ہے کوئی خرابی جو ہم نے کوٹ کوٹ کر اپنی قومی کرکٹ میں نہیں بھردی۔ اس کے بعد جب خرابیاں اپنا اثر دکھا رہی ہیں تو ہمارے ہاں بعض جذباتی محب وطن پاکستانی اپنے ٹی وی سیٹ توڑ رہے ہیں۔ ان معصوموں کو اپنی ٹیم کے جیتنے کی توقع محض اللہ کے سہارے تھی۔ یعنی پتہ تو ان کو بھی تھا کہ ٹیم میں کسی طور بھی کوئی دم نہیں ہے لیکن ایسی باتوں کا سہارا تھا کہ ہو سکتا ہے کوئی معجزہ ہو جائے۔ یونس خان فارم میں آ جائے۔ آفریدی عقل سے کام لینا شروع کردے۔ کرکٹ ٹیم مصباح الحق کی قیادت میں سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ کھلاڑیوں کی گروپ بندی کی باتیں محض افواہیں ثابت ہوں۔
ہمارے سادہ لوح عوام ہمیشہ یہ بھولے رہتے ہیں کہ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔
کرکٹ کے ضمن میں جو واقعات پیش آتے رہے ہیں اورآ رہے ہیں کیا ان سے شبہ بھی پڑتا ہے کہ ہم اپنی مدد آپ کر رہے ہیں۔ اوپر سے شروع کرتے ہیں۔ صدر پاکستان اپنے منصب کے لحاظ سے کرکٹ بورڈ کے سرپرست ہوتے تھے۔ اس انتظام میں تبدیلی کی گئی اور اب وزیراعظم میاں نواز شریف کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ ان کی کرکٹ کے کھیل میں دلچسپی ضرور رہی ہے اور خود بھی کھیلتے رہے ہیں۔ مگر ان کا ملکی کرکٹ یا سرپرست اعلیٰ بن جانا کیا اپنی مدد آپ کے مترادف باور کیا جا سکتا ہے۔ کرکٹ میں اتنی دلچسپی رکھنے والا شخص جتنی کہ میاں نواز شریف کو ہے، اپنی پسند اور ناپسند کا اسیر ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی ہستی کا سرپرست اعلیٰ بن جانا کرکٹ کیلئے مثبت پیش رفت نہیں گنی جا سکتی۔
اس کے بعد آپ یاد کریں کہ سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور معروف صحافی نجم سیٹھی صاحب کا بورڈ کا چیئرمین بننا اور اس کے بعد عدلیہ کے احکامات اور پھر میوزیکل چیئر، آج چیئرمین ذکاء اشرف ہیں کل پھر نجم سیٹھی صاحب ہیں۔
کیا اس صورتحال کو آپ اس زمرے میں لائیں گے کہ ہم اپنی مدد آپ کر رہے تھے۔
پھر شہریار خان پکے چیئرمین ہوگئے۔ بہت تجربہ کار سفارتکار تو ہیں مگر ماضی میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر کوئی مثالی کارکردگی تو پیش نہ کرسکتے تھے کہ پھر سے انتہائی عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کو کرکٹ بورڈ میں اس طرح بٹھا دیا جائے کہ اختیارات ماضی کی نسبت بھی کم ہوں۔ یہ بھی کوئی اپنی مدد تو نہ ہوئی۔
باقی کرکٹ بورڈ کے اندرجو صورتحال ہے وہ آئے دن اخبارات کے ذریعے تمام قوم تک پہنچتی رہتی ہے۔
میں نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب کرکٹ بورڈ کا نام بی سی سی پی ہوتا تھا یعنی بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان پاکستان۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے ایم اظہر چیئرمین ہوتے تھے، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل رفیع نسیم سیکرٹری اور غلام مصطفی خان آفس سیکرٹری یا ڈپٹی سیکرٹری ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ کلرک چپڑاسی وغیرہ اور گرائونڈ سٹاف۔ بس۔
بورڈ کے تحت سارے کام ہو جاتے تھے۔ اور آج کل کی نسبت خاصے بہتر انداز میں ہوتے تھے۔
اب پاکستان کرکٹ بورڈ میں جو ملازمین اورافسران کی افواج بھرتی ہیں ان کو سامنے رکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم کسی طور بھی اپنی مدد آپ کر رہے ہیں۔
ہماری ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف کا شمار ایسے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس دور میں بھی اپنے آپ کو پاک، صاف رکھا جب ہماری کرکٹ پر چاروں طرف سے بدعنوان عناصر کے حملے ہوتے تھے اور کافی حملے کامیاب بھی ہوئے۔ راشد لطیف کو جب بورڈ کی طرف سے عہدے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے تھوڑا سا قریب ہو کر حالات کا جائزہ لیا اور پھرپیچھے ہٹ گئے۔
شریف آدمی پیچھے اس وقت ہٹتا ہے جب دیکھتا ہے مسائل اس کی حیثیت سے زیادہ ہیں۔ بورڈ تو مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ کیاکرکٹ بورڈ کی اس ناگفتہ بہ صورتحال کا کھلاڑیوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟ ضرور ہوتا ہے جناب۔ ماضی میں ہم سوچ سکتے ہیں کہ کوئی کھلاڑی پریس کے ساتھ گفتگو کے ذریعے بورڈ کو نصیحت کرے۔ ہمارے بوم بوم صاحب نے باقاعدہ بورڈ سے کہا تھا کہ ورلڈ کپ قریب ہے بورڈ فیصلہ کرلے کہ کپتان کس کو بنانا ہے۔ موصوف کا واضح اشارہ تھا کہ مصباح کو اگر ہٹانا ہے تو کھل کر اعلان کر دیا جائے اور پھر ان کی کپتانی کا اعلان کرکے بورڈ اپنا فرض ادا کرے۔
بورڈ نے اگرچہ بوم بوم کی نصیحت پر عمل تو نہ کیا مگر ان کے بیان پر کوئی ایسی تادیبی کارروائی بھی نہ کی کہ آئندہ ایسے ناصحانہ بیانات دینے سے یہ کھلاڑی گریز کرے۔ جہاں تک تیاریوں کا تعلق ہے ہمارے کرکٹ ماہرین کی منصوبہ بندی کی معراج دیکھیں کہ ورلڈ کپ کیلئے تیار شدہ ٹیم میں آج کوئی آل رائونڈر ہی نہیں ہے۔ آپ آفریدی کو آل رائونڈر ماننا چاہتے ہیں تو مان لیں اور بھی ایک دو کھلاڑیوں پر انگلی رکھ لیں مگر جسے صحیح معنوں میں آل رائونڈر کہا جاتا ہے وہ ہماری ٹیم میں کوئی نہیں ہے۔
کھلاڑیوں کے مینجمنٹ کے ساتھ جو مثالی مراسم ہیں اس کا احوال بھی ہمارے ان پاکستانیوں کو معلوم ہے جنہوں نے ویسٹ انڈیز سے میچ ہارنے کے بعد ٹی وی سیٹ توڑے ہیں۔ وہ روز اخباروں میں پڑھتے ہیں اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔
ہمارے عوام کرکٹ کے امور میں بہت دلچسپی لیتے ہیں ۔یہ سوچنا کہ عام لوگ اس صورتحال سے غافل ہیں بالکل غلط بات ہوگی۔ لیکن مجھے لگتا ہے وہ بیچارے مجبور ہیں اگر اپنی قومی کرکٹ ٹیم سے اچھی توقعات نہ رکھیں تو اور کس ٹیم سے رکھیں۔ جس روز بھارت اور پاکستان کا میچ ہو رہا تھا تو سموسوں والی ایک دکان پر میں نے دیکھا کہ جو ملازم سموسے تل رہا ہے وہ ساتھ ہی کان پر موبائل فون رکھ کرزننگ کمنٹری بھی سن رہا ہے۔
میں نے ازراہ مذاق اس سے کہا کہ کیا ٹیم کی جیت پر پیسے تو نہیں لگائے ہوئے۔ تو وہ ہنسنے لگا۔ بولا نہیں جی جوأ تو حرام ہے۔ یہاں کافی لوگ لگاتے ہیں۔ خان صاحب سے پوچھ لیں میں تو ان سب کو بھی منع کرتا ہوں۔ خان صاحب وہ دکان کے مالک کو کہہ رہا تھا۔ میں نے کہا پھر آگ کی تپش میں سموسے تلنے کے ساتھ کمنٹری سننا مشکل نہیں لگتا۔ مشکل تو ہے مگر ٹیم بھی تو اپنی ہے۔ وہ بولا۔ میں نے اسے چھیڑنے کیلئے کہا کہ سب کہہ رہے ہیں کہ ہماری ٹیم کمزور ہے۔ تو اس کا جواب تھا آپ نے وہ گانا نہیں سنا
''ماڑا اے تے ماڑا سہی یار جو ہے‘‘
یہ تو حالت ہے ہمارے لوگوں کی۔ یعنی جانتے ہیں کہ ٹیم کمزور ہے پھر بھی معجزات کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ ورلڈکپ کے آج تک کسی بھی میچ میں ہم بھارت کو ہرا نہیں سکے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے گزشتہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میچ کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے ایک صحافی نے باقاعدہ اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ وہ میچ فکس تھا، یعنی نوراکشتی تھی۔
ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ بھارت کے بک میکر یعنی جوئے باز کرکٹ میچوں کے نتائج بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمارے کھلاڑی ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہے ہیں۔
ہمارے کرکٹ بورڈ کا حال یہ ہے کہ وہ اچھے کھلاڑیوں کی تلاش میں ایک سزا یافتہ کھلاڑی پر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید محمد عامر ہی اس ٹیم کا سہارا بن سکے۔ یہ سب باتیں اپنی مدد آپ کے مترادف نہیں ہیں۔ لہٰذا قدرت کی مدد تو مل نہیں سکتی۔ لیکن اس حب الوطنی کا کیا کریں کہ اب بھی ہمارے پاکستانی مجبور ہیں اور ٹیم کو دیکھ کر کہتے ہیں۔
''ماڑا اے تے ماڑا سہی یار جو ہے‘‘