جب ہم اپنے گردوپیش پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر لحظہ زندگی کے بدلتے ہوئے رنگ نظر آتے ہیں۔ ان مختلف رنگوں کو دیکھ کر انسان یہ بات با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ زندگی بیک وقت خوشیوں اور غموں سے عبارت ہے۔ یہاں پر کبھی شادی ہے تو کبھی جنازہ ‘ کبھی سکھ ہیں تو کبھی دکھ ‘ کبھی خوشیاں ہیں تو کبھی غم ۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران مجھے ایک مرتبہ پھر زندگی کے بہت سے بدلتے ہوئے رنگوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بھائی عبدالقدیر عاصم کا تعلق ضلع قصور کے ایک قصبے گھلن سے ہے۔ آپ قرآن مجید کی تدریس کے ساتھ ساتھ ضلع قصور ہی کے ایک قصبے منڈی عثمان والا میں خطابت کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہیں۔ آپ خوش اخلاق اور بڑی نفیس طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ جب بھی ملتے ہیں اپنی ملاقات کا خوشگوار تاثر انسانوں کے ذہن پر چھوڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ پیر مجھے اس بات کی اطلاع ملی کہ آپ کے والد اچانک دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ بھائی عبدالقدیر کو پہنچنے والے اس صدمے کو میں نے بڑی گہرائی سے محسوس کیا ۔ یقینا ہر حساس انسان زندگی میں والد کی اہمیت کو باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح بھائی عتیق الرحمن آصف کا تعلق بھی ضلع قصور کے گاؤں ڈھنگ شاہ کے ساتھ ہے ۔ انہوں نے 3 اپریل کو ڈھنگ شاہ میں ایک بڑی ختم نبوت ﷺکانفرنس کا انعقاد کیا تھا لیکن کانفرنس سے دو روز قبل ان کے والد اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ جب میں 3 اپریل کو کانفرنس میں پہنچا تو جہاں پر اجتماع میں شریک لوگوں کو خوشیوںسے معمور پایا وہیں پر بھائی عتیق الرحمن آصف کے چہرے پر رنج کے گہرے اثرات کو دیکھا۔ا سی طرح مجھے ان ایام میں مختلف دوستوں کی بیماری کی خبریں بھی سننے کو ملتی رہیں۔ بھائی ابوبکر قدوسی جو کہ ایک کامیاب قلم کار ہیں گزشتہ دنوں وہ انجائنا کا شکار ہوئے اور ان کی انجیو گرافی کا عمل مکمل کیا گیا۔انہی ایام میں محبت کرنے والے دوست خالد غوری ‘ حاجی اکرام اور بھائی ثاقب کی علالت کی خبریں بھی سننے کو ملتی رہیں۔
ان غم کی خبروں کے ساتھ ساتھ مجھے انہی ایام میں بہت سے لوگوں کی خوشیوں کوبھی دیکھنے کاموقع ملا۔میرے دیرینہ دوست میاں عبدالمنعم ایک کامیاب زمیندار ہیں۔آپ کاتعلق ایک دینی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد حکیم عبدالرؤف ایک با عمل انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب طبیب بھی ہیں۔حکیم عبدالرؤف بھی مجھ سے بہت زیادہ شفقت کرتے ہیں اور ہر ملاقات میں اپنائیت کااحساس دلاتے ہیں۔ میں ہمیشہ اس خاندان کی خوشی غمی میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ میاں عبدالمنعم گزشتہ دنوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تو انہوں نے اپنے ولیمہ کی دعوت پر مجھے شرکت کی دعوت دی۔ جب میں اس دعوت میں پہنچا تو میں نے ہر سو لوگوں کو ہنستا اور مسکراتا ہوا دیکھا۔ خو ش پوش لوگوں کی بڑی تعداد اس تقریب میں چمکتے دمکے چہروں کے ساتھ شریک تھی۔ ہر شخص ولیمے کی اس تقریب میں خوشیوں کو بانٹتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اسی طرح مجھے حالیہ دنوں میں بھائی حبیب اللہ کے نکاح کو پڑھانے کا موقع بھی میسر آیا اس تقریب نکا ح پر بھی میں نے لوگوں کو مسکراتے اور چہکتے ہوئے دیکھا۔ بھائی ابوبکر قدوسی کے بھتیجے اور عمر قدوسی کے بیٹے ہونہار نوجوان بیٹے حنین قدوسی کے ولیمے کا بھی انعقاد لاہور میں ہوا۔ اسی طرح جب میں ڈھنگ شاہ میں ختم نبوتﷺ کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے اپنے بچپن کے دوست انجینئر محمد عمران کا فون موصول ہوا کہ وہ اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اس نئے گھر کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لی اور دو برس کی مدت میں اپنے ذوق اور شوق کی تکمیل کے تمام لوازمات کو اس گھر میں جمع کیا۔ انجینئر محمد عمران کے الفاظ میں گہری خوشی چھپی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ نئے گھر کی تعمیر جہاں انجینئر محمد عمران اور ان کے گھرانے کے لیے خوشی کی خبر تھی وہیں پر میرے لیے یہ خبر بہت زیادہ خوشی کا باعث تھی۔
مجھے مختلف ایام میں لوگ شادی بیاہ میں شرکت کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور میں بہت سے احباب کے نکاح خود بھی پڑھاتا رہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ مجھے مختلف لوگوں کی بیماریوں کا اطلاعات موصول ہوتی ہیں اور لو گ اپنے بیمار دوست احباب کے لیے دعائے صحت کے حوالے سے بھی رجوع کرتے رہتے ہیں۔اسی طرح کئی مرتبہ مجھے لاہور اور لاہور سے باہر مختلف جنازوں پر جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ زندگی کے ہر لحظہ بدلتے ہوئے ان رنگوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس راسخ ہو جاتا ہے۔ جب میں اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو میرے ذہن میں بھی مختلف طرح کے صدمات‘ مشکلات اور دُکھ بھری یادوں سے متعلقہ تصورات اُبھرتے رہتے ہیں۔ والدین کی جدائی ‘بعض اعزہ واقارب کے بچھڑ جانے‘ پیاراور محبت کرنے والے بہت سے بزرگوں کے دنیا سے رخصت ہو جانے اور بعض موذی امراض کا سامنا کرنے والی بہت سی باتیں ماضی کے حوالے سے میرے ذہن میں نقش ہیں۔ اسی طرح الحمدللہ زندگی میں بہت سی خوشی والی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں جن میں امتحانات میں کامیابی ‘ کاروباری فوائد اور بچوں کی تعلیم اور دیگر میدانوں میں نمایاں کارکردگی کی خبریں شامل ہیں۔
یہ تمام خوشی کی خبریں انسان میں جوش ‘ جذبے اور فرحت کے احساس کو پیدا کرتی ہیں ۔ اس کے بالمقابل تکلیف دہ واقعات انسان کے دل و دماغ پر افسردگی کی ایک کیفیت کو طاری کر دیتے ہیں۔ زندگی کے بدلتے ہوئے یہ رنگ درحقیقت اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارا دنیا میں قیام عارضی ہے اور ہمیں جلد یابدیر اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے گردشِ ایام کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر 140میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور ان دنوں کو ہم بدلتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی زندگی میں دنوں کو پھیرنے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی حقیقت کو سورہ انبیاء کی آیت نمبر 35میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے : ''ہر جان چکھنے والی ہے موت کو اور ہم مبتلا کرتے ہیں تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمانے کے لیے اور ہماری طرف ہی تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اس آیت ِمبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زندگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو کبھی دکھ اور کبھی سکھ سے آزمائیں گے ‘ اور بالآخر انسان کو پروردگار عالم کی بارگاہ میں لوٹنا ہو گا۔ خوشی کے ایام میں اللہ تبارک وتعالیٰ کاشکر کرنے والے اور دکھ اور کرب کے دوران صبر ‘تحمل اور استقامت کے راستے کو اختیار کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور رحمت کو سمیٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس عارضی زندگی کے دوران انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور ان کی بندگی کو بجالانے کی بھرپور انداز میں کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا کی سرداری‘ مال‘ عہدے‘ منصب اور عارضی مال و اسباب یقینا انسان سے چھن جانے والے ہیں۔ اس کے مدمقابل انسان کا ایمان‘ عملِ صالح اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے لیے کی جانے والی کوششیں ہمیشہ انسان کے ہمراہ رہیں گی اور اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے کسی نیک عمل کو ضائع نہیں کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 195میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک میں نہیں ضائع کروںگا کسی عمل کرنے والے کا عمل تم میں سے مرد ہو یا عورت تم ایک دوسرے سے ہو (یعنی سب برابر ہیں ) پس جنہوں نے ہجرت کی اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور انہوں نے جنگ کی (اللہ کی راہ میں) اور مارے گئے البتہ ضرور میں ضرور مٹا دوں گا اُن سے اُن کے گناہ اور البتہ ضرور میں داخل کروں گا انہیں (ایسی) جنتوں میں (کہ) بہتی ہیں اُن (باغات) کے نیچے سے نہریںاور بدل ہے اللہ کی طرف سے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حقیقی کامیابی کا معیار آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو جانے کو قرار دیا ہے؛ چنانچہ سورہ آل عمران ہی کی آیت نمبر 185میں ارشاد ہوا: ''پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا ‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں نہ تو دنیا کی زندگانی میں پیش آنے والی مشکلات سے مایوس ہوکر اپنی منزل کو کھونا چاہیے اور نہ ہی یہاں کی خوشیوں اور نعمتوں میں مدہوش ہو کر اپنی منزل کو فراموش کرنا چاہیے‘ بلکہ ہمیں اپنے پروردگار کی رضاکے حصول کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے اپنے وسائل ‘توانائیوں اور صلاحیتوںکو مجتمع کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو زندگی کے بدلتے ہوئے رنگوں سے سبق حاصل کرکے اپنی بندگی کو بجالانے کی توفیق دے۔ آمین