"ARC" (space) message & send to 7575

جنرل ضیاء الحق کی کچھ اسلامی باتیں

جنرل ضیاء الحق کا پہلا اسلامی رنگ میں نے اُس وقت دیکھا جب مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد پہلی مرتبہ وہ لاہور میں کسی سماجی تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ میں اس دور میں لاہور ریڈیو سٹیشن پر کرنٹ افیئرز سیکشن کا سینئر پروڈیوسر تھا۔ تقریب، جس میں ضیاء الحق تشریف لائے، فاطمہ میموریل ہسپتال کا افتتاح تھا۔ ہماری ساری پروگرامنگ بھٹو صاحب کے دور کی تھی اور غالباً فاطمہ میموریل ہسپتال کی انتظامیہ کا بھی یہی حال تھا لیکن ہوا یہ کہ ادھر وہاں عصر کی اذان ہوئی اور ادھر جنرل ضیاء نے لیفٹیننٹ جنرل اقبال کے کان میں کچھ کہا۔ وہ پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر کرنل صدیق سالک کے کان میں کچھ کہا۔ صدیق سالک اس وقت تک لیفٹیننٹ کرنل ہی تھے۔ صدیق سالک مرحوم نے منتظمین کو ایک طرف لے جا کر کچھ کہا اور ایک بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ پتہ چلا کہ جنرل ضیاء نے پوچھا ہے کہ عصر کی نماز کا اہتمام کہاں ہے۔ ہسپتال میں ایک لیبارٹری سے ملتا جلتا کمرہ تھا جہاں میزوں پر سفید چادریں بچھی تھیں۔ منتظمین نے جلدی جلدی چادریں اتاریں اور میزیں کونوں میں کر کے قبلہ رُخ چادریں بچھا دیں۔ یوں وہاں جنرل ضیاء الحق نے با جماعت نماز ادا کی۔
اس واقعے کے بعد تو سب ادارے چوکنا ہو گئے۔ وہ جس تقریب میں بھی جاتے اوقات کے حساب سے نماز کی جگہ مختص ہوتی۔ شروع شروع میں ایک روز مال روڈ سے ان کی گاڑی چھائونی کی طرف جا رہی تھی۔وہاں مال روڈ اور کینال بینک روڈ کے سنگم پر کونے میں جو خوبصورت مسجد واقع ہے اس پر جنرل صاحب نظر پڑی۔ اس کے بعد جب ان کی گاڑی میاں میر کا پل کراس کر کے چھائونی میں داخل ہوئی تو وہ یہ نوٹ کرنے لگے چھائونی میں بھی اسی طرح بڑے چوراہے پر کوئی مسجد ہے یا نہیں۔ جب دیکھا کہ نہیں ہے تو بقول ان کے سٹاف کے کچھ لوگوں کے جنرل ضیاء نے فوجی حکام سے فرمائش کی کہ چھائونی میں بھی ہونی چاہیے۔ غالباً میاں میر کے پل کے بعد پہلے چوراہے کے کونے پر جو مسجد ہے وہ جنرل ضیاء کی فرمائش پر ہی بنی تھی۔
جنرل ضیاء الحق جب ترکی کے دورے پر گئے تو ریڈیو کی طرف سے کوریج کے لیے ان کے ہمراہ ایک سینئر ساتھی سعید نقشبندی صاحب گئے۔ سعید نقشبندی مرحوم انتہائی نیک طبیعت اور اسلامی مزاج کے حامل تھے۔ کراچی ریڈیو سٹیشن پر مجھے یاد ہے کہ نقشبندی صاحب کے کمرے کو پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے سٹاف ممبر جماعت اسلامی کا دفتر کہتے تھے۔ نقشبندی صاحب مولانا مودودی سے ازحد عقیدت رکھتے تھے تاہم جماعت اسلامی سے ان کا باضابطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔ جانتے سب کو تھے۔ مولانا مودودی کا جب انتقال ہوا تو ریڈیو پر جو تعزیتی پروگرام پیش ہوا سعید نقشبندی صاحب نے ہی مرتب کیا تھا۔ تو جناب سعید نقشبندی صاحب راوی ہیں کہ ترکی میں ایک مرتبہ باجماعت نماز پڑھنے کے بعد ترکی میں اسلام کی صورتحال پر تھوڑی بات ہوئی تو جنرل ضیاء الحق کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ترکی میں اپنی تقریروں میں سیکولر لوگوں کو ناراض کیے بغیر طریقے سے اسلام کا ذکر کر دیا کریں۔ جس پر ضیاء الحق کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی اس بارے میں بہت سوچا ہے مگر وہ محسوس کر رہے ہیں کہ ترکی میں اسلامی سوچ آہستہ آہستہ نمو پا رہی ہے۔ اس صورتحال میں اگر براہ راست کوئی بات کی جائے تو وہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ سعید نقشبندی مرحوم کے بقول جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ ترکی کے عوام خود ہی اس طرف آئیں تو پھر صورتحال بدلے گی۔
اس لحاظ سے تو جنرل ضیاء کی پیش گوئی کافی درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن اسلام کی طرف مائل ہونے کے باوجود ترکی اب بھی ایک سیکولر ملک ہے، اور طیب اردوان کے اصلی عزائم کیا ہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ایک چیز البتہ واضح ہے کہ جو لوگ طیب اردوان سے ترکی میں اسلامی نظام کے نفاذ کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ امکان غالب ہے کہ مایوس ہی ہوں گے۔ترکی میں سیکولرازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
جنرل ضیاء کے دور میں ترکی کے صدر کنعان ایورن پاکستان کے دورے پرآئے تو اس دوران وہ لاہور بھی آئے۔ لاہور میں ان کو شاہی قلعہ بھی دکھایا گیا۔ شاہی قلعے میں ایک چھوٹی سی مسجد، جس کو غالباً موتی مسجد کہتے ہیں، اس دور کی یادگار کے طور پر موجود تھی۔ اس میں نماز کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ اب جناب ہمارے جنرل ضیاء کی پلاننگ دیکھیں۔ انہوں نے اس مسجد کو صاف کروا کے اور وہاں لائوڈ سپیکر وغیرہ لگوا کر انتظام کیا کہ جس وقت وہ ترک صدر کنعان ایورن کے ہمراہ مسجد کے قریب سے گزریں گے تو وہ ظہر کاوقت ہو گا اور مسجد سے اذان کی آواز بلند ہو گی۔ لہٰذا وہ ترک صدر کو نماز کا کہیں گے اور کنعان ایورن کو نماز پڑھوا دیں گے۔
سب کچھ سکیم کے مطابق ہوا۔ جس وقت اذان کی آواز آئی تو جنرل ضیاء نے کنعان ایورن کو نماز کی دعوت دی۔ مگر ترک صدر نے کہا: میں یہیں انتظار کرتا ہوں آپ پڑھ آئیں۔ اب جناب کیاہو سکتا تھا۔ جنرل ضیاء اور ان کے ہمراہ دیگر لوگ نماز کے لیے اس چھوٹی سی مسجد میں چلے گئے اور کنعان ایورن پروٹوکول کے کچھ لوگوں کے ہمراہ باہر انتظار کرتے رہے۔
نماز کے بعد جب جنرل ضیاء الحق مسجد سے باہر آئے اور دونوں اکٹھے روانہ ہوئے تو ان کے درمیان جو گفتگو وئی وہ ایک واقف حال کے بقول اس طرح تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے ایک آدھ جملے میں نماز کی اہمیت بیان کی تو کنعان ایورن نے پوچھا کہ اس کا فائدہ کیا ہوتا ہے جس کے جواب میں جنرل ضیاء نے کہا کہ گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اس پر کنعان ایورن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ''مگر میں نے تو کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں‘‘ ۔
جتنے واقعات میں نے تحریر کیے ہیں ان سے جنرل ضیاء الحق کی شخصیت کا اسلامی رنگ تو واضح ہوتا ہے لیکن اپنے اس رنگ میں مرحوم ایک حد تک ہی آگے بڑھتے تھے۔ اس حد کو سمجھنے کے لیے اچھی مثال ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سے جنرل ضیاء الحق کے تعلق کی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد کیا غضب کے مقرر تھے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول ڈاکٹر صاحب کا وعظ ایسے ہوتا ہے جیسا تیسواں پارہ بول رہا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن پاک کے تیسویں پارے میں زیادہ تر سورتیں انذار کی ہیں جو مکّی دور میں وہاں کفّار کو قیامت اور روز حساب کے نقشے اس انداز میں بتاتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔
ڈاکٹر اسرار کو جنرل صاحب شروع میں بہت پسند کرتے تھے اور پاکستان ٹیلی وژن پر 'الہدیٰ‘ پروگرام جنرل ضیاء الحق نے شروع کروایا تھا جس میں ڈاکٹر اسرار اپنے مخصوص انداز میں بہت پُر اثر تقریر کیا کرتے تھے۔ بعدازاں یہ پروگرام بند ہو گیا تھا۔ وجہ اگر جاننا چاہیں تو یاد کر لیں کہ پی ٹی وی سرکاری TVتھا اور ہے۔ سرکار کے زیر انتظام اداروں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ مجھے ریڈیو کا معلوم ہے کہ ایوب خان کے دور میں ہمارے بعض مذہبی سکالر سرکار کی فرمائش پر قرآن پاک ہی سے بنیادی جمہوریت کا نظام ثابت کر دیتے تھے۔ دوسری طرف ڈاکٹر اسرار اپنی قرآن کی فہم سے بال برابر انحراف کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ تو پروگرام بند ہی ہونا تھا۔
بہرحال ڈاکٹر اسرار کی جنرل ضیاء سے ملاقاتیں بھی رہیں۔ انہی کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار یہ بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ جنرل ضیاء اسلام کے نفاذ میں کس قدر سنجیدہ ہیں ان سے دریافت کیا کہ اگر آپ کو کبھی کسی صورت حال میں ایسا معلوم ہو کہ اسلام کا اور فوج کے ادارے کا مفاد الگ الگ ہے تو آپ کس طرف کھڑے ہوں گے تو ڈاکٹر اسرار کے بقول جنرل صاحب نے فوج ہی کی طرف جھکنے کا اشارہ دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں