"ARC" (space) message & send to 7575

نوجوانوں سے وابستہ امیدیں

ہم پاکستانی جب دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بڑے برانڈ موجود ہیں جن کا نام ہی ان کی پہچان ہے تو لامحالہ خیال آتا ہے کہ ہم آج تک بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا برانڈ پیش نہیں کر سکے جو ہماری پہچان بن سکے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کوئی برانڈ نیم نہیں ہے‘ وگرنہ اس شعبے میں دنیا بھر میں ہم کافی نام کما چکے ہیں۔
15 مئی کو فاسٹ فوڈ کی معروف بین الاقوامی چین میکڈونلڈ نے اپنی 75 ویں سالگرہ منائی ہے۔ گویا محض پچھتر برسوں میں دو بھائیوں Ray Mcdonald اورMaurice Mcdonald نے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے چھوٹے سے شہر Sam Bernardino میں جو ایک ریسٹورنٹ کھولا تھا اس نے پوری دنیا میں فاسٹ فوڈ کے شعبے میں ایک انقلاب برپا کردیا۔
جس مقام پر دو بھائیوں نے ریسٹورنٹ کھول کے دنیا کو فاسٹ فوڈ سے متعارف کروایا‘ اب اس ریسٹورنٹ کی جگہ ان دو بھائیوں کی یاد میں ایک میوزیم قائم ہے۔ جب ہم اپنی طرف نظر ڈالتے ہیں تو تعلیم کے میدان میں تو ہم لوگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور سائنس کی تعلیم ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا اس امر کا امکان کم رہ جاتا ہے کہ ہمارا کوئی شہری بڑا کارنامہ کر گزرے گا۔ تھوڑا بہت چانس ہے تو یہی ہے کہ کوئی پاکستانی کسی غیر ملک کی کسی یونیورسٹی میں پڑھنے کے بعد وہیں ریسرچ کرکے اپنا نام روشن کرلے تو کرلے۔ ہمارے ہاں ملک کے اندر تو صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔
لیکن جس طرح امریکہ میں دو بھائیوں نے فاسٹ فوڈ ایجاد کرکے نہ صرف نام کمایا بلکہ ایک بہت بڑے بزنس کی بنیاد رکھ دی۔ اس طرح کا کوئی کام کرنے میں تو کوئی اعلیٰ تعلیم یا ریسرچ درکار نہیں ہے۔مذہب بھی ایسے کسی کام میں حارج نہیں ہے۔ معاشرہ بھی ایسی کوششوں کی مزاحمت کرتا دکھائی نہیں دیتا اور حکومت کا تو اس میں کوئی کردار کم از کم ابتدائی سطح پر تو بالکل بھی نہیں ہے۔
تو پھر کیوں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو پاتا کہ کوئی نیا آئیڈیا لے کر آئے اور آہستہ آہستہ اس کی کامیابی کے لئے کوشاں رہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو ترقی کا ایک ہی راستہ معلوم ہے اور وہ یہ ہے کہ راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن جانا اور اس کا فارمولہ یہ ہے کہ اپنے کاروبار میں اعلیٰ حکام کو اپنا خفیہ شراکت دار بنا کر اور ملکی قوانین کو اپنے حق میں لا کر اندھادھند مال بنانا اور پھر دولت بیرون ملک منتقل کرکے یا تو خود سیاست میں آ جانا یا پھر کسی بڑے سیاستدان کی پناہ میں چلے جانا۔پیسہ بنانے کا یہ کلچر نہ صرف ہماری ملکی معیشت کو برباد کر چکا ہے بلکہ اس نے ہماری آبادی کی اکثریت میں مقصد کی کوئی لگن رہنے ہی نہیں دی۔آج نوجوانوں سے بات کریں تو ان کی سوچ یہی ہے کہ کوئی بڑا ہاتھ مارنے کا موقع مل جائے تو بس پھر گاڑی چل نکلے گی۔ اس سوچ کی وجہ سے اخلاقی اقدار پامال ہو چکی ہیں۔ اس پامالی کی انتہا یہ ہے کہ چند ہزار روپے کے لالچ میں پیشہ ور قاتل لوگ قتل کرتے پھرتے ہیں۔
ویسے تو اس اخلاقی گراوٹ سے ہمیں اس جہاں کا پروردگار ہی نکال سکتا ہے مگر اس نے ہمیں ایک طریقہ بھی بتا رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی‘ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ اپنی حالت خود بدلنے کا خیال اپنی قوم میں ہم کس طرح اجاگر کریں؟ یہ بقول شخصے ملین ڈالر کا سوال ہے۔
میری رائے میں اس کام کا بیڑہ خود ہمارے نوجوانوں کو اٹھانا چاہئے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نہ تو سیاستدانوں سے کچھ ہو پائے گا اور نہ ہی ہماری نام نہاد سول سوسائٹی کچھ کر سکے گی۔ ہمارے تعلیمی ادارے فلاپ ہو چکے ہیں اور پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے اداروں تک میں کہیں بھی کردار سازی کا امکان نہیں ہے۔ نوجوانوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے ایسے گروپ بنانے چاہئیں جو اپنا ایک مشن طے کرکے اس پر عملدرآمد شروع کردیں۔ یعنی ایک گروپ اور ایک مشن۔ سیاستدانوں کے چکر میں بالکل نہ آئیں اور نہ ہی اپنی 
حکومت یا کسی غیر ملکی حکومت سے مالی معاونت کے طالب ہوں۔ جو کام بھی کریں‘ جتنے وسائل ہوں اس کے مطابق اتنا ہی کریں اور پھر اس میں اضافے کے لئے صرف اور صرف اللہ سے مدد طلب کریں۔ شروع میں ہو سکتا ہے کہ یہ طریقہ ایک مذاق محسوس ہو مگر جتنی تعداد میں ہمارے نوجوان بیروزگارہیں اور ان میں جس قدر جوش موجود ہے تو بہت ممکن ہے کہ یہ ایک بڑی معاشرتی تحریک بن جائے۔
میکڈونلڈ کے حوالے سے جن دو بھائیوں کا میں نے ذکر کیا ہے وہ تو ایک گروپ بھی نہیں تھے۔ محض دو بھائی تھے اور مقصد کی لگن تھی۔ آٹھ سال تک ایک ریسٹورنٹ چلانے کے بعد 1948ء میں انہوں نے فاسٹ فوڈ کا Menu متعین کیا اور پھر فرنچائز قائم کرنے کا آغاز کردیا۔ پھر 1950ء میں ان کو ایک اہم پارٹنر مل گیا اور اب اس چین کی جو پوزیشن ہے وہ دنیا کو معلوم ہے۔
ہمارے ملک میں اس وقت سینکڑوں ایسے شعبے پڑے ہیں جن میں ٹھوس کام کرکے کامیابی کی گنجائش موجود ہے۔ اگر ہمارے نوجوان گروپوں کی شکل میں ایسے شعبوں کی شناخت کرکے اور پھر تحقیق کرکے عملی قدم اٹھانا شروع کردیں تو ایسے گروپوں کی اکثریت کو کامیابی ملنے کا امکان موجود ہے۔ مگر یہ کامیابی واجبی سی ہوگی شروع میں۔ اس پر صبر کرنا ہوگا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنا 
ہوگا۔ راتوں رات امیر تو محض بدعنوانی سے بنا جا سکتا ہے اور یہ کام ہمارے ہاں جاری ہے تو جاری رہے لیکن اگر نوجوان چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں میدان عمل میں آ جائیں تو آہستہ آہستہ بدعنوان لوگوں کے راستے بند ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مقصد کی لگن سے کام ہوگا تو ممکن ہے برسوں بعد پاکستان سے بھی کوئی بڑا برانڈ نیم ابھر کر پوری دنیا میں مشہور ہو جائے۔ وگرنہ آج کل تو صورتحال یہ ہے کہ ہم مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرح مغربی دنیا کی محض ایک منڈی بنے ہوئے ہیں۔ ہماری درآمدات اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر سال بجٹ کو متوازن کرنا محال ہوتا ہے۔ باوجود اس بات کے کہ ہمارے پاکستانی محنت کش کثیرمقدار میں زرمبادلہ یہاں بھیج رہے ہیں جو ہمارے نوجوان دنیا کے بڑے بڑے برانڈز کی اشیاء خریدنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ خود کوئی برانڈ بنانے کی طرف بڑھیں۔
علامہ اقبالؒ نے تو مغرب سے کہا تھا کہ یہ تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی۔ مگر آج کل تو دکھائی یہ دے رہا ہے کہ ہم لوگ اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کر رہے ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے اور ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اپنی حالت خود بدلنے کا خیال اجاگر کردے اور ان کے دلوں سے راتوں رات امیر بننے کے خواب محو کر دے وگرنہ ہمارے سیاستدانوں‘ ہمارے تعلیمی اداروںٔ ہمارے مدرسوں‘ مذہبی تعلیمی اداروں اور ہماری موم بتیاں جلانے والی سول سوسائٹی نے تو ہمیں مایوس کر رکھا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں