نومبر1982ء میں جنرل ضیاء الحق نے پانچ ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ پہلے وہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں چند گھنٹوں کیلئے رکے‘ صدر گیانی ذیل سنگھ اور وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملاقاتیں کیں۔ وہاں سے وہ بنکاک پہنچے‘ رات تھائی لینڈ میں گزاری‘ پھر اگلے دن انڈونیشیا کا کچھ دنوں کا دورہ شروع ہوا، پھر ملائیشیا گئے اور وہاں کا دورہ ختم کرکے سنگا پور پہنچے۔ اس دورے میں ریڈیو کوریج کیلئے میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ میرے ساتھ شعبۂ نیوز کے ڈپٹی کنٹرولر نثار شیخ صاحب تھے مگر ان کے ذمے خبریں بھیجنا تھا۔ میرے ذمے ہر فنکشن کی ریکارڈنگ کرنا اور پھر اس تمام ریکارڈنگ پر مبنی ریڈیو رپورٹ تیار کرنا اور اس کو پاکستان میں کراچی سٹوڈیوز میں فیڈ کرنا تھا‘ جہاں سے وہ قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہوتی تھی۔ ہمارے دفتر والوں نے اس فیڈ کیلئے ٹیلی فون سرکٹ رات بارہ بجے سے ایک بجے تک کیلئے بک کیا ہوتا تھا۔ جب کبھی رپورٹ تیار کرنے کا وقت کم ہوتا تو ریکارڈنگ کو اسی طرح فیڈ کر دیتا تھا اور رپورٹنگ بھی اپنی آواز میں ساتھ ہی فیڈ کر دیتا تھا۔ کراچی میں ڈیوٹی پر موجود سٹاف ایڈٹ کرکے رپورٹ بنا لیتا تھا۔
مجھے زندگی میں کبھی اتنی تھکن محسوس نہیں ہوئی‘ جتنی ان تیرہ دنوں کے دورے میں ہوئی تھی۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کا معمول یہ تھا کہ علی الصباح انہوں نے کوئی نہ کوئی مصروفیت رکھی ہوتی تھی، بھلے وہ نامعلوم فوجی کی قبر پر حاضری اور سلامی ہو یا کسی تنصیب کا دورہ‘ ان کی مصروفیات رات عشائیے پر ختم ہوتی تھیں اور ہر جگہ وہ تقریر کرتے تھے۔ میری مصروفیت عشایئے کے بعد بھی جاری رہتی کیونکہ رات بارہ سے ایک بجے تک مجھے رپورٹ بھیجنا ہوتی تھی۔ میں ڈیڑھ‘ دو بجے ہوٹل پہنچتا تھا اور تھوڑی دیر ہی سو پاتا تھا کیونکہ جنرل صاحب صبح صبح تیاری پکڑ لیتے تھے۔ میں کوئی فنکشن مس نہیں کر سکتا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کی دو ٹیمیں مصلح الدین مرحوم کی قیادت میں اس دورے میں ساتھ تھیں ۔ دو کمرہ مین‘ ایک یا دو لائٹ مین اور ممکن ہے ایک دو کارندے سامان وغیرہ اٹھانے کیلئے بھی ہوں۔ مصلح الدین سے میری پرانی جان پہچان تھی۔وہ میری حالت پر ترس کھا کر کہتے تھے: یار آپ کے ساتھ ایک بندہ تو اور بھیجنا چاہئے تھا۔ الطاف حسن قریشی اور مقبول جہانگیر مرحوم بھی حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ کس طرح تنہا ساری کوریج کر لیتے ہو۔ بعد میں اپنے کالموں میں انہوں نے میری اس حالت کا ذکر بھی کیا۔ ٹی وی کی ٹیم میں لوگ زیادہ تھے، مگر مصروف وہ بھی بہت تھے کیونکہ ان کے کام میں تصویر اور آواز بھی شامل تھی اور کوئی فنکشن وہ بھی مس نہیں کر سکتے تھے۔
جنرل صاحب نے سب پر ایک پابندی لگا رکھی تھی کہ سب قومی لباس یعنی شیروانی پہنیں گے۔ اگرچہ نومبر کا مہینہ تھا مگر انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگا پور اور تھائی لینڈ میں اس قدر حبس کی فضا تھا کہ شیروانی کے اندر ہم پسینے سے بھیگ جاتے تھے۔ آخر ایک دن مصلح الدین سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کھل کر کہہ دیا کہ یا کام کروا لیں یا شیروانی پہنوا لیں۔ اس پر شلوار قمیص اور واسکٹ کی اجازت مل گئی جس سے کچھ آسانی پیدا ہوئی۔ یہ تو میں ان کا ذکر کیا جو ڈیوٹی نبھانے میں تھک کر چور ہو جاتے تھے لیکن ایسے دوروں میں جو پریس کی اہم شخصیات ساتھ جاتی ہیں‘ ان کے مزے ہوتے ہیں۔ اکثر صورتوں میں انہوں نے واپس جا کر اپنے تاثرات اخباروں میں لکھنے ہوتے تھے اور اگر کوئی بڑی پیشرفت ہو جائے تو فون پر پاکستان میں اپنے رپورٹر کو خبر لکھوا کرفارغ ہو جاتے تھے۔ ہمارے ساتھ مرحوم اے ٹی چودھری بھی تھے۔ انہوں نے ایک جگہ گالف کھیلنے کی فرمائش کی؛ تاہم جب پتا چلا کہ کتنی رقم یہ شوق پورا کرنے پر خرچ ہو گی تو ارادہ بدل دیا۔ مرحوم عارف نظامی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ وہ باقاعدگی سے اپنے اخبار کو خبریں بھجواتے تھے۔ اس دورے کے دوران کہیں ہم سٹیٹ گیسٹ یعنی سرکاری مہمان ہوتے تھے اور کہیں ہمیں اپنا ڈیلی الائونس خرچ کرنا پڑتا تھا۔ ایک صاحب شرارت یہ کرتے تھے کہ جہاں ہم سٹیٹ گیسٹ ہوتے‘ وہاں افواہ اڑا دیتے کہ خرچہ اپنا اپنا ہے‘ اور جہاں اپنا خرچہ کرنا ہوتا وہاں ایسے ہی بلند آواز میں کہہ دیتے کہ ہمیں سٹیٹ گیسٹ بنا دیا ہے یہاں۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ جو ساتھی تصدیق نہیں کرتے تھے‘ ان کا نقصان یوں ہوتا کہ جہاں وہ اپنے آپ کو سرکاری مہمان سمجھ کر خوب کھاتے پیتے تھے‘ وہاں بھاری بل دینا پڑتا تھا ۔
اب دورے کی مختصر داستان‘ بھارت میں ہم محض چند گھنٹے رکے۔ پہلے اشو کا ہوٹل لے جائے گئے۔ باقی لوگوں کو چھوڑ دیا گیا مگر ریڈیو اور ٹی وی کی ٹیمیں اور کچھ رپورٹرزوغیرہ کو راشٹر پتی بھون لے جایا گیا جہاں صدر مملکت کی گیانی ذیل سنگھ سے مختصر ملاقات ہوئی۔ ہم سب کچھ فاصلے پر کھڑے رہے۔ بھارتی صدر جنرل ضیا کو دو بھائیوں کی کوئی کہانی سنا رہے تھے جو ناراض ہو کر الگ ہو گئے‘ پھر صلح ہو گئی اور دوبارہ مل گئے۔ جنرل ضیا یہ سب خاموشی سے سنتے رہے۔ اس کے بعد ان کا لنچ تھا‘ اندرا گاندھی کے ساتھ۔ ہمیں وہاں نہیں لیجایا گیا اور ہم واپس آ گئے۔ جب ہم وہاں سے ہوائی جہاز میں روانہ ہو گئے تو ہمیں اس ملاقات کے بارے میں بریفنگ میں بتایا گیا، کرنل سالک ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔ میں نے اس بریفنگ کی رپورٹ بنکاک سے جا کر فیڈ کی۔ بنکاک میں جنرل صاحب نے وہاں موجود پاکستانیوں سے ملاقات کی۔ یہ عجیب ملاقات تھی۔ جنرل صاحب کوئی دس منٹ بولے‘ اس کے بعد وہاں پاکستانیوں نے ان پر شدید تنقید شروع کر دی۔ انہیں منہ پر غاصب کہا‘ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا مگر وہ یہ سب سنتے رہے۔ میں نے غور سے دیکھا مگر ان کے چہرے پر کسی قسم کی بدمزگی کے آثار نہیں تھے۔ ایک پاکستانی جو بہت تنقید کر رہا تھا‘ اس کو مخاطب کرکے جنرل صاحب نے کہا: میں آپ کو ٹکٹ دیتا ہوں‘ پاکستان آئیں اور آکر خود دیکھیں کہ لوگ کتنے خوشحال ہیں۔ وہ شخص ہنسنے لگا اور بولا: اچھی چال ہے آپ کی۔ اس پر سب ہنس دیے اور یہ میٹنگ ختم ہو گئی۔
اس کے بعد ہم جکارتہ پہنچے۔ وہاں بہت مصروفیات رہیں۔سوہارتو بھی جرنیل تھے اور عرصہ دراز سے حکمران تھے، ظاہر ہے جنرل ضیا ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے کیونکہ ان کو تو ابھی اقتدار میں آئے پانچ برس ہی ہوئے تھے۔ ملائیشیا جب ہم پہنچے تو یہ دورے کا وہ حصہ تھاجس سے میں بہت متاثر ہوا۔ مہاتیر بن محمد کے اقتدار کا ایک طرح سے آغاز تھا مگر وہ گورننس کے معاملات میں اس قدر سنجیدہ تھے کہ ہر شعبے میں بریفنگ کیلئے ٹیمیں تیار کی ہوئی تھیں۔ سارے انتظامات میں سادگی نمایاں تھی۔ پتا نہیں ہمارے لوگ کیسے ہیں۔ وہاں تاثر دیتے کہ بہت کچھ سیکھ‘ سمجھ رہے ہیں مگر واپس آکر کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ ایسا ہی سنگا پور میں ہوا، وہاں لی کوآن یو جو انقلاب لائے تھے‘ اس کی سٹڈی کیلئے متعلقہ عہدیدار بھی ساتھ تھے۔ ان کی مشترکہ میٹنگز بھی ہوئیں‘ ہمیں بریفنگ بھی بڑی مؤثر ملتی تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ واپس جا کر مشیروں میں ڈسپلن اس طرح نافذ ہوگا، مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔ سنگا پور میں مصروفیات ابھی جاری تھیں کہ خبر ملی سوویت صدر برزنیف اس دنیا میں نہیں رہے۔ جنرل ضیا پی آئی اے کا ڈی سی ٹین (DC-10) جہاز‘ جو مسلسل ہمارے ساتھ تھا‘ لے کر سوویت صدر کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے چلے گئے۔ دو دن بعد پی آئی اے کی فلائٹ سنگا پور آنا تھی جس سے ہم واپس پاکستان جا سکتے تھے۔ بس ان دو دنوں میں جی بھر کے شاپنگ کی۔ مجھے بھی اور ہمارے ٹی وی کے ساتھیوں کو بھی سکھ کا کچھ سانس ملا۔ ایسے دوروں سے کیا حاصل ہوتا ہے‘ مجھے سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ مصلح الدین مرحوم نے یہ بات کی تھی جو سنتے ہی مجھے کلی اتفاق ہوا۔ جب کسی نے یہ کہا: چلو سیر سپاٹا ہی سمجھ لیں‘ تو میں نے دل میں سوچا کہ برزنیف کی موت واقع نہ ہوتی تو مجھے تو دو دن کا سیر سپاٹا بھی میسر نہیں ہونا تھا کیونکہ ہر روز مسلسل بیس گھنٹے کام کرنا، بھلے وہ دوسرے ملک میں ہو‘ سیر سپاٹا تو نہیں کہلا سکتا۔