اسرائیل کا غزہ کے مکینوں کے خلاف 50دنوں تک کس قدر خونخوار طرز عمل رہا ۔ اتنا گولہ بارود برسایا کہ اسرائیل کے کئی حمایتی بھی چیخ اٹھے۔ عورتوں اور بچوں سمیت لاشوں کے انبار لگادیے گئے اور ایسی گنجان آبادی پر بم برسائے گئے اور توپ کے گولے پھینکے گئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غزہ اس قدر گنجان آبادی ہے کہ ایک پتھر بھی اگر اس آبادی میں پھینکا جائے تو وہ ضرور وہاں کے کسی نہ کسی رہائشی کو ہی جاکر لگے گا۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ہم وطنوں کو جب یہ بتایا کہ انہوں نے اس پچاس روزہ جنگ میں فتح حاصل کرلی ہے تو اسرائیلی عوام نے فتح کے کوئی شادیانے نہ بجائے ۔ اسرائیل ہی کے ایک اخبار کے سروے کے مطابق 54فیصد اسرائیلیوں نے بنجمن نیتن یاہو کا یہ دعویٰ کہ وہ حماس کے خلاف جنگ جیت گئے ہیں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ دنیا بھر کے ذی شعور لوگوں کی نظر میں اسرائیل تو اس وقت ہی ہار گیا تھا جب اس نے غزہ کے خلاف اپنی بزدلانہ کارروائی کو جنگ کہنا شروع کیا تھا۔ ہر کوئی حیرت میں تھا کہ ایک مختصر سے رقبے میں محصور افراد پر اندھا دھند گولہ بارود برساکر ہلاکتیں کیے جانا کس طرح ایک جنگ قرار دیاجاسکتا ہے۔
اسرائیل نے ان پچاس دنوں کے دوران پر زور انداز میں پروپیگنڈہ جاری رکھا کہ اس جنگ میں اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہورہے ہیں۔ حماس کے جانثاروں نے خود جان پر کھیلتے ہوئے جوپچاس کے قریب اسرائیلی فوجی ہلاک کیے وہ ایسا ہی تھا کہ جیسے کسی بہت بڑی جیل میں قید افراد پر ایک منظم فوج جس کو سرمائے اور گولہ بارود کی فراہمی کا ذمہ ایک سپر پاور نے لیا ہو، پوری طاقت کے ساتھ حملہ کردے اور جس وقت وہ بے دریغ قتل عام کررہی ہو تو کچھ فوجی قیدیوں کے ہاتھوں بھی مارے جائیں۔
امریکہ نے جس انداز میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کی وہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ امریکی کانگرس کی شان سے کون واقف نہیں ہے۔ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کا قانون ساز ادارہ ہے اور اس کے ایوان نمائندگان اور سینٹ اتنے طاقتور ہیں کہ اکثریتی رائے سے امریکی صدر کو کسی بھی مسئلے پر پابند کردیتے ہیں۔ اس شاندار ادارے کو شاذو نادر ہی کسی غیر ملک کے لیڈر کو خطاب کرنے کا موقع دیاجاتا ہے اور جب کسی ملک کے سربراہ کو ایسی پیشکش ہو تو وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ ہفتوں کانگرس کے سامنے اپنی تقریر کی مشق کرتا رہتا ہے اور جب خطاب کا دن آتا ہے تو کانگرس کے ارکان مہمان مقرر کی تقریر کے ان حصوں پر تالیاں بجاکر داد دیتے ہیں جن میں امریکی پالیسیوں کی حمایت دکھائی دے ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی غیر ملک کا سربراہ کانگرس سے خطاب کرے اور کسی مقام پر کانگرس کے اراکین اس قدر خوش ہوں کہ وہ کھڑے ہوکر اس سربراہ کو داد دیں۔ اس کو انگریزی میں Standing Ovationکہتے ہیں۔ امریکی کانگرس اپنے وقار کا ہمیشہ اسی طرح خیال رکھتی دکھائی دے گی تاوقتیکہ اس کو خطاب کرنے اسرائیل کا وزیراعظم نہ آجائے۔
میں نے خود ٹیلی وژن کی براہ راست نشریات میں یہ تماشہ دیکھ رکھا ہے کہ جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکی کانگرس سے خطاب کررہے تھے تو یہی باوقار امریکی کانگرس اور اس کے معزز ارکان اسرائیلی وزیراعظم کے ہر دوسرے تیسرے جملے پر کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے اور بیٹھ جاتے۔ پھر تقریر شروع ہوتی اور پھر چند جملوں بعد Standing Ovation۔ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پتلیوں کا تماشہ ہورہا ہے۔تماشہ کرنے والا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو تھا اور پتلیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے وقفوں کے بعد کانگرس کے معزز اراکین کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے اور بیٹھ جاتے۔
لہٰذا امریکہ سے اس بارے میں گلہ کرنا بالکل فضول ہے۔ جس ملک کا باوقار قانون ساز ادارہ اسرائیلی وزیراعظم کے سامنے ایک چابی دیے ہوئے کھلونے کی طرح ہو، اس ملک سے کم از کم اسرائیل کے مظالم کے حوالے سے کسی منصفانہ ردعمل کی توقع نہیں ہوسکتی۔ رہ گئی باقی مغربی دنیا۔ وہ بھی اسرائیل سے دب کر ہی چلتی ہے۔ برطانیہ میں ایک پاکستانی نژاد خاتون وزیر ہی یہ حوصلہ کرسکی کہ اپنے ملک کی اسرائیل نواز پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوجائے۔
آب آئیے اپنے مسلمان ملکوں کی طرف۔سبحان اللہ ۔ یعنی غزہ کا علاقہ فلسطین کا حصہ ہے اور فلسطین مشرق وسطیٰ میں واقع ہے جہاں ادھر ادھر ہر طرف مسلمان ملک ہیں۔ ان پچاس دنوں کے دوران میں جب غزہ کے رہنے والے اسرائیل کا ظلم برداشت کررہے تھے تو ساتھ ہی وہ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا یہ ظلم بھی برداشت کررہے تھے جو بے حسی کے اظہار کے شکل میں ظاہر ہورہا تھا۔
میڈیا اسرائیل کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ مجھے یقین ہے اس وقت اسرائیل کے پراپیگنڈا ماہرین سرجوڑ کر بیٹھے ہوں گے کہ کیسے مغربی میڈیا کو دوبارہ اس خول میں بند کردیاجائے جس میں وہ کئی عشروں سے بند تھا۔مغربی دنیا کو اسرائیل نے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ امریکہ کی جو حالت ہے وہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی کمزوریوں سے بھی اسرائیل فائدہ اٹھانا سیکھ چکا ہے لیکن اس قدر کامیابیوں کے باوجود مصنوعی طور پر قائم اس ملک کا خوف ختم نہیں ہوتا کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے اور اس کا وجود ہی ختم ہوجائے۔
پچاس دنوں کی اس قدر زور دار بمباری اور گولہ باری کے بعد غزہ کے لوگ اپنی تعمیر نو میں لگے ہیں۔ محدود وسائل ہیں مگر اللہ کے بھروسے اپنی زندگی بے فکری سے گزار رہے ہیں جبکہ فتح کے دعویدار بنجمن نیتن یاہو کے ملک کے عوام فوجیوں کے پہرے میں میزائلوں کی چھتری میں اور مضبوط گھروں کے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں ہر وقت خوف میں گھرے دکھائی دیتے ہیں ۔ اپنے وزیراعظم کی اعلان کردہ فتح کو فتح ماننے کو تیار نہیں ہیں۔