"ARC" (space) message & send to 7575

چین کا طرز حکمرانی‘ ایک فائدہ مند ماڈل

تجربہ اگر انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے تو یہ قوموں کی بھی رہنمائی کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان جن مخصوص حالات سے دوچار ہے اور اندرون ملک اور بیرون ملک ہم کو جس نوعیت کے چینلجز کا سامنا ہے ،ان سب سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں جمہوریت کی طرف دیکھنے کے بجائے کسی ایسے ملک کی طرف دیکھنا چاہیے جس نے دنیا بھر میں ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو ہر لحاظ سے ہم جیسے ملکوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
میری نظرمیں یہ ملک عوامی جمہوریہ چین ہے۔اس ملک کی گزشتہ عشروں کی طرز حکمرانی کا جائزہ لیں تو عمومی طور پر دو باتیں واضح دکھائی دیں گی۔ چین نے بیرونی دنیا کے ساتھ ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں برداشت ہی برداشت ہے اور اندرون ملک اس کی پالیسی عدم برداشت یعنی 'Zero Tolerance‘کی ہے۔مغربی دنیا نے جمہوریت کے نام پر چین میں کیا کچھ نہیں کیا۔ اسّی کے عشرے میں تھیانن من چوک کے واقعات اس امر کی واضح گواہی دیتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین نے ملک کے اندر جمہوریت کے نام پر سازشوں کو کس سختی سے کچلا ہے۔ چینی لوگ جمہوریت کو مغربی دنیا کا ایک ایسا ہتھیار باور کرتے ہیں جس سے مغربی ممالک دنیا بھر میں اپنے سیاسی اور اقتصادی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔
سیاسی میدان میں ملک کے اندر چین کی اس حکمت عملی کے ساتھ ساتھ آپ کو وہاں بدعنوانی کے ضمن میں بھی بڑے سخت ہاتھ دکھائی دیں گے۔ انتظامی امور میں کرپشن پر بھی چین میں سرکاری سطح پر یکسر عدم برداشت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
اندرون ملک اس حکمت عملی کا عوامی جمہوریہ چین کو یہ پھل ملا ہے کہ اس وقت امریکہ جیسا ملک بھی اس کو للچائی نظروں سے دیکھتا ہے۔ دوسری طرف بیرون ملک چین نے اپنے آپ کو بین الاقوامی لڑائی جھگڑوں سے ایک معزز قسم کے فاصلے پر رکھا ہوا ہے۔ چین نے آج تک اپنے کسی موقف میں تبدیلی نہیں کی مگر محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اپنی فوجی تیاریوں کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا۔چین کے اپنے دفاعی انتظامات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ملک ہر دم دشمن کو دندان شکن جواب دینے کو تیار بیٹھا ہے مگر اس ملک کی وزارت خارجہ کبھی کوئی غیر ضروری دھمکیوں والے بیانات جاری کرکے اپنی اہمیت جتانے کی کوشش نہیں کرتی۔
جس کامیاب حکمت عملی سے چین نے ہانگ کانگ کو برطانیہ سے واپس لیا ہے اس کو تو نصاب کی کتابوں میں شامل کرنا چاہیے اور اب تائیوان کے بارے میں جس کو چین اپنا حصہ سمجھتا ہے، اس کی پالیسی ایسی ہے جس میں یہ سوال ہی موجود نہیں کہ چین تائیوان کے بارے میں کبھی اپنا اصولی موقف چھوڑ دے گا۔اسی طرح بہت سی اور مثالیں عوامی جمہوریہ چین کے اس انوکھے طرز حکمرانی کی دی جاسکتی ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف چین نے بیرونی سازشوں کو اپنے ہاں جڑ پکڑنے نہیں دی بلکہ بے مثال اقتصادی ترقی کی اورسائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں ،جو مغربی ممالک کا سب سے 'Strong Point‘رہا ہے، چین آئے دن مغربی دنیا کو حیران کررہا ہے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر آپ غور کریں کہ اپنے ملک میں ہمیں آج جو مسائل درپیش ہیں ان کو ہم مغربی جمہوریت نافذ کرکے حاصل کرسکتے ہیں یا چین کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنا کر ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں جس کے تحت باہر کی دنیا کے ساتھ ہماری پالیسی برداشت پر مبنی ہو اور اندرون ملک عدم برداشت یعنی 'Zero Tolerance‘پر۔
اس وقت یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ ملک میں جو فیصلے ہورہے ہیں وہ فوج کررہی ہے مگر یہ نہیں سوچا جارہا کہ ملک کی حالت کیا ہے۔جمہوریت کے نعروں نے ہمیں بے حال کرکے رکھ دیا ہے۔ اس نعرے کی آڑ میں اس پسماندہ ملک کو اس قدر لوٹا جا چکا ہے کہ اب اس میں اپنے آپ کو مزید لٹوانے کی طاقت ہی نہیں رہی۔ پھر بھی لوگ جمہوریت کے نام فلسفیانہ انداز میں آنسو بہا بہا کر بدعنوان لوگوں کو
مضبوط بنانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو طرز حکومت کی بہت سی مثالیں ملیں گی۔ بادشاہوں کے سنہری ادوار بھی ملیں گے۔ مطلق العنان حکمرانوں کے ایسے ادوار بھی نظر آئیں گے جن میں لوگ خوشحال تھے، اور تو اور لوگ ہمارے ہاں انگریزوں کے دور کو بھی یاد کرتے مل جائیں گے جبکہ ہم غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ہمارے ملک کو اس وقت جمہوریت کے نام پر ہونے والے استحصال سے جان چھڑا لینی چاہیے اور اپنے اردگرد کے ممالک کے ساتھ برداشت کی حکمت عملی اپناتے ہوئے اندرون ملک سیاسی، انتظامی اور اقتصادی بدعنوانی کو بالکل برداشت نہیں کرناچاہیے۔تجربہ یہی سکھاتا ہے کہ جس حکمت عملی کو آپ کامیابی سے چلتا دیکھ رہے ہوں ، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔عوامی جمہوریہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے۔ ہمارے رہنما وہاں آتے جاتے بھی ہیں۔ بھارت کے ساتھ چین کے تعلقات اسی طرح خراب ہیں جس طرح ہمارے ۔ چین اور بھارت میں جنگ بھی ہوچکی ہے مگر دیکھیں کہ چین بھارت کے ساتھ تنازعات کے ضمن میں اپنے موقف پر بھی قائم ہے اور بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت بھی کررہا ہے۔ یہ تجارت ایسی ہے کہ چین کی بھارت کو برآمدات اس کی درآمدات سے زیادہ ہیں۔ہمیں بھی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کریں مگر برآمدات اور درآمدات میں توازن کے ساتھ۔ اس وقت تو بھارت کے ساتھ تجارت کا مطلب بھارت کا یکطرفہ فائدہ ہے، لہٰذا ہمارے فیصلہ سازوں کو اس بارے میں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔اسی طرح دیگر ہمسایوں کے ساتھ تجارت میں بھی ہمیں
اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چین اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ اندرون ملک ہماری فوجی قیادت نے کوشش تو شروع کی ہے کہ بدعنوانی بھلے سیاسی ہو، انتظامی ہو اور یا پھر اقتصادی، اس کے خلاف فیصلہ کن اقدام کیے جائیں مگر ہمارے سیاستدان اس سلسلے میں کسالت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔اگر ایک Pageپر آنا ہے تو پھر کھل کر آنا ہوگا۔
اس وقت ہمارے مسائل کا حل کسی ڈھیلے ڈھالے جمہوری ڈھانچے میں نہیں ہے جس میں مجرم پیسے دے کر چھوٹ جاتے ہیں اور سزا کا خوف ناپید ہے۔ حکمرانی کے لیے فارمولہ بیان ہوتا ہے کہ Fear is the Key۔ مغربی ملکوں میں تو سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ وہ شہریوں کے دلوں میں جرم کرنے کی صورت میں سزا کا خوف پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے وہ جمہوریت کو Affordکرلیتے ہیں۔ ہمارا تو سسٹم ہی بدعنوان ہے۔ ہمارے لیے تو جمہوری نظام فی الوقت زہر قاتل ہے۔ اس سسٹم میں تو مجرم بے خوف دندناتے پھرتے ہیں۔لہٰذا ہمارے سیاستدانوں کو اس نازک دور میں اندرون ملک مسائل کے ساتھ سخت ہاتھوں سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے اور جمہوریت کے واسطے دے کر اپنی دولت اور اپنی کرپشن کی پردہ پوشی پر مصر رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وقت ان کا ساتھ چھوڑ دے گا۔
اگر عوامی جمہوریہ چین جمہوریت کے بغیر قوموں کی برادری میں ایک قابل فخر ملک کے طور پر رہ سکتا ہے تو ہم بھی بیرون ملک برداشت اور اندرون ملک عدم برداشت کی حکمت عملی کے ذریعے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں