتی ہی نہیں۔ ہم ہر مسئلے کا حل تدبیر کے بجائے تقریر میں ڈھونڈنے کی عادت کے قیدی ہیں۔ جالب کو بھی یہی گلہ تھا۔
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
کروڑوں کیوں نہیں مل کر فلسطین کیلئے لڑتے
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں