"ABA" (space) message & send to 7575

لندن پلان …آفیشل

''کرپشن رُول آف لاء اور اداروں پر اعتمادپہ تباہ کن طریقے سے اثر انداز ہوتی اور زبردست دبائو ڈالتی ہے۔ کرپشن ترقی کے عمل کوانتہائی سلو ڈائون کردیتی ہے۔ کرپشن غریب ملکوں کی دولت کو ملک سے ڈرین کردیتی ہے۔ کرپشن غریب ملکوں کے عوام کو غربت کے جال میں پھنسا کر رکھتی ہے۔کرپشن جمہوریت کے کنویں کو زہر آلود بنادیتی ہے‘ ایسا عالمی زہر جو ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ Whistleblowers اور وہ لوگ جو کرپشن کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس جدوجہد میں ٹارگٹ ہونے والے کچھ لوگوں کو آخری قیمت تک ادا کرنا پڑ جاتی ہے‘ اپنی جان دے کر۔ کرپشن کی وبا روکنے کی راہ میں جان دینے والے عظیم لوگوں میں Sergei Magnitsky خود شامل ہیںجو ہمارے لئے ہیومن رائٹس سینکشنز ریجیم کو متحرک بنانے اور ہم سب کو انسپائر کرنے کا باعث بنے‘‘۔
قارئینِ وکالت نامہ ‘آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ اوپر جس تقریر کا اقتباس آپ کی توجہ کیلئے لکھا ہے وہ تقریر وزیر اعظم عمران خان نے کہیں کی ہو گی۔ ملک کی پارلیمنٹ میں یا بیرون ملک کسی اجتماع میں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں 'سٹیٹس کو‘ فورسز کے پروموٹرز ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اب تو کرپشن کرپشن کا پیچھا چھوڑدو‘ deliveranceپر توجہ دو۔ اس سوچ کی مثال ایسے ہی ہے‘جیسے گھسے پِٹے ٹائر‘خراب انجن‘ ناکارہ حصے ‘ ٹوٹے ہوئے گوڈے اورمٹی کے تیل کی ملاوٹ والے بچے کھچے پٹرول والی گاڑی کے پاس کھڑے ہوکر کوئی ڈرائیور سے کہے کہ مجھے ذرا پیرس ایئر پورٹ تک لے چلو...ڈرائیور جب حیران ہو کر ایسی گاڑی کو بحال کئے بغیر‘ اُڑان بھرنے کے خواہش مند کی توجہ گاڑی کی حالت کی طرف دلائے گاتو آگے سے جواب ملے کہ میں نہیں جانتا‘ڈرائیور تم ہو۔ اقبال نے بھی تو ہمیں یہی سبق دیا ہے؎
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
آپ کو مایوس کرنے کیلئے معذرت چاہتا ہوں ‘یہ تقریر عمران خان صاحب کی ہرگز نہیں ہے بلکہ 26 اپریل 2021ء کے دن یوکے کے فارن سیکرٹری Dominic Raabنے ان خیالات کا اظہار لندن میں ہائوس آف کامنز کے فلور پر کھڑے ہو کرپوائنٹ آف آرڈر پہ آفیشل بیان دیتے ہوئے کیا تھا۔اسی لئے ہم نے اسے لندن پلان ...آفیشل کا نام دیا ہے۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اگرچہ انگلینڈ میں SAMLA کے نام سے سینکشنز اینڈ منی لانڈرنگ کا قانون2018ء میں بن چکا تھا‘ لیکن اس کے ریگولیشنز بناتے بناتے جمہوریت کی ماں کو بھی 36 مہینے لگ گئے۔ نئے ریگولیشنز کی زبان کہتی ہے کہ سیریس کرپشن کے مقدمات پر گرفت کرنے والالانگ آرم اب آسانی سے پہنچ سکے گا۔ ان ریگولیشنز کے ذریعے اب برطانیہ کی حکومت منی لانڈرنگ سے بنائے گئے اثاثے فریز کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کے ملزموں پر ٹریول بَین لگانے کا اختیار بھی حکومت کو مل گیا ہے۔ ذرا آئیے ان ریگولیشنز کے تین اہم نکات کی طرف:
پہلا نکتہ سیریس کرپشن کی ڈیفی نیشن ہے جس میں رشوت وغیرہ سے کمایا ہوا مال یا ناجائز اور غیر قانونی ذرائع سے بنائی ہوئی پراپرٹی‘ دونوں کو سیریس کرپشن کی مد میں شامل کردیا گیا ہے۔
دوسرا نکتہ رشوت کی تعریف پر مبنی ہے ‘جس میں کیش رقم کے علاوہ فارن پبلک آفیشل کی دوسری طرح کی سہولت کاری کو بھی رشوت سمجھا جائے گا۔
تیسرا نکتہ ناجائز اثاثوں کے بارے میں ہے‘ جس کے مطابق کوئی فارن پبلک آفیشل کسی طرح کے غیر قانونی ذرائع سے پراپرٹی بنائے‘ جس میں ویلیو رکھنے والے کانٹریکٹس ‘لائسنسز یا کنسیشنز شامل ہوں‘ ان سب کو ضبط کیا جاسکے گا۔
تینوں طرح کے مجرموں کے یوکے میں انٹری اور ان کی جائیدادوں کو فریز کرنے جیسی پابندی لگانے کیلئے یوکے کی گورنمنٹ کے فارن سیکرٹری یہ کارِ خاص کسی آفیسر کو سونپیں گے۔ یہ ریگولیشنز ‘گلوبل ہیومن رائٹس سینکشنز ریگولیشنز مجریہ2020ء سے بھی ملتے جلتے ہیں۔ ان ریگولیشنز کا مطلب یہ ہوا کہ یو کے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منی لانڈرنگ ‘کرپشن ‘کِک بیکس اور ناجائز ذرائع سے بنائی ہوئی رقم رکھے جانے کا کھلا اعتراف ہواہے۔ وہ بھی حکومتی اور ریاستی سطح پر۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ آفیشل اعتراف بھی ہوا کہ غریب ملکوں کی اکانومی کو اُجاڑ کر عام لوگوں کو غریب کرنے والے ملزم ہیرو نہیں ہیں بلکہ ایسے فارن پبلک آفیشلز مجرم ہیں۔
اب آئیے ذرا 24ستمبر2020ء کی طرف چلتے ہیں جب وزیر اعظم عمران خان نے اس موضوع پر یورپ‘امریکہ اور انگلینڈ‘ سب کوپہلی عالمی ''ویک اَپ کال ‘‘دی تھی ۔ عمران خان سے پہلے کیا ‘ان کے بعد بھی تیسری دنیا کے لیڈروں اور خاص طور پر رہنمائوں کو ایسی ہمت کی جرأت خال خال ہی ہو گی۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد صاحب اور ترکی کے رجب طیب اردوان صاحب کے علاوہ باقی 47 مسلم ملکوں سے ایسی آواز سننے کو لوگ ترستے ہیں۔ عمران خان یو این جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز پر انٹرنیشنل پینل آن فنانشل احتساب‘ ٹرانسپیرنسی اینڈ integrity (The FACTI Panel) سے خطاب کررہے تھے۔یہ اس اعتبار سے ایک عجیب تقریر تھی جس میں ایک ترقی پذیر یا غریب ملک کا وزیر اعظم گلوبل کمیونٹی کو عالمی ٹھگوں کے خلاف فیصلہ کن ایکشن لینے کیلئے کہہ رہا تھا۔ اس کال آف ایکشن کی بنیاد یہ تھی کہ کرپشن ڈویلپنگ ملکوں کے غریبوں کا خون بہا رہی ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ نکتہ پہلی بار گلوبل ویلیج کی لیڈرشپ کے سامنے رکھا کہ غریب ملکوں سے بلین ڈالرز غیر قانونی طریقے سے چوری کرکے ہر سال چند امیر ملکوں میں پہنچا کر چھپا کر رکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے FACTIپینل کی تیار کردہ رپورٹ میں غریب قوموں کے ان چوری شدہ اثاثوں کے ریلیز کردہ اعداد و شمار کو ہو ش اُڑا دینے والے قرار دیا‘جس کے مطابق ہر سال ایک ٹرلین یوایس ڈالرز وائٹ کالر کرمینلز منی لانڈرنگ کی جنت سمجھنے والے بین الاقوامی دار الحکومتوں میں پہنچاتے ہیں۔ جن دنوں پانامہ کیس میں شہنشاہ منی لانڈرنگ پابلو ایسکوبار کا ذکر آیاتب پاکستان میں یہ اجنبی نام تھا۔ اب جن لوگوں نے Netflix پر نارکوس اور ڈرگ لارڈز سیریز دیکھ لی ہیں انہیں پاکستان‘میکسیکو اور پانامہ کے ٹھگوں میں کمال مماثلت نہیں بلکہ مشابہت بھی نظر آتی ہے۔
مئی غریب اور محنت کش مزدوروں کا مہینہ ہے ۔ یہ مماثلت بھی دیکھ لیں کہ اکثر میگا اُمرا کے چہروں کی سرخی میں محنت کشوں کا لہو جھلکتا ہے۔ آخری چند سطریں شکاگو کے شہدا کے سرخ خون کی عقیدت کی نظر ہیں۔بقول اقبال:
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ ٔگندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
تہذیبِ نوی کار گہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں