آج کل ٹرانس جینڈر کی اصطلاح عام سنی جا رہی ہے‘ اس کی بڑی وجہ ان کے حقوق سے متعلق ایک قانون کی منظوری ہے۔ جس ملک میں عوام کے حقوق کا یہ عالم ہے کہ غربت اور افلاس کے ہاتھوں ہر روز خود کشی کے واقعات ہوتے ہیں، مائیں بچوں سمیت دریا میں کود جاتی ہیں کہ وہ ان کو بھوکا دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکی ہوتی ہیں، اس معاشرے میں ایسی کمیونٹی کے حقوق کو مسئلہ بنانا ایک عجیب سی بات لگتی ہے۔ ابھی تک اگرچہ ہمیں ایسے افراد کی درست تعداد تک معلوم نہیں لیکن یہ سب کو پتا ہے کہ یہ بہت کم ہے۔ خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈرز‘ کبھی آپ نے نہیں سنا ہو گا کہ غربت و افلاس کے ہاتھوں اتنے پریشان ہوئے کہ نوبت خود کشی تک آ پہنچی۔ ان کے کھانے کے طریقے سب کو معلوم ہیں اور اس کمیونٹی کا منشیات کے عادی لوگوں اور جرائم پیشہ افراد سے تعلق بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اس لیے اس کمیونٹی میں خود کشی کے بجائے قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں۔
حیاتیاتی سائنس یہ بتاتی ہیں کہ ان لوگوں میں ہارمونز کا عدم توازن ہوتا ہے جس سے ان کی شخصیت اس طرح کی ہو جاتی ہے۔ مغرب میں تو جب سے ہم جنس پرستوں کی تنظیم مضبوط ہوئی ہے‘ یہ لوگ اس میں مدغم ہو چکے ہیں۔ اٹلی میں البتہ اب جو قیادت برسر اقتدار آئی ہے‘ وہ خاندان کے ادارے کو مضبوط کرنے پر زور دیتی ہے اور بظاہر مخصوص مغربی تنظیموں سے دور دکھائی دیتی ہے۔ باقی تقریباً تمام مغربی ملکوں میں ان لوگوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ اٹلی میں بھی یہ لوگ کسی ا متیاز کا شکار نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنی قانون سازی کر لیں‘ ان کی کھپت اس طرح ممکن نہیں جیسے بیشتر مغربی ملکوں میں ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور آج کل اس کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے۔ دین میں ٹرانس جیندر یعنی خواجہ سرائوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ان کا جسمانی رجحان جس طرف ہو‘ ان کو اسی کیٹیگری میں رکھا جائے یعنی میل یا فی میل۔ لیکن اس کے باوجود ایک درمیانی صنف کے طور پر یہ معاشرے میں ہمیشہ سے موجود ہیں اور یہ سب کو معلوم ہے۔ کوئی خطہ ان سے خالی نہیں۔ مغل بادشاہوں کے دور میں تو خواجہ سرائوں کی رسائی وہاں تک تھی جہاں تک عام عوام سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمارے ہاں خواجہ سرائوں کی شناخت کا قانون تو پہلے ہی نافذ العمل ہے‘ اب ٹرانس جینڈر قانون بن گیا ہے۔ ہماے ہاں پیدائشی طور پر کوئی نابینا پیدا ہوتا ہے تو کوئی بچہ شروع سے ہی سماعت سے محروم ہوتا ہے۔ کسی کو رب نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں دی ہوتی۔ ان سب کو صدیوں سے ہمارے معاشروں نے قبول کیا ہے مگر معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر ‘ جو بچہ ہارمونز کے عدم توازن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے‘ اس کو ''ایلین‘‘ سمجھ کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
پہلے تو جو ٹرانس جینڈر تھے اپنی مخصوص کمیونٹیوں میں رہتے تھے لیکن اب پوری دنیا میں کمیونٹی حقوق کی جس لہر نے جنم لیا ہے اس کے اثرات ہمارے ہاں بھی پہنچے ہیں۔ یہ ایک معاشرتی عمل ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے معاشرتی طریقہ اختیار کرنا ہو گا۔ مغربی معاشروں میں ٹرانس جینڈرز کی جو تعریف کی جاتی ہے‘ وہ ہماری معاشرتی اقدار کے علاوہ دینی تعلیمات سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ دین میں تو بہت سی چیزیں جائز نہیں لیکن ہمارے ہاں عام ہیں۔ جیسے جھوٹ، غیبت بہتان طرازی اور حق تلفی۔ آپ گنتے جائیں‘ یہ سلسلہ دور تک جاتا ہے۔ سود کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اخباروں کی زینت بنتا رہتا ہے۔ نہایت شرم کی بات ہے کہ ہم خود کو اسلامی معاشرہ باور کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بہرحال سب نے اپنے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کو خود دینا ہے اس لیے ہم کسی کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کرنے پر مامور نہیں کیے گئے۔ زیادہ تر مبلغین بھی اختلافی و نزاعی مسائل سے دور ہی رہتے ہیں۔
بات ٹرانس جینڈرز کی ہو رہی تھی۔ یہ خواجہ سرائوں سے کس طرح مختلف ہیں‘ یہ بات معاشرے میں پوری طرح واضح نہیں ہے۔ خواجہ سرائوں کے بارے میں ایک قانون تو پہلے ہی موجود ہے مگر اب ٹرانس جینڈر کے لیے الگ قانون بنا ہے تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ بھی ہو گی۔ خواجہ سرا مخنث کے نام سے صدیوں سے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
لوگ مذاق میں یہ بھی کہتے ہیں کہ مردانہ ، زنانہ اور درمیانہ۔ خواجہ سرائوں میں کچھ لوگ خواہ مخواہ بھی گھس جاتے رہے ہیں۔ ان کے اعضا میں بظاہر کوئی کمی نہیں ہوتی مگر ذہنی طور پر یہ اپنے اعضا سے خود کو مختلف جنس تصور کرتے ہیں۔ انہی لوگوں کو مغرب میں ٹرانس جینڈر کے طور پرشناخت دی گئی ہے۔ ٹرانس جینڈر کی یہ اصطلاح مغرب سے آئی ہے اور وہاں اس کی جو سائنسی وجہ بیان ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ ایک کیفیت کا شکار ہوتے ہیں جس کو Gender Dysphoria کہا جاتا ہے۔ اس کی سائنسی تشریح سے گریز کرتے ہوئے ایک امریکی ٹرانس جینڈر کا بیان کردہ تاثر پیش کر دیتا ہوں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ میں جسمانی طور پر مرد ہوں مگر میرے اندر ایک عورت ہے، میرے جذبات میں اس عورت ہی کی نشوونما ہو رہی ہے اور مرد کے طور پر جذبات معدوم ہو رہے ہیں۔ ہمارے نئے قانون نے اس تاثر کو تسلیم کیا گیا ہے اور نادرا کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صرف کسی شخص کے بیان پر کہ وہ اپنی پیدائشی جنسی شناخت سے مطمئن نہیں اور اس کو بدلنا چاہتا ہے‘ اس کو بدل دے اور نیا شناختی کارڈ جاری کر دے۔ ہمارے معاشرے کی جو اقدار ہیں‘ آپ خود سوچ لیں کہ وہ اس قانون کی متحمل ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ اس قانون کے غلط استعمال کے بہت سے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ طویل فہرست سے قطع نظر‘ اگر کوئی وراثت میں زیادہ حصہ لینے کے لیے عورت ہوتے ہوئے مرد کی شناخت حاصل کر لے تو اس کو کون روک سکے گا؟
معاملہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے اثرات سے دنیا بھر میں بچنا اب محال ہو چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری اقتصادی پسماندگی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم مغربی تہذیب کے اثرات کے آگے دیوار کھڑی نہ کریں حالانکہ یہ تہذیب چین جیسے ملک میں بھی‘ جو کنفیوشس کے نام سے منسوب تہذیب کا نمائندہ ہے‘ سرایت کرتی جا رہی ہے۔ روس کی ''آرتھوڈوکس‘‘ تہذیب بھی مغربی تہذیب کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ بھارت میں ہندو تہذیب کس طرح مغربی تہذیب کو قبول کر رہی ہے وہ سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم ممالک بھی بچے ہوئے نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں دیکھ لیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ صرف افغانستان اور ایران ہی دو ایسے ممالک رہ گئے ہیں‘ یا شمالی کوریا جو آج بھی مغربی تہذیب کی مزاحمت کرتے ہیں مگر ان ممالک کے بارے میں مغرب کی منفی سوچ اور اقدامات بھی سب پر عیاں ہیں۔ پاکستان میں بھی جس تیزی سے مغربی تہذیب کے اثرات آ رہے ہیں‘ ان کو روکنا محال ہے اور سوائے اس کے کہ بے بسی سے اس عمل کا مشاہدہ کرتے رہیں اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس قانون کے حوالے سے جو بھی فیصلہ آئے‘ یہ حقیقت ہے کہ ٹرانس جینڈر بنیادی طور پر ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر مغرب کی نسبت چونکہ مختلف معاشرہ ہے لہٰذا اس میں ان لوگوں کے لیے ایک تضحیک موجود رہے گی۔ ہمارے سامنے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کو قبول کرتا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا اس میں عمل انگیز کا کام کر رہا ہے۔ اس ضمن میں کوئی متفقہ پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمارے نوجوان معاشرے سے کٹتے جا رہے ہیں۔ ان کو اُن سوالوں کے جواب نہیں مل رہے جو آج کل کے ماحول میں ان کے ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے اکابرین اگر مل بیٹھیں اور دین کی بنیادی اقدار کی طرف سفر کی مہم شروع کر دیں تو یہ سفر اگرچہ بہت آہستہ آہستہ کٹے گا مگر ہو گا درست سمت میں۔ معاشرتی تبدیلیاں عشروں میں نہیں‘ بسا اوقات صدیوں میں آتی ہیں۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کب ہوئی تھی‘، سوچیں کہ اب تک وہ اس کا پھل کھا رہے ہیں۔ ہم اگر آج اس عمل کی مز احمت کا آغاز کریں تو چند دہائیوں بعد ہماری نسلیں ان اقدامات سے مستفیض ہو سکیں گی۔