ویسے تو لہو ولعب کی یہ دنیا مکرو فریب سے بھری پڑی ہے مگر اس میں بھی بعض لوگوں پر کچھ ایسا خاص کرم ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی آلائش سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتے ہیں ۔ایسی شخصیتوں سے جب میل جول ہوتا ہے تو ظاہر ہے اچھا تو محسوس ہوتا ہے مگر ان کی عظمت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ آپ سے دور ہو جائیں یا دنیا ہی سے رخصت ہو جائیں۔ایسے لوگ جب چلے جاتے ہیں تو اپنے پیچھے ایک خوبصورت سا احساس چھوڑ جاتے ہیں جو ہمیشہ ان کی یاد کے ساتھ ہی اجاگر ہو جاتا ہے۔آج کے دور میں سیاست کے میدان میں جو مکرو فریب پھیلا ہوا ہے‘ جب اس کی تلخی بڑھتی ہے تو میں ماضی میں ان لوگوں کی یاد میں گم ہو جاتا ہوں جنہوں نے اسی سیاسی ماحول میں ایسی پاک صاف زندگی گزاری کہ اب ان کی یادیں گلوں کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مجھے سب سے زیادہ کے ایچ خورشید یاد آتے ہیں۔
قائد اعظم کے سیکرٹری رہ چکے تھے‘ آزاد کشمیر کے صدر رہ چکے تھے‘محترمہ فاطمہ جناح کے سیکرٹری رہ چکے تھے‘کشمیریوں کے بھی ایک منفرد اور قابل احترام رہنما تھے لیکن میں 1972ء میں جب پہلی مرتبہ ان سے ملا‘ملا کیا ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایسی محبت سے ملے کہ میں دنگ رہ گیا۔ریڈیو پروڈیوسر کے طور پر مجھے اہم لوگوں سے ملاقات کرنے کا وسیع تجربہ تھا۔ اسی وجہ سے مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس وی آئی پی کی گفتگو میں بناوٹ ہے‘ کس کی گفتگو میں تکبر چھپا ہوا ہے اور کون عام انسان کے طور پر بات کر رہا ہے۔مگر خورشید صاحب کا تو معاملہ اور تھا۔میں جو درخواست لے کر گیا تھا وہ تو انہوں نے نہ مالی مگر جس انداز سے انہوں نے معذرت کی‘ اس معذرت پر میں کئی منافق قسم کے وی آئی پیز کا اظہار قبولیت قربان کر سکتا تھا۔
قصہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر ریڈیو کی سالگرہ تھی۔ اس ریڈیو سٹیشن کے ایک اہم عہدیدار سعید نقشبندی صاحب تھے۔میرے انتہائی عزیز دوست تھے اور ان کی خورشید صاحب سے بھی نیاز مندی تھی کیونکہ دونوں کا تعلق سری نگر سے تھا۔نقشبندی صاحب نے مجھے کہا کہ آزاد کشمیر ریڈیو کی سالگرہ پر وہ چاہتے ہیں کہ خورشید صاحب کا پیغام میں ریکارڈ کر کے ان کو بھیج دوں۔یہ درخواست لے کر میں خورشید صاحب کے پاس گیا تھا۔
معلوم یہ ہوا کہ جب خورشید صاحب محترمہ فاطمہ جناح کے سیکرٹری تھے تو قائد اعظم کی برسی کے موقع پر محترمہ نے ریڈیو پاکستان کے لیے اپنا پیغام ریکارڈ کروایا جس میں چند جملے ایسے تھے جو اس وقت کی حکومت پر تنقید باور کیے جا چکے تھے۔ریڈیو کے ارباب اختیار نے درخواست کی کہ یہ جملے حذف کر دیے جائیں مگر محترمہ فاطمہ جناح نے انکار کر دیا؛ تاہم جب محترمہ کا پیغام نشر ہوا تو وہ تنقیدی جملے اس میں سے حذف کر دیے گئے تھے ۔یہ سنسر کس نے کیا۔کس کے کہنے پر ہوا۔اس کے بارے میں کوئی اس دور کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری کا مورد الزام ٹھہراتا ہے۔کوئی اس دور کی وزارت اطلاعات کو دوش دیتا ہے۔بہرحال نتیجہ یہ ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے اور خورشید صاحب نے بھی اسی روز ریڈیو پاکستان کا بائیکاٹ کر دیا۔
میں نے تمام صورتحال سعید نقشبندی صاحب کے گوش گزار کر دی۔انہوں نے دلیل یہ پیش کی کہ بائیکاٹ ریڈیو پاکستان کا ہے۔پیغام تو ہمیں آزاد کشمیر ریڈیو کے لیے چاہیے۔اس دلیل کے ساتھ میں دوبارہ خورشید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو سن کر ہنسنے لگے ۔بولے: میں سعید کو جانتا ہوں‘ مجھے پتہ تھا وہ یہی دلیل دے گا۔مجھے کہنے لگے: تم بتائو اس دلیل میں وزن ہے؟میں نے کہا: اگرچہ آزاد کشمیر ریڈیو کا سارا انتظام ریڈیو پاکستان کا ہے مگر نشریات کے لحاظ سے آزاد کشمیر ریڈیو کی شناخت جدا ہے اور آپ نے بائیکاٹ ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ کا نہیں کیا ہوا بلکہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کا کیا ہوا ہے لہٰذا مجھے تو دلیل وزنی معلوم ہوتی ہے۔ہاں آپ اب پیغام ریکارڈ کروائیں اگر اس کا کوئی حصہ سنسر ہو جائے تو پھر آپ کا ادھر بھی بائیکاٹ حق بجانب ہو گا۔تحمل سے میری بات سن کربولے: اچھا بھائی چلو پھر کر لو ریکارڈ۔
اس کے بعد ہر سال میں ان کا پیغام ریکارڈ کر کے آزاد کشمیر ریڈیو بھجواتا تھا اور اس دوران میں ان سے چھوٹی چھوٹی جو ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ آج مجھے انتہائی اہم معلوم ہوتی ہیں۔پھر ان کی شخصیت کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا اس وقت موقع ملا جب ان کا طویل دورانیے کا ایک انٹرویو میں نے ریکارڈ کیا۔
ہوا یوں کہ معروف شاعر راز مراد آبادی جب واہ فیکٹری کے پی آر او کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو ریڈیو والوں نے ان سے طویل دورانیے کے وہ انٹرویو ریکارڈ کرنے کا کہا جس سلسلے کا نام Interviews for historyتھا۔ایسے انٹرویو اس وقت بھی سینکڑوں کی تعداد میں ریڈیو کی مرکزی لائبریریوں میں موجود ہیں۔اس سیریز میں جس شخصیت کا انٹرویو ہوتا اس کو بتا دیا جاتا کہ یہ موصوف کی زندگی میں نشر نہ ہو گابلکہ یہ اس غرض سے کیا جا رہا ہے کہ سچائی کے ساتھ تاریخ محفوظ ہو جائے۔راز مراد آبادی اس سیریز میں خورشید صاحب کا انٹرویو کرنے لاہور آئے۔خورشید صاحب سے تعلق کے سبب ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر نے مجھے راز مراد آباد صاحب کے ساتھ نتھی کر دیا۔میں نے راز صاحب کو بتایا کہ خورشید صاحب نے تو بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔وہ بولے‘ چلو چل کے خورشید سے بات کرتے ہیں۔ فون پر ان سے وقت لیا۔جب ہم پہنچے تو خورشید صاحب نے راز صاحب کے لیے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ہم لوگوں نے کھانا کھایا اور پھر گفتگو ہوئی تو راز صاحب نے کہا کہ خورشید یہ انٹرویو ریڈیو پاکستان کے لیے نہیں ہے یہ Historyکے لئے ہے۔کنٹریکٹ میں ہے کہ یہ تمہاری زندگی میں نشر نہیں ہو گا۔خورشید صاحب نے کنٹریکٹ بغور پڑھا اور پھر کہنے لگے ٹھیک ہے۔اس کے بعد میں نے ٹیپ ریکارڈر آن کیا اورمائیکرو فون راز صاحب کو دے دیا۔ راز صاحب نے ایک طویل سوال کر کے مائیک خورشید کے آگے کر دیا اور خورشید صاحب بولنے لگے۔
یہ انٹرویو کیا تھا۔خورشید صاحب نے اپنی زندگی مختصراً بیان کر دی تھی۔اپنے طالب علمی کے زمانے سے شروع ہوئے۔قائد اعظم سے ملاقاتوں کا ذکر اور پھر یہ تفصیل کہ کس طرح وہ قائد کے سیکرٹری ہوئے۔اسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ قائد کی بیٹی دینا نے جب پارسی شخص سے شادی کر لی تھی تو قائد اعظم نے اس کے بعد اپنی بیٹی سے میل جول بند نہیں کیا تھا بلکہ وہ ملنے آتی تھی اور فاطمہ جناح کے ساتھ ساتھ دینا کو بھی قائد کے بیڈ روم میں جانے کی اجازت تھی۔یہ کوئی دو گھنٹے کا انٹرویو ہے۔ جب ختم ہوا تو مجھے ایسا لگا کہ ابھی اور چلنا چاہیے تھا۔واقعتاً سچی باتوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے ۔وگرنہ مجھے یاد ہے کہ بعض شرفاء کی پانچ منٹ کی گفتگو ریکارڈ کرنا بھی بوجھل محسوس ہوتا تھا۔
اس کے بعد ایک مرتبہ لاہور امریکن سنٹر میں ایک پروگرام ہوا جو جارج واشنگٹن اور قائد اعظم کے بارے میں تھا۔عنوان تھا Fathers of their Nations اس پروگرام میں ایک امریکی پروفیسر اور خورشید صاحب مقررین تھے۔خورشید صاحب انگریزی بھی کمال کی بولتے تھے۔انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں ایسی موثر تقریر کی کہ وہاں میرے ساتھ بیٹھے ایک امریکی نے کہا What a great leader you people hadسچی بات ہے میں نے خود بھی زندگی میں کبھی قائد اعظم کے بارے میں اتنی پُراثر تقریر نہیں سنی تھی۔
میرا خورشید صاحب سے بہت ہی معمولی تعلق تھا لیکن وہ کسی شاعر کا مصرع ہے نہ ''ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو‘‘ یہ مصرع خورشید صاحب کی پرخلوص ‘بااصول اور محبت بھری باتوں پر سو فیصد صادق آتا ہے۔اس کردار کا ایک بھی شخص مجھے آج کی سیاست میں دکھائی نہیں دیتا۔