"ARC" (space) message & send to 7575

جہالت کا مائنڈ سیٹ اور کلمہ حق

معروف سکالر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اسلامی انقلاب کے طریقہ کار پر ریسرچ کے حوالے سے انتہائی معروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی انقلاب کی ابتدا کلمہ حق کہنے سے ہوتی ہے اور کلمہ حق کی پہچان وہ یہ بتاتے تھے کہ جس دور میں بھی کلمہ حق کہا جائے گا ،اس دور کا ابوجہل کلمہ حق کی مزاحمت میں اٹھ کھڑا ہوگا۔وہ کہا کرتے تھے کہ اگر آپ نے کلمہ حق کہا اور جہالت کی طاقتوں کی طرف سے اس کی مزاحمت نہیں ہوئی تو آپ سمجھیں کہ آپ نے کلمہ حق کہا ہی نہیں،مگر آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں مسلمانوں کی طرف سے ان اقوام کے ساتھ جو واضح طور پر ان کی دشمن ہیں ،مل جل کر رہنے کی باتیں ہی زیادہ تر سننے میں آتی ہیں، جو کانوں کو بھلی بھی لگتی ہیں، مگر ہیں یہ محض باتیں ہی ۔ دشمن اقوام تو مسلمانوں کو اپنے حکم کے تحت ہی رکھنا چاہتی ہیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں ہی میں ایک طبقہ ایسا اٹھا ہے جو دشمن اقوام کے ساتھ مل جل کر رہنے کے اس حد تک خلاف ہے کہ انتہائی اقلیت میں ہونے کے باوجود اس طبقے نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ اس طبقے کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ دشمن اقوام کے خلاف کارروائی کا تو اس کو کم ہی موقع ملتا ہے مگر یہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ،کافر قرار دے کر اور دشمن اقوام کا ساتھی سمجھتے ہوئے ،مختلف طریقوں سے جانی و مالی نقصان پہنچاتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے جہاد کررہا ہے۔
اگر آپ معاصر دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے کلمہ حق ،بڑی بڑی اسلامی تقریریں کرنا نہیں ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک ایسا نظام حکومت قائم کرکے دنیا کو بتانا ہے کہ دیکھو یہ ہے وہ نظام جو اللہ اور اس کے آخری نبی ؐ نے ہمیں قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔
پچاس سے زیادہ اسلامی ملک ہیں، کہیں آپ کو دکھائی دیتا ہے کہ کلمہ حق کہنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہورہی ہے؟
ہو بھی کیسے سکتی ہے،ہمارے دشمن اس قدر چوکنا ہیں کہ وہ مسلمانوں کو اس کرہ ارض میں محض اپنی عبادات کی اجازت دینا چاہتے ہیں۔ نظام حکومت وہ یا تو اپنا ہی چاہتے ہیں یا ایسا ،جس میں ان کے لیے کوئی چیلنج موجود نہ ہو۔ یعنی کوئی ایسا نظام نہ آجائے جس میں اس قدر کشش ہو کہ سب اس کی طرف کھینچے چلے جائیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں خلافت کا لفظ آجائے یا شریعت کے نفاذ کی بات ہو،مغربی دنیا کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ایسی حکمت عملی وضع کرلی جاتی ہے کہ خلافت یا شریعت کی بات وہیں دب جائے۔میری مراد داعش کی خلافت سے نہیں ہے کیونکہ یہ تو ایسا معلوم ہوتا ے کہ ہمارے دشمنوں نے آئندہ سو برسوں تک مسلمانوں کے باہمی دست و گریبان رہنے کی جو پالیسی بنائی ہے اس کا حصہ ہے۔ گویا یہ ہمارے دشمنوں کی تیار کی ہوئی خلافت ہے یعنی جعلی خلافت ہے۔ ہمارے اکابرین نے پاکستان بنایا تھا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہوگا تو اس میں ظاہر ہے اسلامی اصولوں پر مبنی نظام حکومت ہی بنے گا۔ علامہ اقبال کی فکر موجود تھی جس میں واضح طور پر ایک جدید شورائی ریاست کا خاکہ ملتا ہے ،جس سے اسلامی اصولوں کو موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ایک ایسا نظام حکومت بن سکتا ہے جو اس دور میں کلمہ حق کہنے کے مترادف ہو،مگر ہم نے بطور ریاست کے اپنی جو صورت بنا، بلکہ بگاڑ رکھی ہے اس سے اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ ہم کبھی بھی دنیا میں پاکستان کو ایک ایسی مثالی ریاست کے طور پر پیش کرسکیں گے جو اسلامی اصولوں کی جدید تشریحات کا ایک پاک صاف نمونہ ہو۔
ہمارے دشمن ہم پر مکمل طورپر حاوی ہیں۔ان کے چوکنا رہنے کا یہ عالم ہے کہ افغانستان میں طالبان نے ایک ایسی اسلامی حکومت قائم کی تھی جو اسلامی اصولوں کی محض قبائلی روایات ہی کے حوالے سے تشریح کرتی تھی اور ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھی اور یہ معلوم نہیں تھا کہ اس حکومت کا مستقبل کیا ہوگا مگر دشمن اقوام اتنا بھی برداشت نہ کرسکیں اور طالبان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ہم نے اگر پاکستان کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ ایک جدید اسلامی ریاست کے ماڈل کے طور پر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرکے کلمہ حق کہے تو پھر ہمیں طویل المیعاد ایسی پالیسی بنانا ہوگی جو ہمارے ہاں جہالت کا مائنڈ سیٹ تبدیل کردے۔جہالت کا یہ مائنڈ سیٹ کیا ہے۔ اس کی تفصیل تو بہت ہے مگر مختصراً آپ سمجھ لیں کہ جب ایک انسان ذہنی طور پر دوسرے انسان کو اپنا آقا تسلیم کرلیتا ہے اور پھر غلاموں کی طرح آقا کی اطاعت پر قائم رہنا اپنا مقدر سمجھ لیتا ہے تو وہ اس جہالت کا اسیر ہوجاتا ہے۔ہمارے ہاں جو اشرافیہ کہلاتی ہے اس کا بھی وتیرہ یہی ہے کہ وہ عام لوگوں کو اپنا غلام ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ وڈیرے، جاگیردار، نواب اور سردار تو ہوتے ہی آقا ہیں اور اپنی رعیت کو اپنے حکم ہی میں رکھتے ہیں اور رعیت بھی اسی طرح گزارا کرنے کی عادی ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ پیروں کے گھرانے ہوتے ہیں۔ وہ مریدوں کو اپنی غلامی ہی میں رکھتے ہیں اور مریدوں کا مائنڈ سیٹ بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ غلام رہنے ہی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست اسی طرح کے ایک پیر صاحب کا چشم دید واقعہ سنایا کرتے تھے جو لطیفہ بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو تین مرید اپنے پیر صاحب کی خدمت میں خربوزوں کا ایک ٹوکرا لے کر آئے تو پیر صاحب نے چاقو لے کر خربوزے کاٹنے شروع کیے۔ جو خربوزہ میٹھا نکلتا اس کو اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ دیتے اور جو پھیکا نکلتا وہ مریدوں کو دے دیتے جس کو مرید خوشی خوشی کھالیتے۔غلطی سے ایک میٹھا خربوزہ پیرصاحب نے ایک مرید کو پکڑا دیا۔ مرید نے جو اس خربوزے کی ایک پھانک چکھی تو اس کی حالت غیر ہوگئی۔اس نے سوچا پیر صاحب کی مرضی کے خلاف میٹھا خربوزہ اس تک پہنچ گیا ہے تو کہیں اس پر کوئی مصیبت نہ آجائے،لہٰذا آدھی کھائی ہوئی خربوزے کی پھانک ہاتھ میں لیے اور تقریباً روتے ہوئے اس مریدنے کہا '' پیر صاحب ایک میٹھا خربوزہ ادھر آگیا ہے‘‘ پیر صاحب نے مرید کی طرف اور پھر اپنے دائیں طرف کئی میٹھے خربوزوں کی طرف دیکھا اور پھر بولا۔ کھائو کھائو ۔ میٹھا بھی کھائو۔یہ سن کر مرید کی جان میں جان آئی اور اس نے آہستہ آہستہ وہ میٹھا خربوزہ کھانا شروع کردیا۔یہ ہے جہالت کے مائنڈسیٹ کی ایک واضح مثال۔اسی طرح آپ کو مختلف طبقوں میں ایسی جہالت کچھ اور شکلوں میں مل جائے گی۔ ایک قبائلی سردار نے کوئلے سے گول دائرہ لگا کر کسی حکم عدولی کرنے والے کو اس دائرے کے اندر کھڑا کیا اور کہا کہ تو یہاں قید ہے۔ اب جب تک سردار معافی نہ دے وہ اس دائرے کے اندر ہی رہے گا۔دفتروں میں آپ کو یہ جہالت ، خوشامد کی شکل میں ملے گی۔ جب تک باس سروس میں ہے ،اس کی ہرچیز کی تعریف۔ ادھر ریٹائر ہوا،ادھر نئے باس کی تعریفیں شروع۔ اسی طرح اس مائنڈ سیٹ کی درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہالت کا یہ مائنڈ سیٹ کیسے تبدیل ہوگا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ماہرین کو دینا چاہیے۔ مجھے تو یہی سوجھتا ہے کہ ابتدائی طور پر اتنا تو ہو کہ تعلیم عام ہو۔ کیونکہ تعلیم عام ہونے سے اس جہالت میں کمی آنا تو شروع ہوسکتی ہے لیکن جہالت کا یہ مائنڈ سیٹ ایک سماجی و معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس کا ہماری اقتصادیات سے بھی گہرا تعلق ہے۔ ہوسکتا ہے نفسیات سے بھی تعلق نکل آئے۔اگر ہمارے ارباب حل و عقد اس بارے سوچ بچار کروائیں ،پھر کوئی حکمت عملی بنائیں اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کروادیں تو ہمارا سفر اس سمت میں شروع ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ایسا نظام وضع کرسکیں جو دنیا کے سامنے کلمہ حق کہنے کے مترادف ہو۔ چونکہ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا نہ ہم کلمہ حق کہیں گے اور نہ ہمارے دشمنوں کو اس کی مزاحمت کرناپڑے گی ۔کیونکہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کہتے ہیں کہ دشمنوں کی مزاحمت کے جواب میں مسلمان جو مزاحمت کریں گے اس سے اسلامی انقلاب آئے گا۔
اب آپ خود اندازہ کرلیں کہ اسلامی انقلاب ہم سے کتنا دور ہے۔ بس امید ہے تو یہی کہ اس دنیا کا خالق و مالک کوئی سبیل پیدا کردے،ورنہ ہم تو مغربی دنیا کے غلام بن چکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں