ہمارے معاشرے میں اچھے اخلاق والے لوگ بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسروں سے پیار سے پیش آنے‘ ان کی خیر خواہی کرنے اور اُن کی دلجوئی کرنے کی بجائے فخر‘ غرورکرنے اور دوسرں کو کمتر ثابت کرنے کا چلن معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ علم ‘ منصب اور سرمائے میں ترقی کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع ہو جاتی ہے۔ کتاب وسنت نے جہاں پر عقائد اور عبادات کے حوالے سے انسانوں کی کامل رہنمائی کی ہے وہیں پر اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بھی احسن انداز میں اجاگر کیا ہے۔ سورہ قلم کی آیت نمبر 4میں نبی کریمﷺ کے اخلاقِ حسنہ کا ذکر بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ آپ یقینا خلق عظیم پر (فائز) ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اتنے اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھاکہ غریب سے غریب آدمی کو بھی آپﷺ تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ پہلی وحی کے بعد جب آپ ﷺگھر تشریف لائے توا س موقع پر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓنے آپﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی گواہی دی تھی۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے کچھ اس انداز سے مروی ہے: ''آپ ﷺتو اخلاقِ حسنہ کے مالک ہیں‘ آپ تو کنبہ پرور ہیں‘ بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں‘ مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں‘ مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر ِحق کا ساتھ دیتے ہیں‘‘۔
صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ کا قول کچھ یوں مذکور ہے: رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اخلاق کے مالک تھے ۔نبی کریم ﷺ کی بہت سی احادیث مبارکہ سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو لوگ تم میں سے زمانۂ جاہلیت میں شریف اور بہتر اخلاق کے تھے وہی اسلام کے بعد بھی اچھے اور شریف ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔
نبی کریم ﷺ نے گھریلو سطح پر بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اہمیت کو اجاگر فرمایا ہے۔
جامع ترمذی میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ''ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو‘ اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو‘‘۔
معاشرے میں عام طور پر رشتے داری سرمایے‘عہدے اور سماجی حیثیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے‘ جبکہ احادیث مبارکہ میں اس حوالے دین اور اخلاق کی اہمیت کواجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
جامع ترمذی میں حضرت ابو حاتم المزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے‘ جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا ‘‘۔
احادیث مبارکہ میں جنت میں جانے والے لوگوں کے جن اوصاف کابیان ہے ان میں اخلاقِ حسنہ بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہے:
جامع ترمذی میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جو شخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پر ہے‘ اس کے لیے اطراف جنت میں ایک مکان بنایا جائے گا‘ جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا اور جو شخص اپنے اخلاق اچھے بنائے ۔ جامع ترمذی میں حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ بے حیا اور بدزبان سے نفرت کرتا ہے‘‘۔
قرآن مجید کے متعدد مقامات پر بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سورہ حجرات میں اس حوالے سے بہت سے مفید اصول وضوابط بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں :
سورہ حجرات کی آیت نمبر 6میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں : ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو اگر آئے تمہارے پاس کوئی فاسق کسی خبر کے ساتھ توتم تحقیق کر لیا کرواچھی طرح (ایسا نہ ہو) کہ تم تکلیف پہنچاؤ کسی قوم کو نادانی سے پھر تم ہو جاؤ اس پر جو تم نے کیا پشیمان‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان کو سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے یا ان پر عمل کرنے سے قبل اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے۔ اسی سورت کی آیت نمبر 10میں ارشاد ہوا : ''یقینا مومن (تو ایک دوسرے کے) بھائی ہیں پس صلح کرا دو اپنے دونوں بھائیوں کے درمیان اوراللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘۔اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان کو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی بجائے اُن میں صلح کی کوشش کرنی چاہیے۔
سورہ حجرات میں ایک دوسرے کا استہزاء کرنے اور ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر 11میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے ہو سکتا ہے کہ وہ بہترہوں اُن سے اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے (کسی کو) فسق والا نام (دینا) برا ہے۔ ایمان لانے کے بعد‘ اور جس نے توبہ نہ کی تو وہ لوگ ہی ظالم ہیں‘‘۔ اگر اس آیت مبارکہ میں بیان کردہ تعلیمات پر عمل کر لیا جائے تو سماجی حوالے سے بہت حد تک جھگڑوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دوسروں کے بارے میں بدگمان رہتے ‘ ان کے معاملات میں تجسس رکھتے اور ان کی پیٹھ پیچھے ان کی برائی کرتے ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے کئی مرتبہ مختلف طرح کے مسائل اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان بری عادات کی بھی سخت مذمت کی ہے؛ چنانچہ سورہ حجرات کی آیت نمبر12 میں ارشاد ہوا : ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو اجتناب کرو بہت گمان کرنے سے بے شک بعض گمان گناہ ہیں اور تم جاسوسی نہ کرو اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی دوسرے کی کیا تم میں سے کوئی ایک (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا تو تم نا پسند کرتے ہو اُسے‘ اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبو ل کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے قبیلے‘ کنبے اور برادری کی وجہ سے فخر کرتے اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں حالانکہ قبیلہ‘ کنبہ اور برادری پہچان کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیت نمبر 13میں یوں بیان فرمایا : ''اے لوگو بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا ایک مرد سے اور ایک عورت (سے) اور ہم نے بنا دیا تمہیں قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اُن قیمتی نصیحتوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ ان نصیحتوں میں جہاں پراللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک سے بچنے کی دعوت تھی وہیں پر آپ نے اپنے بیٹے کو مثالی زندگی گزارنے کے بہت سے اہم اصولوں سے بھی آگاہ کیا اوراس کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق کی تلقین کی۔ اخلاقِ عالیہ کی تلقین کے حوالے سے حضرت لقمان کے فرامین سورہ لقمان کی آیت نمبر18، 19 میں کچھ یوں مذکور ہیں :''اور نہ پھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین اکڑ کر بے شک اللہ نہیں پسند کرتا ہر تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو اور میانہ روی رکھ اپنی چال میں اور پست رکھ اپنی آواز کو بے شک بدترین آوازوں میں سے یقینا گدھوں کی آواز ہے۔ سورہ ضحی کی آیت نمبر 9،10،11میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں سے حسنِ سلوک اور اپنی نعمتوں کے بیان کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''پس رہا یتیم تو نہ سختی کیجئے (اس پر) اور رہا سوال کرنے والا تو مت جھڑکیے (اُسے) اور جو نعمت ہے آپ کے رب کی تو بیان کیجئے (اُسے)‘‘ ۔
مذکورہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ سے حسنِ اخلاق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی معاشرتی ‘ کاروباری اور گھریلو زندگی میں دوسرے لوگوں کے ساتھ اچھابرتاؤ اوربہترین سلوک کرنا چاہیے اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کو بہتر بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور ہم دوسرے انسانوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے والے بن جائیں۔