"ARC" (space) message & send to 7575

جرمنی اور فرانس‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ

پنجابی سٹیج ڈراموں کے بعض مکالمے اس قدر دلچسپ ہوتے ہیں کہ جب یاد آئیں تو ہنسی آ جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک مکالمہ کالم کے آغاز میں پیش خدمت ہے۔۔۔۔ خاتون کے اس مکالمے کے جواب میں کہ اُس کو چکر آ رہے ہیں‘ ایک کردار جواباً کہتا ہے: ''ساری زندگی لوگوں کو جو چکّر دیتی رہی ہو‘ اب معلوم ہوتا ہے وہی چکّر واپس آ رہے ہیں‘‘۔ یہ مکالمہ بنیادی طور پر پنجابی زبان کا ہے اور اس کا صحیح لطف بھی پنجابی میں آتا ہے؛ تاہم اردو ترجمے میں بھی مکالمہ کافی مزاحیہ رہتا ہے۔
اس مکالمے کو پیش کرنے کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ شروع کروانے والے مغربی ملکوں پر کس خوبصورتی سے فٹ ہوتا ہے۔ جارج ڈبلیو بش‘ ٹونی بلیئر اور ڈک چینی سمیت مغربی دنیا کے ان رہنمائوں نے جن کا انتہائی معمولی ذہانت کا مالک ہونا اب ثابت ہو چکا ہے‘ مسلمانوں ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر وہ خونی چکّر دیے کہ خدا کی پناہ! آج کل جس نوعیت کی کارروائیاں مغربی ملکوں میں ہو رہی ہیں‘ ان کو دیکھ کر لا محالہ یہی مکالمہ برمحل لگتا ہے کہ ''دہشت گردی کے نام پر مسلمان ملکوں کو پندرہ برس سے جو خونی چکر دیے جا رہے تھے، اب وہ چکّر واپس مغربی دنیا میں آ رہے ہیں‘‘۔
مغربی تہذیب اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تہذیب ہے۔ مغرب کی بدقسمتی ہے کہ ان کے ہاں ٹیکنالوجی کی ترقی نے گدھے اور گھوڑے میں فرق ختم کر دیا ہے اور اب ایسے لوگ سیاسی رہنما بن جاتے ہیں جو عام حالات میں سکول ٹیچر بننے کے لیے بھی مناسب اہلیت کے حامل نہیں ہوتے۔ جارج ڈبلیو بش اس کی ایک واضح مثال ہے۔ موصوف نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار ایل گور کو شکست دی تھی؛ حالانکہ پاپولر ووٹ ایل گور کے زیادہ تھے۔ یہ ایک متنازع الیکشن تھا اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت بش کو حکومت ملی تھی۔ بش کی نسبت ایل گور کی شخصیت ایک دانشور کی تھی۔ وہ آٹھ برس تک بل کلنٹن کے ساتھ نائب صدر رہ کر حکمرانی کے امور میں ماہر ہو چکا تھا مگر امریکی سپریم کورٹ میں چونکہ زیادہ جج ری پبلکن پارٹی کے صدور کے نامزد کردہ تھے‘ لہٰذا فیصلہ اُسی کے امیدوار کے حق میں ہوگیا۔ تاریخ کے صفحات میں اب تک یہ سوال موجود ہے کہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کا خود ساختہ لیڈر ہونے کے دعویدار امریکہ میں ایسا کیونکر ممکن ہوا کہ چارج ڈبلیو بش جیسا شخص صدر بن گیا جبکہ اس کے مقابلے میں ایک بہتر امیدوار موجود تھا اور اس کے ووٹ بھی زیادہ تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے مغربی دنیا کے دوسرے بڑے کردار تھے ٹونی بلیئر، انہوں نے جو کچھ کیا اس کی تفصیل کو چھوڑیے‘ بس یہ دیکھ لیں کہ آج کل موصوف کی کیا حالت ہے۔ انتہائی ناکام شخص کی شکل بنائے اپنے پرانے فیصلوں پر معافیاں مانگتے پھرتے ہیں اور ان کے اپنے ملک کے لوگ ان پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ تہذیب اب اس قسم کے رہنما پیدا کر رہی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے تاریخ دانوں کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا:
It was everybody`s misfortune that Hitler was not a gentleman.
یعنی یہ ہر ایک کے لیے بدقسمتی کی بات تھی کہ ہٹلر شریف آدمی نہیں تھا۔ 
اب تاریخ دانوں کا یہی فیصلہ اگر دہشت گردی کے کرتا دھرتا مغربی رہنمائوں پر لاگو کیا جائے تو کیا بُش‘ بلیئر اور ڈک چینی جیسے کرداروں کو شریف آدمی کہا جا سکتا ہے؟ اب ان لوگوں کو جبکہ یہ دنیا کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں‘ مغربی دنیا میں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ٹونی بلیئر کی حالت میں نے بیان کر دی ہے اور جارج ڈبلیو بش کو اب بھی امریکی لوگ اپنے ملک کے بدترین صدور میں شامل کرتے ہیں۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ مغربی تہذیب کے انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود‘ ان کے ہاں ٹیکنالوجی کی ترقی نے گدھے اور گھوڑے کا فرق مٹا دیا ہے‘ اس کی ایک واضح مثال اب ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدارتی امیدوار بن جانا ہے۔ موصوف امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں مگر اس جماعت کے وہ لیڈر جو اس جماعت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں یا تو ٹرمپ کے خلاف ہیں یا شرمندگی کے باعث چپ ہیں یا اُس سسٹم کے آگے بے بس ہیں جس میں عقل و دانش کی حیثیت صفر ہو چکی ہے اور سب فیصلے ٹیکنالوجی کر رہی ہے۔
اگر ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا تو یہ کوئی تعجب کی بات نہ ہو گی بلکہ یہ اس تہذیب کے لیے رونے کا مقام ہو گا جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب باور کرتی ہے اور مسلمانوں کی اس تہذیب کی مخالفت کو حسد سمجھتی ہے؛ حالانکہ مسلمان اس تہذیب کے مخالف نہیں ہیں۔ انتہا پسندوں کا ایک ٹولہ مسلمانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ تہذیبوں کے ٹکرائو کے بارے میں سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samuel P Huntington) اپنی معروف تصنیف میں لکھتے ہیںکہ مغربی تہذیب کے اصل لیڈر جرمنی اور فرانس ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر جنگ شروع کر کے برطانیہ اور امریکہ بظاہر مغربی دنیا کے لیڈر دکھائی دے رہے تھے‘اس جنگ کے انجام نے ان کی قیادت کے تصور پرلکیر پھیر دی ہے۔
دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مسلمان ملکوں کو جو خُونی چکر دیے گئے تھے وہ واپس جرمنی اور فرانس پہنچ گئے ہیں۔ اب مغربی دنیا کے ان دونوں ملکوں کا اس بارے میں جو طرز عمل ہو گا وہ فیصلہ کرے گا کہ مغرب ان خونی چکروں کی واپسی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ پاتا ہے یا نہیں۔ اس وقت جرمنی اور فرانس کی قیادتوں پر بڑا سخت دبائو ان قوتوں کی طرف سے ہے جو یورپ کو براہ راست مشرق وسطیٰ کی آگ میں پھینکنا چاہتی ہیں۔
جرمنی اور فرانس دانشوروں‘ فلاسفروں اور سائنسدانوں کی سرزمین ہیں۔ ان کے قائدین کو شعور ہونا چاہیے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ قسم کی جنگ نے جو مسائل پیدا کر دیئے ہیں ان کا حل جنگ کو مزید بڑھانے میں نہیں ہے۔ مسلمان ملک کلّی طور پر اپنے اندر ان گروپوں کو مسترد کر چکے ہیں جو اس وقت دہشت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان گروپوں کو تازہ بھرتیاں مغرب کی پالیسیوں کی وجہ سے مل رہی ہیں‘ مسلمان ملکوں کی وجہ سے نہیں۔
مشرقی وسطیٰ میں جو خون خرابہ جاری ہے‘اس کے پیچھے ناعاقبت اندیش مغربی ممالک کے وہ رہنما ہیں جو ایک نیا مشرق وسطیٰ ترتیب دینے نکلے تھے۔اس کام میں تو وہ بظاہر کامیاب ہیں کیونکہ کافی سرحدیں بدلتی دکھاتی دیتی ہیں‘ لیکن اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میری خواہش ہو گی کہ جرمنی اور فرانس آگے بڑھیں اور مغرب کی قیادت کا کردار نبھائیں۔ اس وقت دنیا کے ہمراہ مغرب کو بھی امن کی ضرورت ہے۔ مغربی ملکوں میں بھی اب وہ امن و چین ناپید ہوتا جا رہا ہے جو چند برس پہلے وہاں موجود تھا۔ اس کو واپس لانے کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے ٹولے کے حامیوں سے بھی مغرب کو بچانا ہوگا۔ مسلمان ملکوں کے پاس تو سوائے اس کے کوئی آپشن ہی نہیںکہ وہ امن کے لیے کیے جانے والے فیصلوں کے ساتھ چلیں کیونکہ مغربی پالیسیوں کے پیدا کردہ دہشت پسندوں نے سب سے زیادہ نقصان مسلمان ملکوں اور مسلمان آبادیوں ہی کو پہنچایا ہے۔ لہٰذا فرانس اور جرمنی کو آگے بڑھ کر دہشت گردی کی اس بے سمت جنگ کو ختم کرنے کی قابل عمل پالیسی بنا کر سب مغربی ملکوں کو اس پالیسی پر چلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بہرحال میری خواہش ہی ہے اور غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں