"ARC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی کے دورہ چین پر ایک مضمون

عوامی جمہوریہ چین ہمارا دوست ملک ہے۔ ہم اس ملک کے ساتھ اپنی دوستی کو ہمالیہ سے اونچی اور بحر ہند سے گہری قرار دیتے ہوئے چینیوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ مگر کسی میدان میں بھی ہم اس عظیم ملک سے کچھ بھی سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ 
اگر آپ کا خیال ہے کہ میں ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی ترقی کے حوالے دوں گا یا ان کی مصنوعات کا ذکر کروں گا تو اگرچہ ہمیں ان شعبوں میں بھی چین سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے مگر اس کالم میں، میں ذکر کروں گا ڈپلومیسی کا اور دیگر ممالک سے تعلقات کی نوعیت کے حساب سے نبرد آزما ہونے کے چینیوں کے اس انداز کا جو کم از کم مجھے ڈپلومیسی کی ایک خوبصورت شکل دکھائی دیتا ہے۔
میں اس ضمن میں مثال دو ں گا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ چین کی۔ بھارتی میڈیا نے تو گزشتہ ہفتے ہونے والے اس دورے کے حوالے سے طوفان اٹھائے رکھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ چین کے صدر نے پاکستان کے اپنے دورے میں یہاں جن معاہدوں پر دستخط کئے تھے وہ بھارت کی حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں میڈیا کو بھی ہضم نہیں ہو رہے تھے لہٰذا انہوں نے نریندر مودی کے دورے کی خبریں اس انداز میں دیں کہ اصلی تے وڈا دورہ تو بھارتی وزیر اعظم ہی کا تھا۔
اب آئیے چین کی طرف جس سے میرا کہنا ہے کہ ہمیں ڈپلومیسی کے میدان میں بھی بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ چین کے دوران سرکاری سطح پر تو چین نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے بدمزدگی پیدا ہو۔ لیکن اپنی بات کہنے کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ نریندر مودی کے دورہ چین شروع ہونے سے محض دو دن پہلے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار میں شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے ایک سکالر کا بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے حوالے سے ایک مضمون چھاپ دیا۔ واضح رہے کہ شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کو چین میں ایک انتہائی باوقار ادارہ باور کیا جاتا ہے اور اس ادارے کے سکالر جو کچھ تحریر کرتے ہیں وہ چینی حکومت کے موقف کی دانشوارانہ انداز میں ترجمانی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات بھارت کو بھی معلوم ہے۔
اب دیکھیے کہ نریندر مودی کے دو روز قبل کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار میں اس موقر چینی ادارے کے سکالر کا جو مضمون شائع ہوا وہ کیا کہتا ہے۔اس مضمون میں تحریر تھا کہ اگر بھارت چین کے ساتھ سفارتی سطح کے تعلقات میں بہتری چاہتا ہے تو نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ محض کچھ سیاسی فوائد حاصل کرنے کی خاطر دونوں ملکوں کے درمیان متنازع سرحدی علاقوں کا دورہ کرنے سے گریز کریں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وہ متنازع امور پر بیان بازی سے بھی باز رہیں تو بہتر ہے۔ اس مضمون میں کھل کر کہا گیا کہ بھارتی حکومت مکمل طور پر دلائی لامہ کی حمایت بند کر دے۔
دنیا جانتی ہے کہ بھارت برسوں سے تبت کے معاملے پر دلائی لامہ کی حمایت کے ذریعے چین کو تنگ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس کے بعد اسی مضمون میں تجزیہ نگار نے لکھا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی ‘بھارت اور چین کے درمیان موجود سرحدی تنازعات اورسکیورٹی امور پرچالاکیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اس امید میں کہ اس طرح اندرون ملک وہ اپنا وقار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ مذاکرات میں بھارتی موقف کو مضبوط کر لیں گے ۔ اس کے بعد مضمون نگار نے بالکل کھل کر بیان کرتے ہوئے تحریر کیا کہ بھارتی وزیر اعظم Tricksterیعنی پھڈے باز ہیں اور مضمون نگار کے بقول بھارت کے عام لوگ بھی اسی طرح کے ہیں۔ اس کے بعد مضمون نگار نے نتیجہ نکالا ہے کہ بھارت میں اشرافیہ کے اندھے تکبر ‘ اپنی جمہوریت پر اعتماد اور عام بھارتیوں کی کمتری کی وجہ سے بھارت میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو بھارت اور چین کے تعلقات کو صحیح تناظر میں حقیقت پسندانہ طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
مضمون نگار نے چین اور بھارت کے باہمی تجارت کو موضوع بناتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اگر چہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے مگر بھارت کا تجارتی خسارہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ بھارت کی اپنی غلطیاں ہیں جن کو مضمون نگار کے بقول بھارت تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی بھارت اس بات پر آمادہ ہوتا ہے کہ اپنے اقتصادی ڈھانچے کا ازسر نو جائزہ لے اور چین کو اپنی برآمدات کی کوالٹی میں اضافہ کرے۔
مضمون نگار کے بقول کرنے والے کام تو یہ ہیں مگر بھارت بس بیان بازی کر کے چین پر اپنا غصہ نکالتا رہتا ہے۔ یہ مضمون بھارتی وزیر اعظم کے دورہ چین سے دو دن پہلے وہاں کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار میں ایک ایسے سکالر نے لکھا جو چین کے موقر ادارے شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز سے تعلق رکھتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیں جب یہ مضمون بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے پڑھا ہو گا تو اس بزعم خود جیمز بانڈ کے دل پر کیا گزری ہو گی۔
خیال رہے کہ بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعات پر جو مذاکرات ہوتے ہیں، ان میں بھارت کی طرف سے خصوصی نمائندے بھی ہیں اور ان مذاکرات کے 18ادوار میں حصہ لے چکے ہیں۔ چین کے دورے سے پہلے بھی موصوف نے بہت تیاری کی ہوئی تھی مگر عوامی جمہوریہ چین کا طریقہ واردات ایسا موثر تھا کہ انہوں نے اجیت ڈوول سمیت بھارتیوں کی ٹیم کو وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ شروع ہونے سے محض دو دن پہلے مکمل آئینہ دکھا دیا۔ تمام امور پر انتہائی بے رحمی سے چینی موقف واضح کر دیا گویا یہ کہہ دیا کہ آئو اب کر لو چین کا دورہ۔
سرکاری طور پر تو کچھ نہیں کہا لیکن ایک مضمون کے ذریعے سب کچھ کہہ گئے۔
اب ہماری ڈپلومیسی کا احوال سنیے کہ حامد کرزئی کے دور صدارت میں اس وقت کے ہمارے صدر جنرل مشرف کو حامد کرزئی کی حکومت سے بہت شکایات تھیں۔ ان شکایات کو پہنچانے کا طریقہ ایسا اختیار کیا گیا کہ بات ذاتی لڑائی تک پہنچ گئی۔ ملکوں نے اپنی پالیسیاں تو اپنے حساب سے بدلنی ہوتی ہیں مگر ڈپلومیسی میں ایک رکھ رکھائو ہوتا ہے جو یقیناً ہمارا ملک اپنے دوست ملک چین سے سیکھ سکتا ہے۔
اب آپ دیکھیں ہمارے وزیر اعظم نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ نریندر مودی کی والدہ کو ساڑھیاں بھجوائیں آخر کیا حاصل ہوا ۔ ایسا کرنے کے بجائے اگر اپنے نام سے ایک مضمون لکھ کر بھارتی اخبارات میں چھپوا دیتے جس میں خیر سگالی کا پیغام بھی ہوتا اور دھیمے مگر موثر انداز میں اپنے قومی موقف کی ترجمانی بھی ہوتی تو وہ زیادہ سود مند ثابت ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانی وزیر اعظم‘ بھارتی اخبارات کو اپنا مضمون بھیجتے تو وہ لازماً بھارت میں شائع ہو جاتا۔ پھر کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کے نئی دہلی میں حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے ساتھ ان کے خاندان کے کچھ کاروباری مفادات بھی جڑے تھے۔ ایسی صورت میں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔ ؎
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں