ہالی وڈ کی کافی پرانی مگر ایک معرکہ آرا فلم تھی "Where Eagles Dare"۔ اس فلم کی کہانی دوسری جنگ عظیم کے ایک ایسے فوجی مشن کے بارے میں تھی جس کے تحت اتحادی فوج جرمنوں کا ایک قلعہ تباہ کرنے کے لیے کمانڈوز کا ایک دستہ روانہ کرتی ہے اور جونہی یہ دستہ روانہ ہوتا ہے اس پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ اس کمانڈو دستے کو اتحادیوں کے جس فوجی مرکز سے روانہ کیا گیا ہوتا ہے اور جو مرکز اس دستے کی رہنمائی کر رہا ہوتا ہے اس مرکز کا نگران افسر اندر سے جرمنوں سے ملا ہوتا ہے‘ یعنی وہ جرمنوں کا خفیہ جاسوس ہوتا ہے اور چونکہ اس کو اس کمانڈو دستے کی نقل و حرکت کا پتہ ملتا رہتا ہے لہٰذا وہ یہ اطلاعات جرمنوں تک پہنچاتا رہتا ہے اور جرمن فوجی‘ اتحادیوں کے کمانڈو دستے پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔
ایک دو مرتبہ نقصان اٹھانے کے بعد کمانڈو دستے کے کمانڈر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کی نقل و حرکت کو ان کا اپنا ہی کوئی بندہ جرمنوں تک پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے ہیڈ کوارٹر کو اب جو معلومات بھی فراہم کرنی ہیں وہ فرضی ہوں گی اور اصل مشن کو اپنے ہیڈ کوارٹر سے بھی خفیہ رکھا جائے گا۔اس حکمت عملی کے ساتھ یہ کمانڈو مشن آگے بڑھتا ہے اور آخر کار جرمنوں کے قلعے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
آج کل ہماری فوج اور ہماری سول حکومتوں کا جو باہمی تعلق چل رہا ہے‘ وہ اس فلم کے پلاٹ سے ملتا جلتا ہے۔ آپ دیکھ لیں‘ جس مشن پر بھی ہماری پاک فوج نکلتی ہے اس کو یہی دشواری پیش آتی ہے۔ ہماری سول حکومتیں‘ جو کہ ظاہر ہے کوئی بھی آپریشن ہو‘ اس کا حکم جاری کرنا انہی کے ذمے ہے تو یہ فوج کو آپریشن کرنے کا حکم بھی دیتی ہیں اور پھر جن کے خلاف آپریشن ہوتا ہے‘ مبینہ طور پر ان کو الرٹ بھی کر دیتی ہے۔ اوپر اوپر سے بیان فوج کے حق میں دیتی ہے جو کہ مجبوری ہوتی ہے جبکہ اندر ہی اندر کچھ اور ہو رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا فوج کاادارہ اپنے سویلین نگرانوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا۔
کراچی میں کیا ہو رہا ہے۔ رینجرز نے فوج کی قیادت میں جو کامیابیاں وہاں حاصل کی ہیں وہ اپنے تمام کاموں کو سویلین حکومت سے خفیہ رکھ کر کی ہیں۔ پہلے اپیکس کمیٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ ہیں مگر فوجیوں نے اپنے پاس موجود معلومات کواپنے تک ہی رکھا ہوا ہے۔ اس طرح جو ایکشن ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس ردعمل سے ہوتا ہے جو سیاسی جماعتوں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے۔ ہر وہ سیاسی اور مذہبی جماعت بھی ناخوش معلوم ہوتی ہے جس کے خلاف ایکشن ہوتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی جماعتیں خود آگے ہوں اور ملک سے جرائم کی بیخ کنی میں فوجی اداروں کا ہاتھ بھی بٹائیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں مگر ہو یہ رہا ہے کہ دھمکیاں سننے کو مل رہی ہیں: ''ہم آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔
یہ سب دیکھ کر اللہ پہ ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو پاکستان کا قائم و دائم رہنا منظور ہے تو اس نے یہ انتظام کر دیا ہے وگر نہ ہماری سیاسی قیادت کا ملک میں اگر خدانخواستہ کلی اختیار ہوتا تو ہمارا کب کا بیڑہ غرق ہو چکا ہوتا۔ بھارت ہمیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے اور اپنی اس کوشش سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں ہوتا مگر ہماری سویلین قیادت بھارت کو جپھی ڈال کر اور پھر منہ کی کھا کر اپنے ہی زخم چاٹنے کو ہر دم تیاررہتی ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا ایجنڈا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے۔
پرانے وقتوں میں را ہی کی تجویز پر بھارت نے آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس شروع کی تھی جس کے پاور فل ٹرانسمیٹر پاکستانی سرحدوں کے قریب لگائے گئے تھے۔ اس سروس میں پاکستانیوں کو پیغام دیا جاتا تھا کہ اصل میں بھارتی اور پاکستانی ایک ہی لوگ ہیں‘ درمیان میں جو سرحد ہے وہ ایک مصنوعی لکیر ہے وغیرہ وغیرہ۔
مقصد اس پروپیگنڈے کا ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ پاکستانی اپنے دل میں سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ یہ ملک غلط بنا تھا تاکہ مستقبل میں اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار ہو۔ یہ پروپیگنڈہ اب تک چل رہا ہے بلکہ اب اس کو کئی جہتوں سے اور بھی وسعت مل چکی ہے۔
اس پس منظر میں ہمارا ہی ایک لیڈر جذبات میں آ کر یہ کہہ دے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزہ ہی ختم کر دینا چاہیے تو آپ خود سوچیں کہ را کے منصوبہ ساز کس قدر خوش ہوئے ہوں گے۔
ہم نے بڑی محنت کر کے پاکستان کو جوہری طاقت بنایا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف دھماکے کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن یہ کریڈٹ ایسا ہی ہے جیسا صدر پاکستان کوئی آرڈی نینس جاری کر کے لیتے ہیں۔ اصل میں تو وزیر اعظم کے مشورے پر پابند ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم کا وہ بھیجا ہوا آرڈی نینس جاری کرتے ہیں۔ اسی طرح جوہری دھماکے کرنے کا اصلی فیصلہ پاک فوج کا تھا اور وزیر اعظم کے پاس ایسا کوئی Choiceنہیں تھا کہ وہ چاہتے تو دھماکہ نہ کرتے۔پھر جب ہم نے دھماکے کر دیے تو یہ ہماری پالیسی ہو گئی کہ ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم اپنے دفاع میں جوہری بم استعمال کرنے میں پہل کر لیں گے۔ یہ پالیسی ہی ہماری دشمن کو حملہ کرنے سے باز رکھنے کی پالیسی تھی اور اب بھی ہے۔اب ذرا سویلین قیادت کا کمال دیکھیں۔ زرداری صاحب صدر بنے تو بیان داغ دیا کہ پاکستان جوہری بم استعمال کرنے میں پہل کی پالیسی کو ترک کر دے گا۔ خود سوچیں اس بیان سے را کے منصوبہ ساز کس قدر خوش ہوئے ہوں گے۔
آج کل فوجی قیادت نے را کا دل خوش کرنے والے بیانات کو جو لیڈر جاری کرنے کا شوق رکھتے ہیں ‘بظاہر ایک شکنجے میں باندھا ہوا ہے۔ جب سے مودی کی حکومت آئی ہے بھارت کچھ زیادہ ہی شیخیاں بگھار رہا ہے۔
ہمارے ووزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب میں رسوا کن شرکت کرنے کے علاوہ بھارت کے ساتھ پیار محبت بڑھانے کی کافی باتیں کر چکے ہیں ۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے ناقدین کے دل میں بھی بھارت کی محبت کروٹیں لیتی رہتی ہے۔
ان حالات میں فوج کیسے خارجہ پالیسی پر اپنا کنٹرول ختم کرنے کرنے کا رسک لے سکتی ہے۔ لہٰذا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی سے ان سویلین قائدین کو دور ہی رکھنا چاہیے جو موقع ملتے ہی بھارت کی بانہوں میں بانہیں ڈال دیتے ہیں۔
کراچی کو مسائل سے پاک کرنے کے ضمن میں بھی فوجی قیادت کو سویلین لیڈروں کو بالکل اعتماد میں نہیں لینا چاہیے اور جو کچھ ضروری ہے وہ کر دینا چاہیے۔ جہاں تک اس شور کا تعلق ہے کہ اداروں کو اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے‘ اس کا کوئی نوٹس نہیں لینا چاہیے کیونکہ حقیقت میں یہ شور محض اپنے پسندیدہ جرائم پیشہ لوگوں کو بچانے کے لیے مچایا جا رہا ہے۔
جس طرح ہالی وڈ کی فلم ''Where Eagles Dare‘‘ میں کمانڈوز کا دستہ اس کے باوجود کہ ان کے ہیڈ کوارٹر کا ایک افسر دشمن سے ملا ہوتا ہے‘ اپنا مشن پورا کرتا ہے‘ اسی طرح ہماری فوج کو بھی جرائم پیشہ افراد کے خلاف اپنی کارروائیاں سول حکومتوں سے بالا بالا کرنی چاہئیں کیونکہ جرائم پیشہ لوگ سیاسی جماعتوں کے پروردہ ہیں۔ یہ بات پاکستان کی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے۔
اب یہ گاڑی جس طرح چل پڑی ہے اس کو رکنا نہیں چاہیے۔
ایران میں جس طرح وہاں کے عوام‘ علی خامنہ ای کو وہاں کی حکومت کے اوپر ایک ہستی مانتے ہیں اسی طرح پاکستانی عوام بھی اپنی فوجی قیادت کو نام نہاد جمہوری حکومت کے اوپر ایک ایسی طاقت تسلیم کرتے ہیں جو حقیقی معنوں میں ملک کی محافظ ہے۔