انسانوں کی بڑی تعداد جہاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے وسائل اور توانائیوں کو صرف کرتی ہے وہاں انسانوں کی کثیر تعداد کا مقصد دوسرے لوگوں کی نظروں میں معتبر اور محترم بننا بھی ہوتا ہے۔ عزت کے حصول کے لیے کئی مرتبہ انسان اپنے جملہ وسائل کو استعمال کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے اس کے باوجود کئی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان عزت پانے اور دوسروں کی نظروں میں مقام بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اس حوالے سے کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے کام کرنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں بھی اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو جنت میں بلند مقام پانے والے ہیں اور ان میں بہت سی قابلِ قدر خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اُن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ نمازوں میں مداومت اور خشوع کو اختیار کرنا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندوں کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ نمازوں میں مداومت کو اختیار کرتے اور ان کو خشوع سے ادا کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 1تا 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا فلاح پا گئے ایمان والے۔ وہ جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں جہاں پر نمازوں کی حفاظت اور ان میں خشوع اختیار کرنے کا ذکر ہے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے اپنی راتیں سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں۔ یعنی وہ تہجد اور قیام اللیل کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 64میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو رات گزارتے ہیں اپنے رب کو سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے ‘‘۔
2۔ انفاق فی سبیل للہ: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندو ں کی نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں اورفرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ صدقات اور خیرات کے ذریعے سائلین اور محرومین کا حق بھی ان کو ادا کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 4میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ جو زکوٰۃ کو ادا کرنے والے ہیں‘‘۔ اسی طرح سورہ معارج کی آیت نمبر 24 تا 25میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''اور (وہ) جو ان کے مالوں میں حق (حصہ) مقرر ہے ‘مانگنے والے کا اور محروم (نہ مانگنے والے) کا‘‘۔
3۔ یومِ جزا کی تصدیق: اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ یوم جزا پر یقین رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ معارج کی آیت نمبر 26میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تصدیق کرتے ہیں روزِ جزا کی‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 4میں ارشاد ہوا: ''اور وہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں‘‘۔
4۔میانہ روی سے مال کو خرچ کرنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں عبادا لرحمن کی اس صفت کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے مال کو میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں نہ تو اسراف سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 67میں ارشاد ہوا: ''اور وہ لوگ جو کہ جب خرچ کرتے ہیں (تو) نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور ہوتا ہے (ان کا خرچ) اس کے درمیان اعتدال والا‘‘۔
5۔ عاجزی اور متانت کا اظہار: سورہ فرقان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے تکبر سے دور ہوتے ہیں اور زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 63میں ارشاد ہوا: ''اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر آہستگی سے‘‘۔
6۔ شرک، قتل اوربے حیائی جیسے کبیرہ گناہوں سے احتراز: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے شرک، قتل، بدکرداری اور زنا جیسے بڑے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ان سے اس قسم کا گناہ ہو جائے توفوراً سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ سے توبہ کے طلب گار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 68سے 70میں ارشاد ہوا: ''اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام ) کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا) کو۔ دُگناکیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے اس میں ذلیل ہو کر۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل کیا نیک عمل تو یہی لوگ ہیں (کہ) بدل دے گا اللہ ان کے گناہوں کونیکیوں سے اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم والا ہے‘‘۔
7۔ لغویات سے احتراز: فردوسِ بریں کے وارث اہلِ ایمان لغویات سے احتراز کرتے ہیں۔ سورہ مومنون کی آیت نمبر 3میں ارشاد ہوا: ''اور و ہ جو لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح سورہ فرقان کی آیت نمبر 72میں ارشادہوا: ''اور جب وہ گزریں بے ہودہ کام (کے پاس) سے (تو) وہ باعزت گزر جاتے ہیں‘‘۔
8۔ وعدوں اور امانتوں کی پاسداری:سورہ مومنون کی آیت نمبر 8میں ارشاد ہوا : ''اور وہ جو اپنی امانتوں کا اور اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہیں‘‘۔
9۔ بے حیائی سے اجتناب: فردوس کے وارث اہلِ ایمان کی نشانیوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ بے حیائی کے کاموں سے احتراز کرتے ہیں اور فقط اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے ہی اپنی خواہش پوری کرتے ہیں۔ سورہ مومنون کی آیت نمبر 5تا 6میں ارشا دہوا: ''اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں پر یا جن (کنیزوں)کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ تو بلاشبہ وہ نہیں ہیں ملامت کیے ہوئے‘‘۔
10۔ کج بحثی سے احتراز: اللہ تعالیٰ کے بندے کج بحثی سے احتراز کرتے ہیں اور کبھی ان کا جاہلوں سے پالا پڑ جائے تو اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے ان سے سلامِ متارکت کر لیتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 63میں ارشاد ہوا : ''اور جب مخاطب ہوتے ہیں ان سے جاہل (تو) کہتے ہیں سلام ہے‘‘۔
11۔ اللہ تعالیٰ کی آیات پر تدبر:عباد الرحمن اللہ تبارک وتعالیٰ کی آیات پر تدبر بھی کرتے ہیں اور ان پر گونگے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 73میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ جو (کہ) جب وہ نصیحت کیے جائیں اپنے رب کی آیات کے ساتھ (تو) نہیں گر پڑتے ان پر بہرے اور اندھے ہو کر (بلکہ غوروفکر کرتے ہیں)‘‘۔
12۔ جھوٹی گواہی سے اجتناب: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے کسی کے خلاف جھوٹی گواہی بھی نہیں دیتے اور ہر حالت میں اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 72میں ارشاد ہوا : ''اور جو نہیں گواہی دیتے جھوٹی‘‘۔
13۔ اولاد اور اہلِ خانہ کے لیے دعا: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے جہاں پر خود عمل صالح کرتے رہتے ہیں وہیں پر اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کے لیے بھی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 74میں ارشاد ہوا : ''اور وہ جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب عطا کر ہمیں ہماری بیویاں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک، اور بنا ہمیں پرہیزگاروں کا امام‘‘۔
14۔ عذاب سے پناہ اور جنت کی طلب: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے اللہ کے عذاب سے پناہ مانگتے اور جنت کے طلب گار رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 65میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب پھیر دے ہم سے جہنم کا عذاب، بے شک اس کا عذاب چـمٹ جانے والی مصیبت ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران میں عقلمند لوگوں کی جن دعاؤں کا ذکر کیا ہے ان میں بھی اللہ کے عذاب سے پناہ طلب کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 191میں ارشاد فرماتے ہیں :'' وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار، تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے‘‘۔ سورہ مومنون اور سورہ فرقان کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے جنت میں بلند مقام تیار کر رکھا ہے۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 75 تا 76میں ارشاد ہوا: ''یہی لوگ بدلے میں دیے جائیں گے (جنت میں) اونچا محل اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ استقبال کیے جائیں گے اس میں دعا وسلام کے ساتھ۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں‘ اچھی ہے وہ قرار گاہ اور قیام گاہ‘‘۔
ان آیات مبارکہ پر غوروفکر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کورضا ئے الٰہی کے حصول کے لیے کس طرح کے اعمال کرنے چاہئیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ ہیں اور ہم سب کو ان اعمال سے بچائے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہیں۔ آمین !