مجھے نہیں معلوم کہ اِس وقت امریکی معاشرے کی کیا صورت ہے۔ خاص طور پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے وہاں کی جو تصویر میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پہنچی ہے وہ امریکی معاشرے کی اُس صورت سے مختلف ہے جس کا میں نے اسّی کی دہائی میں مشاہدہ کیا تھا۔ اسّی کے عشرے کے وسط میں‘ میں وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں باقاعدہ ملازم تھا اور وہیں مقیم ہونے کی وجہ سے اس معاشرے کا بچشم خود مشاہدہ کر سکتا تھا۔ تاہم میں خود سے کوئی سوشل سائنٹسٹ بننے سے گریز کرتے ہوئے ایک دو واقعات کی مدد سے آپ کو اس دور کے امریکہ کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
ہوا یہ کہ وائس آف امریکہ نے مختلف زبانوں کی نشریاتی سروسز کے ملازمین کے لئے جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ریڈیو جرنلزم کے ایک کورس کا اہتمام کیا۔ فیس وغیرہ وائس آف امریکہ نے بھری اور جو ملازمین نامزد ہوئے اُن سے کہا گیا کہ وہ جتنا عرصہ یونیورسٹی میں جائیں گے اُن کو ڈیوٹی پر تصور کیا جائے گا۔ میں بھی اُن سولہ سترہ ملازمین میں شامل تھا جو نامزد ہوئے۔ اُن میں اردو سروس کے علاوہ فارسی، عربی، ہندی، بنگلہ اور پشتو سمیت دیگر کئی زبانوں کی سروسز کے ملازمین شامل تھے۔ ایک امریکی خاتون ہماری انسٹرکٹر تھیں اور انہوں نے بڑی محنت سے کورس تیار کیا تھا۔ وائس آف امریکہ کے ملازمین چونکہ جبراً بھیجے گئے تھے لہٰذا کورس میں اُن کی دلچسپی کم ہی تھی۔ کورس ختم ہوا تو ہماری خاتون انسٹرکٹر نے سب اپنے طالب علموں کو اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا۔ اور دعوت میں یہ بھی شامل کیا کہ جو شادی شدہ ہیں اپنی بیگمات کے ہمراہ آئیں۔
جس روز ڈنر تھا میں واشنگٹن ڈی سی میں اُن کے گھر جب پہنچا تو اگرچہ راستہ بھول جانے کی وجہ سے میں کچھ دیر سے پہنچا تھا مگر وہاں پھر بھی میرے اور میری بیوی کے سوا اور کوئی مہمان نہیں آیا تھا۔ خیر ہماری انسٹرکٹر مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے گھر کے صحن میں باربی کیو کا اہتمام کیا ہوا تھا جس کی نگرانی اس کا شوہر جارج کر رہا تھا۔ اب آپ ہم تیسری دنیا کے لوگوں کا کردار دیکھیں کہ اس ڈنر میں میرے سوا اور کوئی بھی نہ پہنچا۔ میں توقع کر رہا تھا کہ انسٹرکٹر سخت ناراضگی کا اظہار کرے گی یا کم از کم اس کا شوہر جو باربی کیو کی آگ کے آگے کھڑا بے حال ہو گیا تھا وہ ہی کوئی شکوہ کرے گا۔ لیکن جناب شکوہ تو کیا اُن دونوں میاں بیوی نے ذکر تک نہ کیا کہ باقی لوگ کیوں نہیں آئے اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں تنہا ہی مدعو تھا۔ اور سب انتظام میرے لیے ہی کیا گیا ہے۔
جب ہم کھانے کی میز پر بیٹھے تو ہمارے میزبانوں کی ایک بیٹی بھی آ گئی۔ جارج اُٹھ کر دروازہ کھولنے گیا اور وہاں باپ بیٹی میں آہستہ سے کوئی گفتگو ہوئی جو میں اور بیوی نہیں سن سکتے تھے۔ اس کے بعد ان کی بیٹی بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئی اور اس نے بھی اشارہ تک نہ دیا کہ اور لوگ بھی آنے والے تھے وہ کہاں گئے۔
جب ہم کھانا کھا چکے اور چائے پی رہے تھے تو جارج نے ضروری سمجھا کہ ہم سے کوئی گفتگو بھی کی جائے کیونکہ مغربی معاشرے میں روایت ہے کہ ڈنر کے بعد مہمان گپ شپ کرتے ہیں۔ یقینا اور معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ جارج نے مجھ سے پوچھا کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے امریکہ میں۔ میں نے کہا دو برس ہونے والے ہیں۔ اس نے کہا جو تصور تم امریکہ کے بارے میں لیکر یہاں آئے تھے کیا امریکہ کو ویسا ہی پایا۔ یا کچھ مختلف۔ میں ایسے سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔ نہ ہی کبھی میں نے اس پہلو سے کچھ سوچ رکھا تھا۔ بہرحال میری سمجھ میں اُس وقت بات آئی۔ وہ میں نے کہہ ڈالی۔ میں نے کہا کہ آنے سے پہلے میرا تصور تھا کہ امریکہ میں حیا کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن یہاں آنے کے بعد مجھے لباس میں تو بے حیائی دکھائی دی اور TV پروگراموں میں بھی مگر یہاں لوگوں کے عام میل جول میں تو بے حیائی مجھے دکھائی نہیں دی۔
میرا جواب سن کر جارج جو مجھ سے کچھ دور بیٹھا تھا۔ میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔ میری انسٹرکٹر جو میری بات کا جواب دینے کے لئے منہ کھول رہی تھی وہ جارج کو میرے قریب آتا دیکھ کر خاموش ہو گئی۔ جارج نے کہا دیکھو۔ امریکہ ایک idea کا نام ہے۔ وہ idea کیا ہے۔ وہ ہے Freedom۔ دنیا میں کوئی ملک اس نظریے پر قائم نہیں ہؤا۔ امریکہ میں تحریر و تقریر کی آزادی ۔ مذہب کی آزادی ہے۔ گویا کسی چیز پر بھی پابندی نہیں۔ اس وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ یہاں جو آزاد خیال یعنی لبرل لوگ ہیں۔ اُن کو بھی مکمل آزادی ہے۔ اِن لوگوں کا طرز زندگی وہ تاثر دیتا ہے جس کو تم بے حیائی کہہ رہے ہو۔ ہمارا میڈیا بھی سارا لبرل ہی ہے لہٰذا پوری دنیا میں غالب تاثر یہی جاتا ہے۔ وگرنہ امریکہ میں اکثریت ایسے لوگوں کی نہیں ہے۔ اگر تمہیں کبھی موقع ملے تو کسی امریکی ریاست کے چھوٹے شہروں میں جا کر عام لوگوں کی زندگی کا مشاہدہ کرنا۔ تمہیں حیرت ہو گی کہ وہ لوگ کتنے مختلف ہیں اُن لوگوں سے جن کو تم امریکہ کے نمائندہ سمجھتے ہو۔
پھر ایسا ہوا کہ کوئی سال بھر بعد مجھے کچھ دنوں کے لئے امریکی ریاست کنٹکی Kentucky جانے کا موقعہ ملا۔ وائس آف امریکہ کی ایک Touring Van تھی جس میں ریکارڈنگ وغیرہ کی سہولتیں تھیں۔ اس کو Voyager کہتے تھے۔ اس Van کو مرحلہ وار امریکہ کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانوں کی سروسز کے ملازمین کے ہمراہ بھیجا جاتا تھا تا کہ وہ وہاں موجود امریکی زندگی پر رپورٹیں بنا کر واشنگٹن بھیجیں اور اُن کو نشر کیا جائے۔
یہاں ہم سب سے پہلے Lexingten گئے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا Horse Museum ہے۔ پھر لوئی ول (Louisville) بھی گئے اور وہاں Churchil Downs بھی گئے جہاں سالانہ کنٹکی ڈربی کی ریسز ہوتی ہیں۔ یہ تمام علاقہ تھا تو اسی طرح ترقی یافتہ مگر بے حیائی یا جس کو میں بے حیائی کہتا تھا اس کی صورت وہ نیویارک یا واشنگٹن ڈی سی والی نہیں تھی۔ پھر ہم کو موقعہ ملا وہاں ایک ایسے مقام پر جانے کا جو بالکل دیہات کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس کا نام Pleasant Hill تھا۔ اس مقام کے گردونواح میں جو لوگوں کو دیکھا۔ اُن سے میل ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کس قدر مختلف ہیں اُن امریکیوں سے جو شہروں میں رہتے ہیں۔ انتہائی سادہ لوگ، چہرے پر دائمی مسکراہٹ اور لباس میں عریانیت نام کو نہیں۔ یہاں گرجا گھر میں بھی حاضری کافی زیادہ تھی۔ ویسے ہم وہاں سرکاری طور پر یہ کچھ دیکھنے نہیں گئے تھے بلکہ وہاں ایک مقام تھا جسے Shakers Town کہتے ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب مذہب کے ماننے والے لوگ ہوتے تھے جس کا آغاز Mary ANN LOU نامی کسی خاتون نے 1000ء میں یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑکا ہزار سال کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب خاتون اوتار Mary Aun کا شروع ہو گیا ہے۔ یہ لوگ شادی نہیں کرتے تھے اور لوگوں کے دھتکارے ہوئے بچے یا شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے پالتے تھے۔ یور پ میں اِن لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا لہٰذا یہ بھاگ کر امریکہ آ گئے تھے کیونکہ امریکہ میں ہر قسم کے مذہب کی آزادی تھی۔ اِن لوگوں کی عبادت یہ تھی کہ یہ زور ور سے ہلتے تھے جس کو Shaking کہتے تھے۔ ہم نے پورا ٹاؤن دیکھا جو محفوظ تھا۔ Shakers البتہ ختم ہو چکے تھے۔ وہاں ہمیں بتایا گیا کہ ایک یا دو Shaker ہیں جو کسی اور ریاست میں رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جس مذہب میں شادی کی اجازت نہ ہو وہ کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔
Shaker Town کی حفاظت پر مامور جو امریکی تھے ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے فخریہ بیان کیا کہ امریکہ وہ ملک ہے کہ جس نے اس قسم کا مذہب رکھنے والوں کو بھی جینے کا حق دیا اور مکمل وہ حقوق دیے جو دوسرے شہریوں کے تھے۔
اب اس پس منظر میں جب میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ امریکہ میں بے حیائی کی نمائندہ لبرل کلاس کے خلاف یہ اُن لوگوں کی بغاوت ہے جو معاشی طور پر پسماندہ رہ گئے ہیں اور اس لبرل کلاس کو اپنی معاشی پسماندگی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اُن کو اس سے غرض نہیں کہ ڈانلڈ ٹرمپ کس قدر بے حیائی کی نمائندگی کرتا ہے یا اس شخص نے امریکہ کے قیام کی بنیاد Freedom کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور یہ شخص مذہب کی اور نسل کی بنیاد پر تعصب پھیلا رہا ہے بلکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ بے حیائی کی نمائندہ اس لبرل کلاس کو ایسا شخص ہی سبق سکھا سکتا ہے۔ اِس انداز میں کہ اِن سے اِن کی معاشی آسودگی چھین کر وہ اُن لوگوں تک پہنچائے جو پسماندہ رہ گئے ہیں۔ ہو گا کیا؟ یہ تو تجزیہ کاروں کا کام ہے میرا نہیں۔