"ARC" (space) message & send to 7575

نو عمر خود کش بمبار

پنجابی زبان کے بھارتی شاعر شوکمار بٹالوی کا ایک مصرع ہے: ع قبراں اُڈیکدیاں جیویں پُتراں نوں ماواں یعنی جس طرح ماں کا بیٹے کے لیے انتظار کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح قبریں بھی اپنے مکینوں کی منتظر رہتی ہیں۔ اس مصرعے میں مجھے جو بات پسند آئی وہ یہ ہے کہ قبروں کا اپنے مکین کا انتظار کرنا ایک اٹل حقیقت ہے مگر شاعر نے ماں کے بیٹے کے لیے انتظار کو اس سے بھی بڑی سچائی کے طورپر بیان کیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ مائیں بیٹوں کا اس طرح انتظار کرتی ہیں جیسے قبریں اپنے مکینوں کی منتظر رہتی ہیں بلکہ یہ کہا کہ قبریں اپنے معیّن مکینوں کا اسی طرح انتظار کرتی ہیں جس طرح مائیں اپنے بیٹوں کا انتظار کرتی ہیں۔ یہ ایک شاعرانہ انداز ہے جو ماں کی اپنے بیٹے کے لیے محبت کو بے مثال خراج عقیدت ہے۔ شاعری سے قطع نظر ویسے بھی ماں کی بے لوث محبت کا ذکر کہاں نہیں ہوتا۔ یہ رشتہ ہی ایسا ہے۔ یہ تمہید میں نے اس غرض سے بیان کی ہے کہ یہ جو کچی عمروں کے لڑکے خودکش بمبار کے طورپر استعمال کیے جاتے ہیں ان کی مائوں کے اپنے بیٹوں کے انتظار کے بارے میں سوچ کر میرا سرگھوم جاتا ہے۔ یعنی ان بیچاریوں کو اپنی قبر تک پہنچنے کے وقت تک اپنے بیٹوں کا انتظار کرنا ہو گا۔ جو لوگ ان بچوں کی برین واشنگ کرکے اور ان پر نفسیاتی دبائو ڈال کر انہیں خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ کس طرح درست مانا جاسکتا ہے کہ یہ ان کے جہاد کا حصہ ہے۔کیا اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا جہاد ہوا جس میں مائوں سے ان کے کم عمر بچے چھین کر انہیں زندگی بھر کے لیے دکھی کردیا گیا ہو؟ اور پہاڑ بھی ان کے دکھ سن کر رو دیتے ہوں۔ قبائلی علاقوں کے دروازے ہم پر بند ہیں۔ ہمیں وہاں کی خبریں نہیں پہنچتیں مگر پروردگار نے ہمیں سوچنے کی طاقت تو دی ہے۔ کیا ہم تصور نہیں کرسکتے کہ پہاڑوں میں رہنے والی ان بچوں کی مائیں کتنی دکھی ہوں گی۔ ڈرون حملوں میں تو اکثر مائیں بھی بچوں کے ساتھ لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ جہاد کے کھلاڑی کم عمربچوں کو تعلیم کے بہانے مائوں سے جدا کرکے جو گھنائونا کھیل کھیلتے ہیںوہ ڈرون حملوں سے بھی زیادہ المناک ہے۔ ایسا گھنائونا کھیل گزشتہ عشروں کے دوران سری لنکا میں بھی کھیلا گیا۔ وہاں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایم نامی جماعت نے جو مغربی دنیا میں LTTEیا تامل ٹائیگرز کہلاتی ہے بہت ساری مائوں کو دکھی کیا۔ یہ لوگ مسلمان نہیں اس لئے ان کے خودکش حملے جہاد کے نام پر نہیں ہوتے تھے۔ انہی لوگوں نے ہی سب سے پہلے کم عمر لڑکے لڑکیوں کو خودکش بمبار کے طورپر استعمال کیا۔ میرا تبصرہ ان لوگوں کی جدوجہد پر نہیں، یہ سری لنکا سے علیحدگی چاہتے تھے اور اس کے لیے مسلح جدوجہد کررہے تھے۔ جنوبی بھارت میں رہنے والی تامل آبادی ان کی حامی تھی، ان کی جدوجہد صحیح تھی یا غلط اس سے قطع نظر ان کی یہ پالیسی کہ کچی عمر کے بچوں کی برین واشنگ کرکے ان کو انسانی بم کے طورپر استعمال کرنا ہمیشہ قابل مذمت رہی۔ تامل ٹائیگرز کے لیڈر پر بھاکرن کو کبھی خیال نہ آیا کہ بچوں کو خودکش بمبار بنانا ان کے اہل خانہ اور ماں باپ کے لیے کتنے گہرے دُکھ کا باعث بنتا ہے۔ یہی بے حسی غالباً اس کی شکست کا سبب بنی ۔ سری لنکا کی حکومت پر اگرچہ جنگی جرائم کا الزام عائد ہوا مگر یہ طے ہوگیا کہ ایسی پالیسی کبھی کامیاب ہوسکتی جس کی بنیاد میں ایثار وقربانی کے بجائے محض دکھ ہو۔ جنگوں میں سپاہی لڑنے جاتے ہیں، مائوں کی دعائیں بھی ساتھ ہوتی ہیں اور سپاہی شہید ہوجائے تو ماں اس کی شہادت پر فخرکرتی ہے لیکن جب صورتحال یہ ہو کہ کسی ماں کا کم عمر بچہ ورغلا کر خودکش حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا جائے تو پھر ماں کو کیسے صبر آسکتا ہے! جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مائیں خوشی سے اپنے چھوٹی عمر کے لڑکوں کو خودکش بمبار بننے کی اجازت دیتی ہیں وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ایسا کہیں بھی ممکن نہیں۔قبائلی علاقوں میں بھی ایسا ممکن نہیں۔ جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ جنگ میں سب جائز ہوتا ہے،بالکل بے بنیاد ہے۔ کئی عالمی معاہدے موجود ہیں، جنگی جرائم کی عدالتیں موجود ہیں جو ان حربوں کو ممنوع قرار دے چکی ہیں۔ اس بارے میں یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فوج کے سپاہی جب کمزور ہو جائیں اور دشمن کی طاقت کو روکنا خودکش حملوں سے ہی ممکن ہوتو سپاہی اپنے جسم سے دستی بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹتے رہے ہیں ۔ دشمن کو اس طرح پسپائی پر مجبور کرنے کی مثال سے بھی اس بات کا کوئی جواز فراہم نہیں ہوتا کہ کچی عمر کے لڑکوں کی برین واشنگ کرکے ان کو خودکش بمبار کے طورپر استعمال کیا جائے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ خود کش لڑکا اپنی مرضی سے جیکٹ پہن کر خود کو دھماکے سے اڑا لیتا ہے مگر حقیقت میں وہ کسی اور کی مرضی پر چل رہا ہوتا ہے۔ یہی بنیادی بات ہے۔ جو لوگ ان خودکش بمباروں کو تیار کرتے ہیں، انہیں تو معلوم ہوتا ہے اور وہ ذلت کے اس کام میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن جن لیڈروں نے ان کو اس کام پر لگایا ہوا ہے ان کو احساس ہوجانا چاہیے کہ اس پالیسی سے ان کے اپنے لوگوں پر بھی غم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں ۔ جہاں یہ بچے خودکش حملہ کرتے ہیں وہاں کے لوگ بھی ان کے ہم وطن ہوتے ہیں۔ دکھ اور غم کے علاوہ اس پالیسی سے جو چیز پیدا ہوتی ہے وہ نفرت ہے۔ ان لوگوں کو لازماً اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ جوکچھ یہ کررہے ہیں آیا اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکل رہا ہے؟ پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کی کیا نظریاتی بنیاد ہے ؟ کیا ان کو دکھائی نہیں دیتا کہ ان کی یہ کارروائیاں ہرلحاظ سے تامل ٹائیگرز کی کارروائیوں جیسی ہوچکی ہیں۔ کیا یہ بھی وہی انجام چاہتے ہیں۔ تامل ٹائیگرز کو کیا ملا؟ محض سری لنکا کی حکومت پر جنگی جرائم کا الزام اور کچھ بھی نہیں ۔ ان کی تمام جدوجہد اس دکھ کے نیچے دب گئی جو کم عمر بچوں کو خود کش بمبار بناکر انہوں نے اپنے ساتھیوںاور دشمنوں کو دیا۔ جس طرح قبریں اپنے مکینوں کا انتظار کرتی ہیں ایک ماں کو اپنے بیٹے کا اسی طرح کے انتظار کا پیکر بنا دینا کوئی پالیسی نہیں ۔ یہ محض ظلم ہے جو کبھی بارآور نہیں ہوسکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں