"ABA" (space) message & send to 7575

بے چاری کے چارہ گر

اگر کسی ریاست میں ''فلاحی‘‘ سسٹم آف گورننس قائم ہو تو ایسی ریاست ماں جیسی کہلائے گی۔ اگر کسی جگہ ریاست ''اصلاحی‘‘ نوعیت کی ہو، جس کی سب سے پہلی ترجیح ریفارمز اور ری سٹرکچرنگ ہے‘ تو ایسی ریاست کو آپ باپ جیسی ریاست کہہ سکتے ہیں۔
ریاست کی تعریف میں اوپر لکھی ہوئی دونوں طرح کی ریاستوں کو مادَر سری ریاست اور پِدر سری ریاست کا نام دیا گیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ریاست کے اپنے وجود کے بارے میں ایک بنیادی نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ ریاست اپنے شہریوں کے لئے چارہ گر ہوتی ہے۔ زیر دست کو زبر دست کی زبردستی سے، اور کمزور کو زورآور کی زور آزمائی سے بچانے کے لئے ریاست اپنے ضابطے اور قانون سب پر ایک طرح سے لاگو کرکے بے چاروں کی چارہ گری کرتی ہے۔ اس لئے کوئی ریاست، اس وقت ریاست نہیں رہتی جب وہ خود بے چاری ہو جائے۔ بہت سے سماجی اور سیاسی سکالرز نے ہزاروں سالوں سے ریاست کو ڈیفائن کر رکھا ہے، اپنی اپنی سوچ کے اینگل سے اور اپنے اپنے سیاسی طرز فکر سے اور تجربے سے۔ ریاست کی مگر سب سے مقبول تعریف جس کو تاریخ دانوں نے بھی بڑے پیمانے پر قبول کر رکھا ہے، اور گلوبل ویلیج نے بھی، وہ تعریف جرمن Sociologist یعنی سماجیات کے ماہر میکس ویبر (Max Weber) نے دنیا کو دے رکھی ہے۔ مسٹر میکس کے الفاظ یہ ہیں:
"State is a polity, that maintains a monopoly on the legitimate use of violence"
آج کی دنیا میں بہت سی ریاستیں خود مختار ہیں، جو انگلش میں Sovereign سٹیٹس کہلاتی ہیں‘ مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کئی ایک ریاستیں آج بھی ایسی موجود ہیں، جن پر ایکسٹرنل خودمختاری ایکسرسائز ہو رہی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی ریاستوں کی سپریم اتھارٹی کسی دوسری ریاست کے ہاتھ میں ہے۔ پری ہسٹری پیریڈ کے لوگ سٹیٹ لَیس سوسائٹیز میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے‘ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور جنگل کا قانون ہی انسانوں کے درمیان ''آرڈر آف دی ڈے‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اولین ریاستیں جو انسانی تاریخ میں معروف ہوئیں، وہ آج سے 5,500 سال پہلے کی والڈ سٹی کے اندر، پڑھائی لکھائی کی جانکاری رکھنے والی اور انسانوں کے درمیان مساوات کے ساتھ ساتھ طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے وجود میں آئی تھیں۔
آج کی ریاست انٹرنیشل لاز اور بین الاقوامی برادری کے درمیان عالمی ادارے یو این او کے چارٹر کے تحت دنیا کی سب سے بڑی جغرافیائی، سیاسی، سفارتی اور مانی ہوئی حقیقت ہے۔ آج نیشن سٹیٹس کا زمانہ ہے جہاں ریاستیں اپنے جغرافیائی بارڈرز کی حد بندی کے اندر نظام زندگی کو آئین، قانون، ضابطے اور رولز کے ذریعے سے ریگولیٹ کرتی ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوال سامنے آتا ہے‘ پاکستان میں ریاست پہلے ہے یا سیاست؟ ریاست، سیاست کرنے والوں کیلئے صرف غیر قانونی ذرائع استعمال کرکے مال بنانے کی چراگاہ ہے؟ تجارت کرکے مال بنانے کا ذریعہ ہے؟ یہ اور اس سے پیوستہ دوسرے بہت سے سوال وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ آج بھی یہ اور اس طرح کے دوسرے بے شمار سوال پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ آئیے ہم یہ سوال سامنے رکھ کر ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلا سوال: دنیا میں کوئی بھی ایسی آئینی یا جمہوری ریاست موجود نہیں ہے، جہاں اکثریت کی حکمرانی کا اصول رائج نہ ہو۔ برطانیہ میں تاج شاہی کا اقتدار ہے‘ لیکن ملکہ برطانیہ اپنے اختیارات کو اکثریت کے ووٹ سے بننے والی حکومت کے تحت ہی استعمال کرتی ہیں۔ یو کے کی موجودہ ملکہ الزبتھ دوم نے 6فروری 1952ء کو اقتدار سنبھالا تھا۔ اپنے اقتدار کے آغاز میں ملکہ برطانیہ کا جس برطانوی وزیراعظم سے واسطہ پڑا وہ کوئی اور نہیں‘ سر وِنسٹن چرچل تھے۔ اتنے بڑے وزیر اعظم کہ جن کو دو منفرد اعزاز حاصل ہیں۔ ان میں سے پہلا اعزاز یہ کہ انہوں نے جرمن فیو ہرَر، ایڈولف ہٹلر کے خلاف ورلڈ وار سیکنڈ میں برطانیہ کو آخری فتح تک لیڈ کیا۔ دوسرا اعزاز یہ کہ جب سر وِنسٹن چرچل کا انتقال ہوا تو وہ مدَر ملکہ اور پرنس فلپ کے علاوہ تیسری شخصیت ہیں، جن کے لئے چار برّ اعظموں میں رائل نیوی اور فوج نے انہیں 42 توپوں کی سلامی پیش کی۔ اب تک 14 وزیر اعظم موجودہ ملکہ برطانیہ کے دور میں گزر چکے ہیں۔ اس وقت مسٹر بورس جانسن برطانیہ کے 77ویں منتخب وزیر اعظم ہیں‘ مگر ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی کے ماڈل میں ایک اصول ایسا ہے، جس کو نہ تو کوئی نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے بلڈوز کرنے کی ہمت۔ یہ جمہوری ریاست میں سیاست کا بنیادی اصول ہے، یعنی ایک آدمی ایک ووٹ‘ اور ایک ووٹ سے جیت جانے والے کو 5 سال ملک میں حکومت چلانے اور ریاستی اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ اگرچہ برطانیہ میں کوئی تحریری آئین نہیں، اس کے باوجود یہ اصول ریاست برطانیہ کا رہنما اصول ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اسی اصول پر پارلیمانی سیاست کی راہ متعین کرتا ہے۔
دوسرا سوال: دوسرے سوال کا تعلق قانون اور انصاف کے آئینی نظام سے متعلقہ ہے‘ جس کی سادہ مثال ملک کے جوڈیشل سسٹم سے لی جا سکتی ہے‘ جس میں قانونی تقاضے اور سارے آئینی مرحلے پورے کرنے کے بعد کسی کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم جاری کرنا، یا جس شخص کے بارے میں سزائے موت دینے کا حکم کسی مجاز عدالت نے جاری کر رکھا ہو‘ اسے رہا کرنے کا آخری اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر45 کے تحت ریاستِ پاکستان کے صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے ملزم کی سزا معاف کرسکیں۔ اس نظام کے متوازی عدالت لگانے یا سٹریٹ جسٹس کرنے پر آئینی اور قانونی پابندی ہے۔ اسی طرح سے ملک میں قانون کا نفاذ کرنے اور لاقانونیت سے نمٹنے کیلئے فوج اور عسکری فورسز قائم کرنا اور انہیں چلانا ایسا اختیار ہے جو صرف اور صرف ریاست کو ہی حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل256 میں پرائیویٹ مِلیشیا‘ لشکر یا سوِل آرمی قائم کرنے پر بھی آئینی پابندی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ دونوں اصول، یعنی اکثریت کی رائے کا احترام اور ریاست کو حاصل اختیارات کی تابعداری کو ترک کیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ اس طرف جانے سے پہلے ہماری ایٹمی ریاست کو بے چاری بنا کر اس کی چارہ گری کی دعوے داری کرنے والوں پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے‘ جس کی تازہ ترین مثال کسی اور کی نہیں بلکہ ملک کے ایک اَٹھ ماہی وزیر اعظم نے ساری دنیا کے سامنے پیش کی جس میں وہ قومی اسمبلی فلور پر سپیکر صاحب کو جوتا مارنے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے اسی پارلیمنٹ کے باہر جوتا مارنے والے نامعلوم لڑکے کو خود مارا پیٹا تھا۔ ہماری ریاست کو بے چاری بنانے کے خواہش مند کچھ چارہ گر اور بھی ہیں‘ جو عدالتی فیصلے کو چار پانچ لوگوں کی رائے جانتے ہیں، تاحیات نااہلی کو 'کیوں نکالا‘ سمجھتے ہیں، اور ریاستی اداروں کو آئین کے بجائے اپنی مرضی کے نیچے لاکر قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
اگر خدا نہ کرے کہ ریاست چارہ گر نہ ہو، توپھر 22 کروڑ لوگوں کے ملک میں 22 کروڑ عدالتیں لگ جائیں گی۔ ہر شخص مدعی، منصف، تفتیشی اور فیصلہ ساز ہو جائے گا، انڈَر ٹیکر بھی۔
بہت سے دوغلے چہرے اسی خواہش پہ جیتے ہیں
کہ ان کی کوچہ و بازار میں تشہیر ہو جائے
ادب کے تاجروں نے آجروں سے شرط باندھی ہے
کہ ہر مصرعہ نیاز و ساز کی تصویر ہو جائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں