"ARC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی اور عوام کا فرض

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے کو اس ہفتے چارسال ہوگئے ہیں ،جس کے نتیجے میں آج تک ہمیں بین الاقوامی کرکٹ دیکھنے کو نہیں ملی۔ صرف افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے آنے سے گزارا تو نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان چاربرسوں میں اسی ایک ٹیم کی ہم میزبانی کا شرف حاصل کرسکے ہیں۔ مارچ 2009ء کا وہ منحوس دن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میرا گھر چونکہ لبرٹی مارکیٹ کے کافی قریب ہے اس وجہ سے اس واقعے کی تفصیلات کو بھلانا محال ہے۔ تقریباً روزہی لبرٹی کے گول چکر سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر ان راستوں سے بھی جہاں سے موٹرسائیکلوں پر سوار دہشت گرد واردات کے بعد فرار ہوئے۔ گلبرگ کے جے بلاک میں میرے گھر کے آگے جو چھوٹی سی سڑک ہے اس پر بھی عینی شاہدوں کے مطابق اس روز دودہشت گرد موٹرسائیکل پر گزرے اور میرے گھر سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر ایک مکان کے باہر اپنا اسلحہ پھینک کر آگے مکہ کالونی کی طرف چلے گئے۔ وہیں سے ریلوے لائن کراس کرکے وہ مدینہ کالونی گئے ہوں گے کیونکہ بعدازاں تفتیش سے معلوم ہوا تھا کہ دہشت گردوں کے ٹولے نے مدینہ کالونی سے آکر یہ واردات کی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں نے بڑے اطمینان سے واردات کی ، بے دھڑک آئے اور بے خوف نکل گئے۔فردوس مارکیٹ کے اندر سڑک پر ہی ایک مزار سا بنا ہوا ہے۔فرار ہوتے ہوئے دو دہشت گرد وہاں گر پڑے۔وہ بڑے اطمینان سے اُٹھے موٹرسائیکل اور اسلحہ سنبھالا اور چلے گئے۔ میرے گھر کے آگے سے گزرتے ہوئے جے بلاک کی ایک کوٹھی کے سنامنے اپنا اسلحہ پھینکا اور مکہ کالونی کی طرف نکل گئے۔ یہ سب باتیں وہاں اس وقت موجود عینی شاہدوں نے بتائیں جن میں کچھ مسلح سکیورٹی گارڈز بھی شامل تھے۔ میں اس کو اپنے عوام کی بے حسی نہیں کہوں گا کہ ان میں سے کسی نے ان کی مزاحمت نہیں کی۔ اصل میں ہمارے لوگوں کو شروع سے ہی تربیت نہیں دی گئی کہ اس نوعیت کے غیرمعمولی حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سکولوں کی سطح سے اس شعور کی تعلیم کا آغاز کرکے ہرسطح تک اس کو پہنچایا جائے۔ میری رائے میں اب ہماری سوسائٹی کے لیڈروں کو اس بارے میں اہم فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ دہشت گردی کے اس ماحول میں ہم اپنے ارد گرد سے غافل اور لاتعلق رہ کر محض اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ یہ اہم فیصلے اس بارے میں ہونے چاہئیں کہ آپ کے ہمسائے میں کوئی بھی غیرمعمولی حرکت ہوتو آپ محفوظ انداز میں اس کا کھوج لگاکر کسی مرکز کو اس سے مطلع کریں گے اور ایسا کرنے پر آپ کو شامل تفتیش نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ ادارہ آپ کا نام بھی صیغہ راز میں رکھے گا جو اس مرکز کی اطلاعات ومعلومات کا جائزہ لے کر اقدام کرنے کا پابند ہوگا۔ پولیس بدنام ہے تو اس کے لیے الگ محکمہ بن سکتا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اگر حکومت اور سول سوسائٹی کے تعاون سے یہ کام شروع کردیا جائے تو اس کو بے مثال کامیابی ہوگی۔ کیونکہ ہمارے لوگ تو طبعاً ہی دوسروں کے معاملات میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ اور ان کے اس شوق کو قانونی شکل مل گئی تو کامیابی یقینی ہے۔ پاکستان کی بات کرتے ہوئے ویسے تو مغربی ملکوں کے ماحول کی مثال دینا درست نہیں لیکن کسی مغربی سسٹم کو اپنے ماحول کے مطابق بنالینے میں کوئی حرج نہیں۔میں نے امریکہ میں اپنے پانچ سالہ قیام کے دوران وہاں رہائشی علاقوں میں دیکھا کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں کم سے کم مداخلت کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کا اپنے ہمسائے میں رہنے والوں سے بھلے تعارف تک نہ ہو مگر اس عدم مداخلت کے تاثرکے باوجود ان کے سسٹم میں ہرایک رہائشی اور اس کے معمولات کے بارے میں معلومات موجود ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر NEIGHBOURHOOD WATCH SYSTEM کی بدولت ہوتا ہے جس کے تحت وہاں کے رہائشی ہی ہرقسم کی حرکات کو مقامی پولیس تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔رہائشی جو معلومات پولیس تک پہنچاتے ہیں ان میں عموماً نوے فیصد سے بھی زیادہ بالکل بے فائدہ ہوتی ہیں لیکن ایسی معلومات دینے والوں کی نہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ مغربی دنیا میں یہ سسٹم بہت کامیاب ہے اور ہم اپنے ماحول کے حساب سے اگر ایسا کوئی سسٹم ترتیب دے لیں تو ہمارے اندر آکر جو لوگ باآسانی دہشت گردی کرلیتے ہیں ان کی پکڑ دھکڑ بہت آسانی سے ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے ذہین لوگ موجود ہیں وہ یقینا ہمارے قومی مزاج کے حساب سے ایسا کوئی سسٹم بنانے میں مدددے سکتے ہیں جو ہمارے ہاں قابل عمل ہو۔ اب دیکھیں ،سننے میں آیا ہے کہ ایک ہزار کلوگرام دھماکہ خیز مواد والے جس ٹینکرسے حال ہی میں کوئٹہ میں دھماکہ کرکے دہشت گردوں نے تباہی مچادی ، اس کے لیے کیمیکلز لاہور سے خریدے گئے تھے ۔دہشت گردوں کو ہمارے شہروں ہی سے مہلک کیمیکلز دستیاب ہوتے ہیں۔ تو کیوں ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو شبہ نہ پڑا کہ یہ کیمیکلز لوگوں کی زندگیاں لے سکتے ہیں۔ اگر کسی کو شبہ پڑا بھی تو وہ کیوں نہ اس شبے کو ان اداروں تک پہنچا سکا جو اس سے فائدہ اٹھاکر دہشت گردوں تک پہنچ سکتے۔ آج کل دہشت گردی کی جو فضا موجود ہے پہلے نہیں تھی ۔ایک دوسرے کے معاملات پر نظررکھے بغیر ہمارا گزارا ہورہا تھا ، لیکن اب اس طرح گزارا ممکن نہیں ۔ہمیں اب غفلت سے جاگ کر اپنے عوام کو دہشت گردوں اور ان کے ساتھیوں کی نشاندہی کے کام پر لگادینا چاہیے۔ عوام اگر دہشت گردوں کے پیچھے پڑ گئے تو پھر یہ نہیں بچ سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں