موجودہ حکومت پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اتنے حملے کر چکے ہیں جتنے شاید محمود غزنوی نے بھی اس دور کے ہندوستان پر نہ کیے ہوں گے۔ محمود غزنوی کو تو ہر حملے میں کچھ نہ کچھ حاصل ہو جاتا تھا مگر خان صاحب نے اب تک ہر حملے میں کچھ نہ کچھ گنوایا ہی ہے‘ یوں مسلم لیگ ن کی کمزور حکومت کو نئی انگڑائی لینے کی طاقت بھی فراہم کر دیتے ہیں۔
معلوم نہیں خان صاحب سیاستدان ہیں بھی کہ نہیں لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ لوگوں کی کافی بڑی تعداد اُن کے ساتھ ہے۔ اگر وہ اس تعداد کو سنبھال کر رکھ سکے تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی جماعت کو جمہوریت کی اصطلاح میں Government in Waitingکا درجہ حاصل ہے۔ اگر معمولی سیاسی بصیرت کے ساتھ بھی چلا جائے تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے واضح امکانات ہو سکتے ہیں۔ لیکن جو بے صبری کپتان کے رویّے سے عیاں ہے وہ اُنہیں اگلا انتخاب بھی نہیں جیتنے دے گی‘ یوں اُن کی بے صبری ہمارے اوپر دوبارہ یہی ''کاریگر‘‘ لوگ مسلط کر سکتی ہے جو پتہ ہی نہیں چلنے دیتے کہ پاکستانی دن رات محنت سے جو سینکڑوں ارب روپے حکومت کے خزانے میں ڈالتے ہیں وہ کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔
NA-122کے انتخاب میں اگر دو ڈھائی ہزار ووٹوں کی اکثریت سے تحریک انصاف کا امیدوار جیت جاتا تب بھی عمران خان کا ن لیگ کی دھاندلی ثابت کرنے کا دعویٰ محض دعویٰ ہی رہ
جاتا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ایاز صادق نے دھاندلی کر کے عمران خان کو ہرایا تھا‘ علیم خاں کو کم از کم تیس یا چالیس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جتینا تھا۔ جو نتیجہ گیارہ اکتوبر کو آیا ہے اس نے تو وہی بات ثابت کی ہے جو سپریم کورٹ کے عدالتی کمشن نے کہی تھی۔ یہی کہ انتخابی بے ضابطگیاں ہوئیں مگر انتخابات عمومی طور پر درست ہی تھے۔تحریک انصاف کو جو چیز تبدیل کرنا ہے وہ ہمارے عوام کی کم علمی ہے جس کے تحت وہ ایسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو ملک کو خوشحال کرنے میں عرصہ دراز سے ناکام ہو رہی ہیں۔کیا تحریک انصاف یہ کر پائے گی؟اس وقت جو تحریک انصاف کی صورت حال ہے اُسے دیکھتے ہوئے تو ممکن معلوم نہیں ہوتا۔میرا نہیں خیال کہ چیئرمین عمران خاں بے صبری کا آئینہ دار اپنا یہ طرز عمل بدلیں گے۔ حالانکہ بے صبری کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ بعض لوگ توجہ دلاتے ہیں کہ عمران خان کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو گئی ہے اس لیے وہ جلدی جلدی اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک بے بنیاد اور فضول بات ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہو گا کہ آج کے دور میں اوسط عمریں کافی بڑھ چکی ہیں اور پھر اگر کسی شخص نے اپنی صحت کا اس طرح خیال رکھا ہو جس طرح عمران خان نے رکھا ہے تو دنیاوی لحاظ سے کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔ باقی رہ گئی قدرت کی بات تو اس پر اگر عمران
خان کو کنٹرول نہیں تو دیگر ان سیاستدانوں کو بھی تو کوئی کنٹرول نہیں جن سے عمران خاں اقتدار چھیننے کی کوشش میں ہیں۔ لہٰذا اس وجہ سے بے صبری کا مظاہرہ بالکل بلا جواز ہو گا کہ عمر ڈھلتی جا رہی ہے۔میرے خیال میں خاں صاحب کے مزاج میں بے صبری ہے جو کہ ان کے سیاسی مستقبل کے لیے منفی طاقت بنی ہوئی ہے‘ آئندہ دو برسوں میں اگر صبر و تحمل سے حکومت وقت کی موثر انداز میں اس طرح اپوزیشن کی جائے کہ حکومت کے ہر اقدام کا جائزہ لے کر جو پہلو عوام مخالف ہوں ان کو اجاگر کیا جائے تو عوام آہستہ آہستہ اس بات کے قائل ہونا شروع ہو جائیں گے کہ ان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جا رہا‘ لیکن جیسا میں نے پہلے کہا ایسا ہوگا نہیں۔
آئندہ انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف اپنے متحرک کارکنوں کے ذریعے عوامی رابطہ مہم چلا سکتی ہے۔ جو ہر سطح پر لوگوں کو ان کے مسائل سے بھی آگاہ کرے اور ان کا حل بھی تجویز کرے اس انداز میں کہ یہ واضح ہوتا رہے کہ کس طرح روایتی سیاسی جماعتیں اُن کو بے وقوف بناتی رہی ہیں۔
اس طرح کارکن مصروف بھی رہیں گے۔ ان کی سیاسی تربیت بھی ہوتی رہے گی اور عوام کو جگانے کا مقصد بھی پورا ہوتا رہے گا۔ خاں صاحب کچھ بھی کہیں۔ کسی کو انوکھا لاڈلا قرار دیں یا کسی کو پارٹی کے لیے اثاثہ قرار دیں مگر یہ ضروری ہے کہ اُن کی جو ٹیم اس وقت آگے ہے اس کو ایک قدم پیچھے ہٹ جانا چاہیے اور خاں صاحب کو چاہیے کہ پارٹی میں موجود نئے خون کو آگے لا کر پارٹی کو نئی شکل دیں۔
چوہدھری سرور‘ جہانگیر ترین‘ شاہ محمود قریشی کو پارٹی میں جو اہم مقام حاصل ہے وہ حاصل رہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ بڑے تجربہ کار لوگ ہیں لیکن نئی قیادت کو آگے آنا چاہیے بالکل اسی طرح جیسے کرکٹ میں نوجوان کھلاڑی کو کپتان بنا دیا جاتا ہے اور کئی سینئر کھلاڑی بھی اس کپتان کے تحت ٹیم میں کھیلتے ہیں۔لیکن یہ بھی ہو نہیں پائے گا۔
پارٹی کی یہ Old Guardاس قدر طاقت کے ساتھ پارٹی پر قابض ہے کہ چیئرمین عمران خان کو بھی انہیں اپنی اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہلانے کے لیے ہزار بار سوچنا پڑے گا۔ ایسا کرنے کے لیے خاں صاحب کو ایک انقلابی رہنما بننا ہو گا۔ میرا نہیں خیال کہ وہ ایک انقلابی لیڈر بن پائیں گے۔اب آگے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخاب آ رہے ہیں۔ جس سطح کی سیاست کی اِن انتخابات کو جیتنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کیا وہ تحریک انصاف کے پاس موجود ہے؟ خیبر پختونخوا میں بات اور تھی وہاں خاں صاحب کی جماعت پہلے ہی صوبے کی سب سے بڑی جماعت تھی جبکہ پنجاب اور سندھ میں یہ صورتحال نہیں ہے۔جس انداز میں تحریک انصاف نے ان صوبوں میں بلدیاتی انتخاب لڑنے کی منصوبہ بندی کی ہے اس سے نتائج ویسے ہی آنے کی توقع ہے جو دیگر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔ ان انتخابات میں نتیجہ کچھ بھی ہو تحریک انصاف کو چاہیے کہ ان کے امیدوار اگر جیتیں تو کام کر کے دکھائیں اور اگر ہار جائیں تو ہتھیار پھینکنے کے بجائے متعلقہ علاقوں میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کر کے اہل علاقہ کو ان کے حقوق سے باخبر کرتے رہیں۔
تحریک انصاف والے یہ کام صبر سے کرتے رہیں تو آئندہ انتخابات میں ان کی جیت یقینی ہو گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ صبر کون کرے۔ سب کچھ ہو تو سکتا ہے مگر لگتا ایسا ہی ہے کہ ہو گا نہیں۔!