انسان کی منہ زور خواہشات ہمیشہ انسان کو حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر اپنی تکمیل کی دعوت دیتی رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان منہ زور خواہشات کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز راستوں کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے مد مقابل بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس کرتے ہوئے‘ اپنے نفس کی خواہشات کو دبا لیتے ہیں۔
سورہ نازعات کی آیت نمبر 37سے 41میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کا ذکر کچھ اس انداز میں فرمایا ہے: ''پس رہا جس نے سر کشی کی اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بری) خواہش سے۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہے۔‘‘
متقی اور پرہیز گار انسان ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا دل اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف سے معمور ہوتا ہے۔ اپنے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف کو جاگزیں کرنے کے بعد وہ اپنے جوارح کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری میں ڈھال لیتا ہے اور اپنی آنکھوں‘ کان‘ زبان‘ ہاتھوں اور قدموں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کے راستے میں چلاتا ہے۔ متقی انسان اپنے جملہ وسائل اور صلاحیتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کرتا ہے اور ہر ایسے کام سے اجتناب کرتا ہے‘ جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی وارد ہو۔ تقویٰ کی اہمیت کو مختلف احادیث میں مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا گیا ہے:۔
1۔جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز زیادہ تر لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی؟ (پھر فرمایا) اللہ کا تقوی اور حسن خلق‘ کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز زیادہ تر لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گی؟ (پھر فرمایا) دو چیزیں‘ منہ اور شرم گاہ۔‘‘
2۔ مسند احمد ‘ترمذی ‘ ابوداؤد‘نسائی‘ ابن ماجہ اور سنن دارمی میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہی:‘''سن لو! عورتوں کا حق مہر زیادہ مقرر نہ کرو‘ کیونکہ وہ دنیا میں قابل عزت اور اللہ کے ہاں باعثِ تقوی ہوتا تو تمہاری نسبت اللہ کے نبی ﷺاس کے زیادہ حق دار تھے‘ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺنے ازواج مطہرات ؓ سے نکاح کیا ہو یا اپنی بیٹیوں کا نکاح کیا ہو تو آپﷺنے بارہ اوقیہ سے زیادہ حق مہر مقرر کیا ہو‘‘۔
3۔صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نبی ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺدعا کیا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ تقوی اور عفت اور تونگری کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
4۔سنن نسائی میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں: '' میں نے عید کے روز نبی ﷺکے ساتھ نماز پڑھی‘ تو آپ نے خطبہ سے پہلے اذان و اقامت کے بغیر نماز پڑھی‘ جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ ﷺبلال ؓ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے‘ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی‘ لوگوں کو وعظ و نصیحت کی‘ انہیں یاد دہانی کرائی‘ اور اپنی اطاعت کی ترغیب دی‘ پھر آپ ﷺبلال ؓ کے ساتھ خواتین کی طرف گئے تو انہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنے کا حکم فرمایا اور وعظ و نصیحت کی اور یاد دہانی کرائی‘‘۔
5۔مسند احمد میں ابو نضرہ سے مروی ہے کہ ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ ﷺکا خطبہ سننے والے صحابی نے اس کو بیان کیا کہ نبی کریم ؐنے فرمایا: ''اے لوگو! خبردار! بیشک تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے‘ کسی عربی کو عجمی پر‘ کسی عجمی کو عربی پر‘ کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے‘ مگر تقوی کی بنیاد پر‘ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول نے پیغام پہنچا دیا ہے‘‘۔
6۔مسند احمد میں سیدنا ابو ذر ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: '' غور کر‘ تو کسی سرخ یا سیاہ فام سے بہتر نہیں ہے‘ الا یہ کہ تو اس پر تقوی کی برتری رکھتا ہو‘‘۔
7۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘ جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘ جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے‘ اس کے زیر سایہ قتال کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے بچا جاتا ہے‘ اگر اس نے اللہ کا تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا اور عدل کیا تو اس وجہ سے اس کے لیے اجر ہے‘ اور اگر اس نے اس کے علاوہ کچھ کہا تو اس کا گناہ اس پر ہو گا۔‘‘
مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں تقویٰ کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے اور کسی بھی انسان کے شرف اور عزت کی اصل وجہ اس کا تقویٰ ہے۔ انسان کو ہر حالت میں تقویٰ کے راستے پر گامزن رہنا چاہیے‘ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں تقویٰ اورنیکی ہی سے سربلندی حاصل ہو سکتی ہے۔قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو عبادات میں جو چیز سب سے زیادہ مطلوب ہے‘ وہ تقویٰ ہی ہے؛ چنانچہ جہاں پر روزوں کی فرضیت کا ذکر آیا‘ وہاں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183اعلان فرماتے ہیں : ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیساکہ فرض کیے گئے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے (تھے) تاکہ تم بچ جاؤ(گناہوں سے)‘‘۔
اسی طرح عید الاضحی کے موقع پر جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جانور کی قربانی کا ذکر کیا‘ وہاں پر بھی تقویٰ کی اہمیت کو واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حج کی آیت نمبر 37میں ارشاد فرماتے ہیں : ''ہر گز نہیں پہنچتے اللہ کو ان (قربانیوں) کے گوشت اور نہ ان کے خون اور‘ لیکن پہنچتا ہے اس کو تقویٰ تمہاری طرف سے اسی طرح (اللہ نے) تابع کر دیا ان (چوپاؤں) کو تمہارے لیے‘ تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی۔ اس پر کہ اس نے ہدایت دی تمہیں اور خوشخبری سنا دیجئے نیکی کرنے والوں کو۔‘‘
تقویٰ کے نتیجے میں انسان کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں‘جن کا ذکر قرآن مجید میں بہت ہی خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے ۔ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:۔
1۔ کامیابی: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کامیاب کر دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189میں ارشاد ہوا: ''اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘
2۔ حق اور باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت: جو شخص تقویٰ کو اختیار کر لیتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت کو پیدا فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ انفال کی آیت نمبر 29میں ارشاد ہوا: '' اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرو گے (تو) وہ بنا دے گا تمہارے لیے (حق اور باطل میں) فرق کرنے کی (کسوٹی) اور دور کر دے گا تم سے تمہاری برائیاں اور بـخش دے گا‘ تمہیں اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
3۔ گناہوں کی معافی: تقویٰ کو اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا: '' اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا‘ اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا‘ اُس کو اجر۔‘‘
4۔ معاملات میں آسانی: اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت 4میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کر دے گا‘ اُس کے لیے اس کے کام میں آسانی۔‘‘
5۔ تنگیوں سے نجات اور رزق کی فراہمی: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کی تنگیاں دور ہو جاتی ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو رزق وہاں سے دیتے ہیں ‘جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2‘3میںارشادہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے ۔اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے‘ اُسے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔‘‘ حالیہ ایام میں جس تنگی کا سامنا دنیا بھر کے لوگوں اوراُمت مسلمہ کو کرنا پڑ رہا ہے‘ اس تنگی سے نکلنے کے لیے بھی تقویٰ کا راستہ اختیار کرنا انتہائی مفید ہے۔ اگر اُمت مسلمہ تقویٰ کا راستہ اختیار کر لے‘ تو اُمت کی تمام تنگیاں دور ہو سکتی ہیں اور معاشی بدحالی اور غربت سے نکلنے کا راستہ بھی بن سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین )