"ABA" (space) message & send to 7575

اقبال

ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیف 'زندہ رود‘ سے ایک اقتباس:
''مسلسل علالت کے سبب اقبال تعلیماتِ قرآنی یا فقہ کی تدوین کے بارے میں اپنی کتاب بھی تحریر نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انگریزی میں اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی بعض تحریریں، جنہیں ان کی تصنیف کا خاکہ یا پلان سمجھنا چاہئے، میاں محمد شفیع کو دیں۔ یہ نوٹس بقول میاں محمد شفیع 1938ء میں تحریر کئے گئے تھے اور اقبال انہیں کتابی شکل میں ڈکٹیٹ کرانا چاہتے تھے، مگر اب صرف اس تصنیف کے خاکے ہی کے طور پر محفوظ ہیں۔
اقبال کی بصارت کی کمزوری کے سبب ان کے احباب یا اعزہ و اقارب ہی انہیں روزانہ اخبار یا خطوط پڑھ کر سنایا کرتے اور اقبال انہی سے خطوط کے جوابات اپنے اشعار یا دیگر نثری مضامین میں لکھواتے تھے۔ میاں محمد شفیع اور سیف نذیر نیازی کے سپرد یہی کام تھا لیکن ان کی عدم موجودگی میں بعض اوقات مسز ڈورس احمد یا راقم بھی یہ خدمت انجام دینے کے لیے حاضر ہوتے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ جو کوئی پاس بیٹھا ہوتا اس سے بھی پڑھوا یا لکھوا لیتے مثلاً ایک عقیدت مند نصراللہ خان، جو ان دنوں ''زمیندار‘‘ سے وابستہ تھے، کبھی کبھار ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ''سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ یا ''ٹریبیون‘‘ کے لیڈز پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نصراللہ خان اپنے کسی دہریے دوست کو ساتھ لے کر اقبال کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ یہ خدا کو نہیں مانتے انہیں سمجھائے‘ اس پر اقبال کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جس کو اللہ نہ سمجھا سکا اس کو میں کیا سمجھا سکوں گا۔
انہیں لوگ گھر پر ہی ملنے آتے تھے۔ ہر شام احباب کی محفل جمتی جو رات گئے تک قائم رہتی۔ اُن کی چارپائی کے گرد کرسیاں رکھی ہوتیں اور لوگ اُن پر آ کر بیٹھ جاتے۔ وہ چارپائی پر لیٹے یا گائو تکیے کا سہارا لیے اُن سے باتیں کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ حقہ بھی پیتے جاتے۔ گفتگو نہایت سنجیدہ موضوعات پر ہوتی یا کبھی کبھی علی بخش اور چودھری محمد حسین کے ساتھ نوک جھونک سے محظوظ ہوتے۔ چوہدری محمد حسین بلا ناغہ شام کو اُن کے پاس آیا کرتے، بالعموم اُس وقت جب اقبال تنہا ہوتے۔ اقبال، چودھری محمد حسین کو اپنا تازہ کلام سناتے۔ ایک پرانے لیمپ کی ماند سی روشنی میں چودھری محمد حسین فارسی یا عربی لغت کی موٹی موٹی جلدوں کے صفحے الٹتے: اشعار میں مضمون کی یکجہتی، الفاظ کی صحت یا جذبات کی ہم آہنگی پر بحث و تمحیص ہوتی، اتنے میں اور لوگ بھی آ جاتے۔ بعض اوقات اسلام، فلسفہ یا سیاسیات پر گفتگو ہوتی یا ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں۔ چودھری محمد حسین بہت کھل کر ہنستے تھے اور ان کے قہقہوں کی آواز اکثر اقبال کے کمرے میں گونجا کرتی۔
چودھری محمد حسین اچھے کھانے کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ خوب کھاتے تھے۔ اقبال مرغن کھانے خود تو نہ کھا سکتے تھے مگر بعض اوقات بریانی‘ قورمہ‘ مرغ مسلم اور کباب خاص طور پر بنوانے کا حکم دیتے اور اپنے روبرو چودھری محمد حسین، حکیم محمد حسن قرشی یا دیگر احباب کو کھلواتے اور انہیں کھاتے دیکھ کر خوش ہوتے۔ چودھری محمد حسین کو اقبال کی طرح آموں سے بڑی رغبت تھی۔ گرمیوں کے موسم میں اقبال کے لیے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آموں کے ٹوکرے آیا کرتے اور ان سے چودھری محمد حسین کی تواضع کی جاتی۔ سردیوں کے موسم میں شاہِ افغانستان کی بھیجی ہوئی سردوں، انگوروں اور خشک میووں کی پیٹیا ں آیا کرتیں۔ ان پیٹیوں کو کھاتے ہوئے گفتگو برصغیر کی حدود سے نکل کر مشرقِ وسطیٰ تک پہنچ جاتی۔ قندھار، غزنی، کابل، تہران اور تبریز سے ان پھلوں کا ذکر اقبال اور چوھری محمد حسین کو سلاطین، اساتذہ اور صوفیائے کرام تک لے جاتا۔ غرض یہ کہ عجب سماں بنتا۔ بات کہاں سے چلتی اور کہاں پہنچ جاتی۔ پھر علی بخش سے مذاق ہونے لگتا اور چودھری محمد حسین کبھی اس کی خضاب زدہ مونچھوں پر پھبتی کستے، کبھی اسے بیاہ رچانے کو کہتے اور کبھی سرکار سے مربعے دلوانے کی ہامی بھرتے۔ ایک عرصے تک علی بخش کی مونچھوں کے رنگ کے تعین کے سلسلے میں بحث جاری رہی۔ اقبال کی رائے میں اس کی مونچھوں کا رنگ ''مونچھئی‘‘ تھا۔ انہی ایام میں چوہدری محمد حسین نے ایک نیلے رنگ کا اوور کوٹ بھی سلوایا جو عرصے تک موضوعِ مذاق بنا رہا۔
اقبال رات کا کھانا نہ کھاتے تھے، صرف کشمیری چائے پینے پر اکتفا کرتے یا کبھی کبھار آپا جان کا تیار کردہ شوربا یا یخنی پی لیتے۔ رات گئے تک علی بخش، رحماں، دیوان علی یا میاں محمد شیخ ان کے پائوں اور شانے دابتے اور اگر راقم کبھی دابنے کے لیے بیٹھتا تو منع کر دیتے۔ کہتے: تم ابھی چھوٹے ہو تھک جائو گے۔
''جاوید منزل‘‘ میں اقبال کی زندگی سے متعلق چند یادیں راقم کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ اس زمانے میں علی بخش کے علاوہ رحماں بھی گھر کا کام کاج کرتے تھے۔ عبدالمجید خانساماں کھانا پکاتا تھا اور رحمت بی منیرہ کی دیکھ بھال کے لیے مامور تھیں۔ رحماں کے سپرد مالی کا کام بھی تھا۔ سودا سلف علی بخش لاتا اور رحماں بھی اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے علاوہ علی بخش، رحماں اور دیوان علی باری باری اقبال کے پائوں، پیٹھ یا شانے دابتے تھے، علی بخش منیرہ کو تانگے پر سکول چھوڑنے یا لینے جاتا۔ راقم علیحدہ تانگے پر سکول جایا کرتا۔ ان دنوں موٹر کار بہت کم استعمال میں لائی جاتی تھی۔ دیوان علی اچھا خاصا گا لیتا تھا۔ کبھی کبھار اقبال کو ہارمونیم کے ساتھ خواجہ غلام فرید، سلطان باہو، بلھے شاہ اور دیگر شعرا کا کلام سنایا کرتا۔ آخری ایام میں اقبال کی خدمت میں اکثر و بیشتر موجود رہنے والے عقیدت مند میاں محمد شفیع، سید نذیر نیازی، چوہدری محمد حسین، حکیم محمد حسن قرشی، راجہ حسن اختر اور ڈاکٹر عبدالحمید تھے۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ بھی بسا اوقات انہیں دیکھنے کے لیے آجاتے۔ بعض اوقات راجہ حسن اختر اپنے ساتھ سجاد سرور نیازی کو لاتے اور سجاد سرور نیازی اقبال کو غالب، حالی یا اُن کا اپنا کلام ہارمونیم کے ساتھ گا کر سناتے۔ اسی طرح کبھی کبھار اقبال کی فرمائش پر فقیر نجم الدین ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور انہیں ستار یا شاید طائوس بجا کر سناتے۔ انہی ایام میں ایک عرب بھی روزانہ اقبال سے ملنے آیا کرتے تھے جو انہیں قرآن مجید پڑھ کر سناتے۔ راقم نے بھی ان سے چند ماہ قرآن مجید پڑھا ہے، وہ نہایت خوش الحان تھے۔ اقبال جب کبھی ان سے قرآن مجید سنتے، راقم کو بلوا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ایک بار انہوں نے سورہ مزمل پڑھی تو اقبال اتنا روئے کہ تکیہ آنسوئوں سے تر ہو گیا۔ جب وہ ختم کر چکے تو انہوں نے سر اٹھا کر راقم کی طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے: تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح راقم کو ایک مرتبہ مسدس حالی پڑھنے کے لیے کہا اور خاص طور پر یہ بندجب قریب بیٹھے میاں محمد شفیع نے دہرایا:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
تو اقبال سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔ راقم نے سردار بیگم کی وفات پر انہیں آنسو بہاتے ہوئے نہ دیکھ تھا مگرقرآن مجید سنتے وقت، اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت، یا رسول کریمﷺ کا اسم مبارک کسی کی نوکِ زبان پر آتے ہی ان کی آنکھیں امڈ آیا کرتیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں