ہمارے ملک میں اہم عہدوں پر ہنرمند اور قابل افراد تعینات کرنے کی روایت بہت کمزور رہی ہے حالانکہ کسی وجہ سے جب بھی کوئی محکمہ کسی قابل سربراہ کی نگرانی میں آیا اس محکمے کی کایاپلٹ گئی۔ ریٹائرڈ ایئرمارشل نورخان کا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو ایک قابل اعتماد ادارہ بنانے میں کردار اور پھر موصوف کا ہاکی فیڈریشن کے سربراہ کے طورپر جو رول رہا وہ آج بھی سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ماضی میں اس نوعیت کی خال خال مثالیں اور بھی مل جاتی ہیں، مگر زیادہ مثالیں ایسی ہیں کہ اب ان کا ذکر بھی مزاح کے زمرے میں آتا ہے۔ اس ضمن میں جو سرکاری افسر Misfitہوتے ہیں ان کی ’’کارکردگی ‘‘ تو بس ان محدود لوگوں پر عیاں ہوتی ہے جو ان کے ماتحت ہوں یا Colleagueہوں۔ لیکن سیاسی لوگوں کی حکمرانی میں جو لطائف ہوتے ہیں وہ میڈیا کے ذریعے عوام تک بھی پہنچتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عہدے کے لیے Misfitلوگوں کی تعیناتی نے ہمیں بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔ تازہ مثال ابھی ابھی ختم ہونے والا دور حکومت ہے جس سے سبق حاصل کرنے کا نئی حکومت نے عزم تو ظاہر کیا ہے مگر ابھی عملی اقدام سامنے نہیں آئے۔ جو کابینہ سامنے آئی ہے وہ تو زیادہ تر پرانے ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کو کارکردگی دکھانے کے مواقع پہلے بھی مل چکے ہیں مگر کوئی قابل ذکر ریکارڈ قوم کے سامنے نہیں ہے۔ خیرسیاسی لوگوں کا ذکر تو ہوتا رہتا ہے آج کچھ ذکر سرکاری افسروں کا۔ Misfitسرکاری افسر کس طرح ملکی اداروں کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں اس کو واضح کرنے کے لیے کہ آپ اپنے قومی ادارے ریڈیوپاکستان کی مثال لے لیجیے۔ قیام پاکستان کے بعد اس ادارے کی باگ ڈور ذوالفقار علی بخاری جیسی شخصیت نے سنبھالی۔ موصوف ایک دانشوربھی تھے شاعر بھی، براڈکاسٹر یعنی نشرکار بھی اور پھر اپنے ہی انداز کے ایک منتظم بھی تھے۔ جس طریقے سے انہوں نے ریڈیو پاکستان کو ایک قومی ادارے کے طورپر چلایا ۔ اس پر اگرچہ ان کے کچھ ہم عصروں نے تنقید بھی کی مگر اکثر لوگ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کے اس نشریاتی ادارے کی اکثر روایات کا سہرا بخاری صاحب کے سر ہے اور انہوں نے ریڈیو پاکستان کو ایک باوقار ادارہ بنادیا تھا۔ بخاری صاحب کے بعد رشید احمد صاحب ریڈیوپاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تعینات کیے گئے۔ رشید صاحب بھی انتہائی پڑھے لکھے شخص ہونے کے ساتھ ساتھ نشریات کی اونچ نیچ سے کلی طورپر واقف تھے اور کمال کے منتظم تھے۔ وہ ریڈیو میں کمرشل اشتہار چلانے کے خلاف تھے لیکن حکام بالا کے ریڈیو میں کمرشل سروس شروع کرنے کے حکم کے بعد ریڈیو پاکستان کے ایک انتہائی قابل افسر شمس الدین بٹ کو اس کام پر مامور کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود تو اس کے حق میں نہیں تھے لیکن اب چونکہ فیصلہ ہوچکا ہے اس لیے پوری محنت اور دیانتداری سے کمرشل سروس چلائی جائے۔ رشید صاحب کے بعد ظہور آذر ریڈیو کے ڈی جی بنے۔ ظہور آذر پروڈیوسر رہ چکے تھے اور بعدازاں CSSکا امتحان دے کر سول سروس میں آئے تھے لہٰذا انہوں نے بھی پیشہ ورانہ انداز میں اس ادارے کو چلایا۔ پھر کیا تھا جناب، سی ایس پی افسروں کی پوسٹنگ شروع ہوگئی اور ریڈیو پاکستان کے ڈی جی ہوئے سید منیر حسین، ان کی قابلیت میں کسی کو شک نہیں لیکن موصوف نشریات کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے۔ پھر یحییٰ خاں کا زمانہ آیا تو اس زمانے میں مشرقی پاکستان کو بہت شکایت تھی کہ بنگالی افسروں کی حکومت پاکستان میں پزیرائی نہیں ہوتی لہٰذا مفیض الرحمن نامی ایک بنگالی کو تعینات کردیا گیا۔ وہ تمام وقت یہی کرتے رہے کہ ریڈیو پاکستان میں بنگالی افسروں کی تعداد، مشرقی پاکستان کی آبادی کے تناسب کے مطابق ہوجائے۔ 1971ء کا سانحہ ہوا۔ بھٹو صاحب کی حکومت آگئی۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا منیجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر کو تعینات کیا جوکہ بہت احسن فیصلہ تھا ۔ اسلم اظہر نے PTVکی تقدیر بدل کے رکھ دی لیکن ہوا یہ کہ PTVمیں اسلم اظہر سے سینئر ایک افسر موجود تھے جن کا نام تھا خواجہ شاہد حسین جو اسلم اظہر کے ماتحت کام نہیں کرسکتے تھے لہٰذا اس صورت حال کا حل یہ نکالا گیا کہ خواجہ شاہد حسین کو ریڈیو کا DGلگادیا گیا۔ ایک معروف سی ایس پی افسر اجلال حیدر زیدی بھی دومرتبہ ریڈیو کے DGرہے مگر وہ پروفیشنل سطح پر اس ادارے کی کوئی خدمت نہ کرسکے۔ تنخواہیں وغیرہ البتہ انہوں نے کافی بڑھائیں اور بہت ہردلعزیز افسر تھے۔ اب جتنا عرصہ ریڈیو پاکستان کا محکمہ ایسے افسران کی نگرانی میں رہا جن کو براڈکاسٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور وہ محض انتظامی افسرتھے تو یہ کافی ثابت ہوا اس محکمے کے زوال پذیر ہوجانے کے لیے۔ بعدازاں قاضی احمد سعید ڈی جی بنے جو کہ براڈکاسٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے ان کے بعد کے جی مرتضیٰ ڈی جی تعینات ہوئے جو ریڈیو نیوز کے ماہر تھے اور پھر معروف براڈکاسٹر سلیم گیلانی بھی ریڈیو کے ڈی جی رہے مگر یہ محکمہ سنبھل نہ سکا ۔ گیلانی صاحب نے ایک نیا نشریاتی نظام جس کو ساعتی نظام کہا جاتا تھا ریڈیو پر نافذ کیا مگر کچھ نہ بن سکا ۔ PTVکے منیجنگ ڈائریکٹر آغا ناصر بھی ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل رہے مگر ریڈیو پاکستان کو ایسا کوئی رہنما نہ مل سکا جو اس کا کھویا ہوا وقار بحال کراسکے۔ انور محمود ریڈیو کے سربراہ رہے مگر وہ بھی انفارمیشن سروس کے افسرتھے۔حال ہی میں ہمارے دوست مرتضیٰ سولنگی کئی برس ریڈیو کے ڈی جی کے طورپر اس ادارے میں اصلاحات کرتے رہے ہیں مگر ان کی بھی وہی مجبوری رہی کہ مالی وسائل بہت محدود ہیں اور حکومت جورقوم فراہم کرتی ہے اس سے بمشکل تمام تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی ہوپاتی ہے۔ موصوف نے کافی محنت کی مگر ریڈیو کی مجموعی صورتحال نہ بدل سکی۔ اب ریڈیو کا کیا مستقبل ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس ادارے کو اب اگر کوئی سنبھال سکتا ہے تو وہ غیرمعمولی صلاحیتوں والا ایسا شخص ہوگا جس کا وژن بھی ہوگا اور جس کو حکومت وقت کی غیرمشروط سپورٹ بھی حاصل ہوگی۔ دنیا بھر میں اگر نشریات کا جائزہ لیا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں میں ریڈیو اب بھی ایک اہم میڈیم کے طورپر موجود ہے میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا بس اتنا سمجھ لیں کہ آج بھی ریڈیو کے حصے میں اشتہاروں کی اچھی خاصی آمدنی آتی ہے۔ جس طرح ریڈیو کے آنے سے اخبارات بند نہیں ہوئے اسی طرح TVکے آنے سے ریڈیو سٹیشن بند نہیں ہوئے ہیں۔ ریڈیو دنیا بھر میں آب وتاب سے قائم ہے۔ ہمارا ملک تو غریب ملک ہے اور اب بھی دور دراز علاقوں میں ریڈیو بہت سنا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایف ایم نشریات نے انقلاب بپا کررکھا ہے۔ اب موبائل ٹیلی فون سیٹس میں ایف ایم ریڈیو کی سہولت نے اور بھی امکانات پیدا کردیئے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے ہاں ریڈیو کے محکمے کی مکمل تشکیل نوکی ضرورت ہے جس میں شارٹ ویو کی نشریات سے چھٹکارا حاصل کرکے، میڈیم ویو کی نشریات کو محدود کرکے اور ایف ایم نیٹ ورکنگ کو وسعت دے کر آج کے دور کے چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش شروع ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد انٹرنیٹ کا استعمال ہے پھر ریڈیو کے پاس آواز کا سب سے بڑا خزانہ ہے بہت کچھ ہوسکتا ہے اگر اس ادارے کو صحیح معنوں میں کوئی لیڈر میسر آجائے۔ اگر موجودہ حکومت نے اس ادارے پر ماضی کی طرح کوئی Misfitمسلط کردیا تو پھر انجام کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ تنزلی کی طرف مائل یہ ادارہ اور بھی گہرائی میں چلا جائے گا۔