"ARC" (space) message & send to 7575

بھارت کی اقتصادی ترقی اور ہماری جمہوریت

بھارت مغربی ممالک کی آنکھ کا تارا بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں مگر میری نظر میں سب سے اہم وجہ بھارت میں ہونے والی اقتصادی ترقی ہے جس نے اس ملک کی اہمیت میں کافی اضافہ کردیا ہے۔ بھارت کی معیشت کے بڑھتے ہوئے سائز کی وجہ سے مغربی دنیا‘ بے پناہ مسائل کے شکار اس ملک کی خامیوں کو باآسانی نظرانداز کردیتی ہے۔ بھارت میں جو سرمایہ پیدا ہو رہا ہے وہ مغربی ممالک کا مرکزِ نگاہ ہے۔ بھارت میں حکمران بھی اپنی اس طاقت سے آگاہ ہیں‘ لہٰذا انہوں نے دنیا بھر میں پبلک ریلیشننگ کی ایک پُرزور مہم چلا رکھی ہے‘ جس کے اثرات مغربی دنیا کے عالمی میڈیا میں واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں بھارت میں سب اچھا ہی اچھا دکھایا جاتا ہے۔ 
بھارت کے اپنے اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق 2009ء سے 2013ء کے دوران میں پانچ صوبوں میں ہر برس اوسطاً 706 ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ہمارا میڈیا ان کو مسلم کش فسادات لکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کہنے کو ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں مگر ان میں مرنے اور زخمی ہونے والے اکثر مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ ایک سال میں 706 فسادات کا مطلب یہ ہے کہ روزانہ دو ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اعدادو شمار خود بھارت کے اپنے اداروں کے ہیں۔ 
مغربی ممالک کی ملکیت عالمی میڈیا پر آپ نے کبھی ان فسادات کا ذکر سنا؟ بالکل نہیں۔ خود بھارت کے اندر بھی اگر کوئی بہت بڑا واقعہ ہو جائے تو میڈیا میں اس کی خبر آتی ہے‘ وگرنہ اکثر واقعات کو‘ معمول کے واقعات سمجھ کر بالکل نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ 
ہمارے جو پاکستانی بھائی‘ بھارت میں اپنے رشتے داروں سے مل کر آتے ہیں‘ ان سے پوچھیں تو معلوم ہوگا کہ بھارت میں ہندو مسلم فسادات کے جن واقعات کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے‘ ان کے دوران میں وہاں مقیم مسلمانوں پر کیا گزرتی ہے۔ خوف کا ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جو برسوں قائم رہتا ہے۔ 
ہندوستان ٹائمز کی ویب سائٹ نے گزشتہ دنوں اس حوالے سے جو اعدادو شمار شائع کیے تھے‘ ان کے مطابق 2009ء اور 2013ء کے درمیان اترپردیش‘ مہاراشٹر‘ مدھیہ پردیش‘ کرناٹک اور گجرات میں 2389 ہندو مسلم فسادات ہوئے‘ جن میں 569 افراد ہلاک اور 6897 زخمی ہوئے؛ تاہم اس ویب سائٹ نے یہ تفصیل شائع نہیں کی کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں کتنے ہندو تھے اور کتنے مسلمان۔ بہانہ ان کے پاس یہ ہے کہ ہم سیکولر ملک ہیں۔ یہ کیسا سیکولر ملک ہے‘ جہاں ہندو مسلم فسادات میں مارے صرف مسلمان ہی جاتے ہیں اور پھر اس کی تفصیل بھی چھپا لی جاتی ہے۔ 
کشمیر کے علاوہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں جو بغاوتیں پھیلی ہوئی ہیں‘ اُن کا ذکر بھی مغربی دنیا کے نام نہاد آزاد میڈیا میں کم ہی سنائی دیتا ہے‘ حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجی ان بغاوتوں کو کچلنے میں ہر دم مصروف رہتے ہیں مگر یہ بغاوتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ نکسل باڑی تحریک تو کئی ریاستوں میں پھیل چکی ہے اور بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے اس بغاوت کو بھارت کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ 
بھارت میں جتنے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ کسانوں کی خودکشیوں کی خبریں بھی دن رات ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے جو عام حالات میں مغربی میڈیا کی رپورٹوں میں آ جائے تو کوئی بھارت کی طرف رخ بھی نہ کرے مگر کیا کریں‘ میڈیا کے مالکان کو بھارت کی وسعت پذیر معیشت دکھائی دیتی ہے تو وہ سب کچھ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری صورتحال یہ ہے کہ کوئی معمولی سی خرابی بھی منظر عام پر آ جائے تو پہلے تو ہم خود ہی اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر چلانے لگتے ہیں‘ پھر مغربی میڈیا اپنی رپورٹوں میں اس خرابی کا وہ ڈھول پیٹتا ہے کہ ہم شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں۔ 
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری معیشت میں جان نہیں اور یہ اس قدر کمزور ہے کہ اس کو لالچ بھری نظروں سے دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ہمارے ہاں ہر کوئی کہتا ہے کہ ہمیں اقتصادی ترقی کرنا چاہیے مگر کوئی عملی قدم دکھائی نہیں دیتا۔ اب صورت یہ ہو گئی ہے کہ ہمارے ہاں عوام عمومی طور پر ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار رہنے لگے ہیں اور کسی بھی قوم کے لیے یہ بات بہت خطرناک ہوتی ہے۔ ہمیں فوری طور پر اس صورتحال سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی ماضی کی تاریخ دیکھیں تو ہمارے ہاں اچھی حکمرانی محض اس وقفے میں ہو سکی‘ جب حکمران سخت گیر تھے اور انہوں نے جرائم اور بدعنوانی کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی۔ 
ایوب خان کا دور تو بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا مگر جنرل پرویز مشرف کی بطور چیف ایگزیکٹو پہلے دو برس کی حکمرانی تو اکثر لوگوں کو یاد ہوگی۔ جنرل صاحب نے ایسا ڈنڈا چلایا تھا کہ سب سیدھے ہو گئے تھے۔ میری نظر میں یہ موصوف کے دو برسوں کی مضبوط حکمرانی کا پھل تھا جو بعدازاں سیاستدان بھی کھاتے رہے۔ کاش جنرل مشرف ان سیاستدانوں سے ہاتھ نہ ملاتے اور ابتدائی طرز حکمرانی کو جاری رکھتے تو آج پاکستان کی حیثیت بھی قابل توجہ ہوتی اور آج ہماری خامیاں بھی نظرانداز ہو رہی ہوتیں۔ 
اب ہم نے جمہوریت پر تکیہ کیا ہوا ہے‘ جس کو ہمارے ہاں جمہوریت کہا جاتا ہے‘ وہ ایک ایسے طرزِ حکومت کے طور پر سامنے آیا ہے جس میں احتساب برائے نام بھی نہیں ہے۔ پانچ برس جن لوگوں نے اس ملک کو نوچ نوچ کر کھایا‘ وہ قوم کو جمہوریت کا درس دے رہے ہیں اور ڈیڑھ برس قبل آنے والی نئی حکومت‘ جمہوریت کے نام پر ملک کو مقروض کرنے میں مصروف ہے۔ 
عمران خان اور طاہرالقادری میدان میں نکلے تو شور بہت ہوا مگر کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ دونوں کے ساتھ کارکن تو پُرخلوص ہیں مگر لیڈروں نے اپنے اردگرد ایسے لوگ جمع کیے ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے۔ قادری صاحب کی تو کوئی بات نہیں۔ وہ تو اپنی مثال آپ ہیں مگر عمران خان سے اس ملک میں بہت سے لوگوں نے امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ ہمارے نوجوانوں کی خاصی تعداد ان کا ساتھ دے رہی ہے مگر ان کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہوئے وہ لوگ... ابھی بے نظیر کے جلوس کی فلم ٹی وی پر چل رہی تھی تو وہاں شاہ محمود قریشی اپنے اسی اسٹائل کے ساتھ محترمہ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔ شیخ رشید صاحب کا ماضی؟ مسلم لیگ ن‘ پھر ق‘ پھر مشرف کی تعریفیں۔ اسی طرح محترم جہانگیر ترین؟ عمران خان خود بھی بوکھلائے بوکھلائے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک مدت امپائر کا تذکرہ معنی خیز انداز میں کرتے رہے ا ور اب کہا کہ امپائر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور انہیں یہ بھی توقع ہے کہ لوگ اسی پر یقین کریں گے۔ سبحان اللہ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں