بچھڑے ساتھیوں کا جب ذکر شروع ہو جائے تو پھر قلم روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ کالم لکھتے وقت ہوا اور یوں کالم ضرورت سے بہت زیادہ طویل ہو گیا ؛تاہم ایڈٹ کرتے وقت چھوٹا تو کر لیا گیا مگر ہمارے ساتھی نشاط انجم کا ذکر ادھورا رہ گیا۔
اتوار کے روزنشاط انجم کا چہلم تھا۔ وہ کنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے تھے ۔ انتہائی سادہ مزاج کے مالک تھے اور جس کسی سے گفتگو کرتے اس سے فوراً متفق ہو جاتے بھلے وہ شخص کچھ بھی کہہ رہا ہو۔ بعدازاں سوچ سمجھ کرکرتے وہی تھے جو ان کو کرنا ہوتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ریڈیو میں کام کرنے کے شوقین نوجوان ہمیشہ ان کے اردگرد رہتے تھے اس امید میں کہ نشاط صاحب ان کو چانس دیں گے۔ تاہم عرصے بعد جب کوئی نوجوان مایوس ہو جاتا اور ریڈیو کو برا بھلا کہنے لگتا تو اپنے مزاج کے مطابق اس پر بھی اس نوجوان سے اتفاق کر لیتے تھے ۔ نشاط انجم مرحوم کے اس مزاج کا فائدہ ان کے ایک افسر ضرورت سے زیادہ اٹھاتے تھے۔ کھانے کے وقت وہ نشاط انجم کو اپنے کمرے میں بلاتے اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد فرماتے''آج تو چکن کڑھائی کھانے کا دن ہے‘‘ نشاط بھائی عادت کے مطابق فرماتے''بالکل‘‘ ساتھ ہی اس افسر کا ایک چالاک چپراسی حاضر ہو جاتا اور نشاط انجم سے رقم طلب کرتا کہ چکن کڑھائی لانی ہے۔ اس عمل کے دوران وہ افسر ٹیلی فون اٹھا کر کسی سے بات چیت میں مصروف ہو جاتے اورنشاط انجم کی طرف دیکھتے تک نہیں تاوقتیکہ نشاط انجم چپڑاسی کو رقم دے دیتا۔ اس کے فوراً بعد وہ افسر فون رکھ کر نشاط صاحب کی دریا دلی اور سخاوت کی تعریفیں شروع کر دیتے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے نشاط انجم صورتحال پر صبر کر کے مسکرانے لگتے۔
گھریلو زندگی میں بھی نشاط انجم کو بے مثال صبر کا مظاہرہ کرنا پڑا۔ جس خاتون کے ساتھ شادی ہوئی وہ بیچاری جوانی ہی میں ایک حادثے کا شکار ہوکر ایک ٹانگ کھو بیٹھی۔ ہمارے نشاط بھائی زندگی بھر اس عورت کی خدمت ہی کرتے رہے۔ اللہ نے اولاد سے بھی محروم رکھا۔ اب ان کی بیگم نشاط انجم کو کتنا یاد کرتی ہوں گی‘ اس کا اندازہ لگانا محال ہے۔
ریڈیو میں جو میرے ساتھی میرے انتہائی قریبی دوست تھے اور اب اس دنیا میں نہیں ہیں ان کے بارے مجھ سے کچھ لکھا نہیں جاتا۔ میں جونہی قلم اٹھاتا ہوں تو ان یادوں میں کھو جاتا ہوں جو انتہائی بے ترتیبی سے ذہن میں آتی ہیں۔ آج کوشش کرتا ہوں کہ ایک قریبی دوست کے بارے میں جو ذہن میں آتا جا رہا ہے اس کو اسی طرح لکھ دوں۔
یہ میرے دوست تھے جمیل ملک۔ ان کی ٹیلی وژن کے ڈرامے لکھنے کی شہرت بھی تھی اور بطور ایکٹر بھی لیکن وہ دراصل ریڈیو کے آدمی تھے۔ میری پہلی ملاقات جمیل ملک سے کراچی میں 1968ء کے آخر میں ہوئی۔ سٹاف ٹریننگ سکول میں وہ کوئٹہ سے ٹریننگ پر آئے تھے اور میں بھی اس کورس کا حصہ تھا۔ اس زمانے میں ریڈیو کو کارپوریشن بنانے کی مہم چل رہی تھی۔ کراچی میں ایک بڑے اجلاس کا اہتمام کیا گیا جس میں ٹریننگ کے لیے جو پروڈیوسر جس سٹیشن سے کراچی آیا تھا اس کو اسی سٹیشن کا نمائندہ قرار دے کر اجلاس میں بٹھا دیا گیا اور قرار داد پاس کر دی کہ اگر ریڈیو کوکارپوریشن نہ بنایا گیا تو ہم راست اقدام کر دیں گے۔
اس قرار داد کے بعد ملک صاحب کراچی ریڈیو سٹیشن پر میرے کمرے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اورساتھ ہی سگریٹ بھی۔ کہنے لگے یار میں نے ہسٹری تو نہیں پڑھی مگر 1940ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا جو جلسہ ہوا تھا اور جس میں پورے ہندوستان سے نمائندے آئے تھے وہ اسی طرح تو نہیں ہوا ہو گا کہ جو جس شہر سے لاہور کسی کام سے آیا ہو‘ اس کو پکڑو اور وہاں کا نمائندہ بنادو۔
یہ تھا ہمارے ملک صاحب کا سوچنے کا انداز۔ ہمیشہ ایسی بات کرتے جو معمول سے ازحد مختلف مگر دلچسپ ہوتی۔ پھر ہوا یہ کہ 1971ء میں میرا کراچی سے اور ملک صاحب کا کوئٹے سے لاہور ٹرانسفر ہو گیا اور ہم ایک سٹیشن پر کام کرنے لگے۔ یوں برسوں کی رفاقت شروع ہوئی جس کا ذکر میں کسی ترتیب سے کرنے سے قاصر ہوں۔ بس ملک صاحب کی باتیں یاد آتی رہتی ہیں اور باتیں کرنے کے ملک صاحب شوقین بھی بہت تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اقبالیات کے ایک ماہر افسر کاانٹرویو کرنا تھا۔ جن کا انٹرویو طے ہوا تھا وہ بہت ہی بڑے افسر تھے ہمارے ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کبھی ان کے شاگرد رہ چکے تھے۔ لہٰذا اس بڑے افسر نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اقبال پر لیکچر دینا چاہتے ہیں تو ڈائریکٹر جنرل کا حکم لاہور پہنچ گیا ۔ ملک صاحب کی ڈیوٹی لگی۔ وہ بڑے افسر تشریف لائے تو ملک صاحب سے گفتگو شروع ہو گئی۔ کوئی گھنٹہ بھر دونوں گفتگوکرتے رہے۔ جب سٹوڈیو میں ریکارڈنگ کے لیے گئے تو ملک صاحب ان سے کوئی سوال پوچھیں تو وہ بڑے افسر کہیں''وہاںکمرے میں آپ کو تفصیل سے بتا تو دیا تھا‘‘ان کو بتایا گیا کہ وہاں ریکارڈنگ تو نہیں ہو رہی تھی۔ تو وہ بولے تو آپ کو چاہیے تھا‘پہلے سٹوڈیو میں لے آتے مجھے۔ اب میں سب کچھ دوہرا نہیں سکتا۔ میں پھر کسی دن آئوں گا تو ریکارڈنگ کریں گے۔ ایک ہفتے بعد وہ افسر ریکارڈنگ کے لیے آئے توملک صاحب سے کہا''کیا حال ہے‘‘ ملک صاحب بولے۔ اس کا جواب بھی میں اندر سٹوڈیو میں بیٹھ کر دوں گا۔ اور دونوں ہنسنے لگے۔ لگتا ہے کالم کی ضخامت پوری ہو چکی ہے۔ اب اگر میں نے مزید کچھ تحریر کیا تو وہ لازماً ایڈیٹنگ کی نذر ہو جائے گا۔ لہٰذا ملک صاحب کا باقی تذکرہ پھر کبھی سہی۔