"ARC" (space) message & send to 7575

ریڈیو کی ایک باغ و بہار شخصیت

گزشتہ کالم میں ساٹھ کی دہائی میں جو ریڈیو کراچی کی رونقیں تھیں‘ ان کا تھوڑا ذکر کیا تو بہت سے مناظر ذہن میں تصویروں کی شکل میں ابھرے، ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر ہوتے تھے طاہر شاہ صاحب‘ رنگ محل لاہور کے رہنے والے تھے، کراچی سٹیشن پر بھی زیادہ تر گفتگو پنجابی میں ہی کرتے تھے اور سب لطف اندوز ہوتے تھے۔ ان کی پنجابی کا کوئی لفظ کسی سمجھ میں نہ آئے تو اکثر مجھے سے پوچھا جاتا تھا کیونکہ میں لاہور سے گیا ہوا تھا۔ میرے ساتھ لاہور سے ایک پروگرام پروڈیوسر وہاں تعینات ہوئے تھے‘ وہ میرے بہت عزیز دوست بھی تھے؛ مشتاق ہاشمی۔ وہ لاہور ریڈیو میں تعینات عبدالشکور کے بھائی تھے اور یہ دونوں مشہور بھارتی میوزک ڈائریکٹر خیام کے سوتیلے بھائی تھے۔ مشتاق ہاشمی تھوڑا عرصہ ریڈیو میں رہے‘ پھر ان کو پی آئی اے میں نوکری مل گئی اور پھر وہ تمام عمر اسی محکمے کی خدمت مختلف ملکوں میں کرکے ریٹائر ہو کر ڈیفنس لاہور میں آ ٹکے اور پھر انہیں رب نے بلا لیا۔ وہ بہت سریلے تھے مگر گانے سے کتراتے تھے‘ پتا نہیں کیوں۔ ٹی وی پر ڈاکٹر امجد پرویز کے ہمراہ ان کا گایا پنجابی گیت ''سجنا او رک جانا مروے چل میلے تے چلیے‘‘ اب بھی لوگوں کو یاد ہوگا۔ طاہر شاہ صاحب کی پنجابی میں آنے والے مشکل الفاظ کے سلسلے میں مقامی لوگوں کی وہ بھی رہنمائی کرتے تھے۔ ایک دن مجھے کہنے لگے: شاہ جی کو اچھی خاصی اردو آتی ہے مگر دو جملے اردو کے بول کر ٹریک بدل لیتے ہیں اور پنجابی میں شروع ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا: پھر؟ بولے: میں کسی دن کہہ دوں گا ان سے کہ لوگوں کو یہاں ان کی بات پوری سمجھ نہیں آتی۔ تھوڑے دنوں بعد ہنستے ہوئے شاہ جی کے کمرے سے نکلے۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ بولے: میں نے ہمت کرکے کہہ دیا۔ میں نے پوچھا: ناراض نہیں ہوئے کیونکہ تم تو ہنستے ہوئے کمرے سے نکلے تھے۔ بولے:۔ نہیں! مجھے قریب بلایا اور کہنے لگے کہ ''میں کہیڑا کوئی افلاطون آں‘ گل سمجھ گئے تے ٹھیک‘ نئیں سمجھے تاں ویں ٹھیک‘ ہن میرے منہ چوں نکلدی پنجابی اے تے میں کی کراں۔(یعنی میں کون سا افلاطون ہوں‘ بات سمجھ گئے تو ٹھیک‘ نہ سمجھے‘ تو بھی ٹھیک۔ اب میرے منہ سے نکلتی پنجابی ہے‘ میں کیا کروں)۔
پروگرام میٹنگ ہوتی تھی صبح نو بجے۔ بیس فیصد سے زیادہ لوگ نہیں آتے تھے اس وقت تک‘ شاہ جی البتہ وقت پر آتے تھے۔ آہستہ آہستہ لوگ آتے جاتے اور کوئی دس بجے تک سٹاف کی اکثریت پہنچ پاتی تھی۔ شاہ جی صبح نو بجے‘ ہی جو تھوڑے سے لوگ آئے ہوتے تھے‘ ان کو ڈانٹنا شروع ہو جاتے تھے۔ انگریزی میں شروع کرتے تھے: Gentlemen program meeting is very important in broadcasting. Punctuality must be observed۔ بس اتنی انگریزی‘ اس کے بعد اردو میں! بھئی ہوا دس بیس منٹ لیٹ ہو گئے۔ اس کے بعد وہ پنجابی میں شروع ہو جاتے کہ؛ ایہہ کی ہویا کہ منہ چک کے دس بجے ٹرے آندے او( یعنی یہ کیا ہوا کہ دس بجے منہ اٹھائے چلے آ تے ہیں)۔ اس کے بعد پھر کبھی اردو‘ کبھی انگریزی کبھی پنجابی۔ مگر زیادہ پنجابی۔
ہمارے ایک ساتھی پروڈیوسر ہوتے تھے عرفان علی۔ وہ مشہور معروف ادیب محمد علی ردولوی کے صاحبزادے تھے۔ صاحب کو صائب بولتے تھے۔ وہ نو بجے میٹنگ میں آکر شاہ جی کی تین زبانوں میں ڈانٹ ڈپٹ سن کر ایک روز بول اٹھے: صائب آپ ہم کو ڈانٹتے ہیں‘ ہم تو وقت پر آئے ہوئے ہیں، جو لیٹ آتے ہیں ان کو میٹنگ کے آخر میں ڈانٹا کریں۔ شاہ جی نے ادھر ادھر دیکھا اور بولے: ایہہ منڈا گل ٹھیک کر ریا اے۔ آن دے اج ایناں ساریاں نوں۔ (یہ لڑکا بات ٹھیک کر رہا ہے۔ آنے دیں آج ان سب کو)۔میٹنگ میں کافی لوگ آ گئے تو اب ہم لوگ انتظار میں تھے کہ شاہ جی اپنا وعدہ پورا کریں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، لہٰذا عرفان علی گویاہوئے: صائب سب آ گئے ہیں۔ شاہ جی نے اس کی طرف دیکھا اور بولے: عرفان علی اوئے توں اج بادام کھا کے آیا ایں‘ گل تینوں بھلدی نئیں۔( عرفان علی! تم کیا آج بادام کھا کے آئے ہو‘ بات تمہیں بھولتی نہیں)۔ یہ تھے ہمارے شاہ جی۔ ایک مرتبہ براہِ راست پروگرام نشر ہو رہا تھا۔ وہ دو ٹیپوں پر تھا‘ ایک ٹیپ ختم ہوئی اور دوسری چل گئی۔ شاہ جی کو پتا نہیں کیا خیال آیا کہ پروگرام ختم ہو گیا ہے۔ وہ آگے بڑھے اور براہِ راست نشر ہونے والی ٹیپ کے ریکارڈر کا سٹاپ بٹن دبا دیا۔ خیر پینل پر بیٹھے سٹاف ممبر نے جلدی سے دوبارہ ٹیپ چلا دی لیکن پروگرام میں تھوڑا سا وقفہ آ گیا۔ اس پر شاہ جی کا ردعمل سنیے‘ وہیں کھڑے کھڑے بولے: آپ لوگوں کو ہزار مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ جب سٹوڈیو میں کوئی اہم کام ہو رہا ہے تو مجھے وہاں نہ آنے دیا کرو۔ یہ سٹیشن ڈائریکٹر کہہ رہا تھا۔ بڑے مزے کے آدمی تھے۔
ریڈیو پربھانت بھانت کے لوگ آ جاتے تھے‘ جن سے شاہ جی خوب نمٹتے تھے۔ ایک مشہور صاحب کا ایک بیٹا تھاجس نے شفاف تحریک چلائی ہوئی تھی۔ یعنی شفاف اس کی تحریک کا نام تھا اور وہ کہتا تھا کہ جو جینئس ہوگا اس کو ہم ایک لاکھ روپے انعام دیں گے۔ جب پوچھا جاتا کہ اتنی رقم ہے آپ کے پاس تو بولتے: نہیں‘ جو جینئس ہوگا اس سے ہم ایجادات کروائیں گے اور اس سے جو رقم آئے گی اس میں سے لاکھ روپیہ اس کو دیں گے۔ ایک دن وہ ریڈیو سٹیشن آ گیا اور طاہر شاہ صاحب سے مل کر ان کو کہا کہ وہ ریڈیو پر اس کی تحریک کو پبلسٹی دیں۔ اس کے بعد وہ ایک کاغذ نکال کر اپنی تحریک کے مقاصد پڑھنے لگا۔ شاہ جی میں تحمل بہت تھا۔ وہ کچھ دیر سنتے رہے‘ پھر اس سے کچھ سوال کیے کہ رقم وغیرہ کہاں سے آئے گی۔ اس نے وہی جواب دیا۔ اس پر شاہ جی کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ انہوں نے اس سے کہا کہ سب لوگ کہتے ہیں کہ یہ تحریک پیسے بنانے کیلئے بنائی گئی ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ وہ شخص بالکل دیوانہ ہو گیا اور زور زور سے کہنے لگا جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے پیسے بنانے کیلئے تحریک چلائی ہے...(اس کے بعد گالیوں کی بوچھاڑ)۔ جب وہ خاموش ہوا تو شاہ جی بولے: تمہارے اپنے دماغ میں گندگی بھری ہوئی ہے اور تم شفاف تحریک چلا رہے ہو‘ چلے جائو یہاں سے۔
دفتروں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سٹاف ممبر سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس سے تحریری طور پر پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں وارننگ جاری کی جاتی ہے۔ غلطیاں اس دور میں بھی ہوتی تھیں مگر شاہ جی تحریری پوچھ گچھ کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی کبھی انہوں نے کسی کو وارننگ وغیرہ جاری کی۔ بس زبانی غلطی کرنے والے سٹاف ممبر کو اس قدر شرمندہ کرتے تھے کہ اس کا جینا محال ہو جاتا تھا۔ میٹنگ میں بھی غلطی کا ذکر، الفاظ اس قسم کے ہوتے تھے: اس کو دیکھو اتنا سینئرسٹاف ممبر ہے اور دیکھیں کیا گند ڈالا ہے۔ دن بھر جس کمرے میں جاتے‘ وہی داستان دہراتے۔ شاہ جی کے اس رویے کی وجہ سے لوگ اپنے تیار پروگرام کو کئی کئی بار سنتے کہ کہیں کوئی سقم نہ رہ جائے‘ اگر کہیں ایسا کچھ ہو گیا تو شاہ جی تماشا بنا دیں گے۔ ایڈمنسٹریشن کا یہ انداز میں نے کسی ریڈیو سٹیشن پر نہیں دیکھا۔
شاہ جی کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ سٹیشن پر جو دعوت نامے آتے تھے ان کا جائزہ لیتے تھے اور جہاں ان کو خیال ہوتا کہ کھانے کا اہتمام ہوگا وہاں پروڈیوسر کے ہمراہ بطور سپروائزر چلے جاتے۔ سارا شہر ان کو جانتا تھا۔ ہمارے ایک سٹاف ممبر کے ولیمے میں سٹاف کے سب لوگ موجود تھے، کسی اہم مہمان کا انتظار ہو رہا تھا اور کھانا کھلنے کا اشارہ تک نہیں ہو رہا تھا۔ کھانا سامنے ہو تو برداشت کا مظاہرہ شاہ جی سے ہو نہیں پاتا تھا۔ تین پروڈیوسروں کو بلوایا اور سرگوشی کے انداز میں کہا کہ تم لوگ تین کونوں میں چلے جائو اور جب میں جیب سے رومال باہر نکالوں تو سب یکدم یہ کہتے ہوئے آگے بڑھنا کہ چلیں! کھانا کھل گیا ہے۔ بس جناب رومال نکلا اور لوگ ٹوٹ پڑے۔ میزبان پریشان۔ بڑی مشکل سے انہوں نے ایک میز اپنے اہم مہمان کیلئے بچائی۔ کالم کی جگہ ختم ہو گئی مگر شاہ جی کی باتوں کا ابھی ایک فیصد بھی نہیں پیش کر پایا۔ کیا باغ و بہار شخصیت تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں