انسان اس سیارے پر ہزار ہا برسوں سے آباد ہے۔ ہر انسان یہاں پر مختلف اندا ز میں زندگی گزارنے کے بعد بالآخر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے ظالم ، انسانیت کو نقصان پہنچانے والے اور اپنے سیاہ کارناموں کی وجہ سے برے ناموں اور القاب سے یاد رکھے جانے والے لوگ بھی دنیا میں باقی نہ رہے؛ چنانچہ فرعون ، ہامان، شداد ، قارون اور نمرود کو بھی موت کے گھاٹ اترناپڑا۔ اسی طرح صلحاء ، نیکو کار اور اچھے اعمال انجام دینے والے وہ لوگ‘ جنہوں نے اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے انسانیت کو بہت سا فائدہ پہنچایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں اپنے آپ کو وقف کیے رکھا‘ اُن کو بھی دنیا سے رخصت ہونا پڑا۔ اگر انسان اپنے گردوپیش پہ نگاہ ڈالے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ اس کے بہت سے اعزہ واقارب، رشتے دار اور دوست احباب دنیا سے جا چکے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص نے اپنے بہت سے اعزہ واقارب کو اپنے ہاتھوں سے قبروں میں اتارا اور بہت سے پیاروں کے جنازوں کو جاتے ہوئے دیکھا لیکن اس کے باوجود یہ انسان کی بہت بڑی کوتاہ بینی ہے کہ وہ ہمیشہ اس بات کا گمان کرتا ہے کہ شاید وہ اسی دنیا میں باقی رہے گا۔ وہ دوسروں کے لیے تو موت کو یقینی سمجھتا ہے لیکن اپنے حوالے سے موت کو ایک گمان یا وہم کی شکل دیتا ہے۔ دوسروں کے اُٹھتے ہوئے جنازے اور میتوں کو دیکھنے کے باوجود وہ موت سے عبرت حاصل کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہم نے دوسروں کے جنازوں میں شرکت کی اور ان کو قبروں میں اتارا‘ ایک دن ہمیں بھی خود اس دنیا ئے فانی کو خیرباد کہنا پڑے گا اور اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جو یقینا مشاہدے سے ثابت ہے لیکن زندگی اور موت کی حقیقت کو جس شرح وبسط سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان کیا ہے‘ مشاہدہ اور تجربہ کبھی اس سطح تک نہیں پہنچ سکتا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ملک کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے‘ اسی نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انبیاء میں ہر شخص کے موت کا جام پینے کا ذکر کیا اور اس موت وحیات کے نظام کے مقصد کو بھی واضح فرما یا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 35میں ارشاد فرماتے ہیں : ''ہر جان چکھنے والی ہے موت کو‘ اور ہم مبتلا کرتے ہیں تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمانے کے لیے اور ہماری طرف ہی تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اس آیت پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو زندگی کے مختلف ادوار میں طرح طرح کے نشیب وفراز سے گزارنے کے بعد بالآخر اپنے پاس بلا لیں گے اور اپنے پاس بلانے کے بعد انسان کو اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو بڑی تفصیل کے ساتھ قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر بیان فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں کامیاب ہونے و الے لوگوں کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پوراپورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن‘ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیا وی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنت میں داخل ہوجانے کو حقیقی کامیابی قرار دیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو جہاں اپنی خشیت اختیار کرنے کا حکم دیا‘ وہیں اس بات کی بھی تلقین کی کہ انہیں موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کے راستے پر ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 102میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے (ایسے) ڈرو (جیسا کہ) اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو‘‘۔
مذکورہ بالا آیات میں بیان کردہ نصیحت آموز باتوں کے باوجود ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد موت کے بعد والی زندگی کو فراموش کرکے دنیا کی رنگینیوں اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں مگن رہتی ہے جبکہ اس کے مدمقابل مومنوں کی ایک جماعت اپنے انجام کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی خوبصورتی میں جذب ہونے کے بجائے اخروی سربلندی کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کا ذکر سورہ نازعات میں بڑی وضاحت سے فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیات 37سے 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس رہا وہ (خسارے میں) جس نے سرکشی کی۔ اور اس نے ترجیح دی دنیاوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا ) ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ (کامیاب) جو ڈرگیا اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے۔ اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بری) خواہش سے۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔
موت کے بعد کی زندگی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے انسان کو اپنے مقصدِ تخلیق کو سمجھنا چاہیے اور اس بات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ زمین وآسمان کی تخلیق کھیل تماشے کے لیے نہیں بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ زمین وآسمان کی تخلیق کے حوالے سے سورہ انبیاء کی آیات 16 تا 17میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہم نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے‘ کھیلتے ہوئے (یعنی بے مقصد پیدا نہیں کیا)۔ اگر ہم چاہتے کہ ہم بنائیں کوئی کھیل تماشا (تو) یقینا ہم بنالیتے اسے اپنے پاس سے اگر ہم ہوتے ایسا کرنے والے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اُن لوگوں کی کوتاہ بینی کا ذکر بھی کیا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ پلٹ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں نہیں جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 115میں فرماتے ہیں: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ بے شک ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد (ہی) اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے مقصدِ تخلیق کو سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56میں یوں بیان فرمایا: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کو فانی دنیا میں جستجو کرتے رہنا چاہیے اور دنیا میں ملے ہوئے اس وقت اور مہلت کو غنیمت جاننا چاہیے تاکہ جب وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کرے تو ان لوگوں میں شامل ہو جو کامیاب اور کامران ہیں اور ان لوگوں میں شامل نہ ہو جو ناکام اور نامراد ہیں۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی شخص کو میسر آئے گی جو آخرت میں سر بلند ہو گا اور حقیقی ناکامی اُسی کو حاصل ہو گی جو آخرت میں ناکام اور نامراد ہو گا۔ بعض لوگ دنیا ہی کی کامیابی کو اپنے لیے کامیابی سمجھتے ہیں اور آخرت کے لیے تگ و دو کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ متوازن مومن ومسلمان دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی کی بھی تیار ی کرتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا داری ہی کی زندگی کو اپنے لیے حرفِ آخر سمجھ بیٹھتے ہیں ان کی عقوبت اور انجام کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیات 103 سے 106میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''کہہ دیجئے کہ کیا ہم خبر دیں تمہیں کہ اعمال کے اعتبار سے زیادہ خسارہ پانے والے کون ہیں؟ وہ لوگ (کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات کا اور اس کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال‘ سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن۔ یہ ان کی سزا ہے جہنم‘ اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور انہوں نے بنایا (اُڑایا) میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق ‘‘۔
اس کے مدمقابل وہ لوگ جو اپنے مقصدِ تخلیق کو پہچان لیتے ہیں اور ایمان اور عملِ صالح کے راستے کو اختیار کرتے ہیں اُن کی سربلندی کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیات 107 تا 108سے میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کیے نیک ہوں گے ان کے لیے ہیں فردوس کے باغات بطور مہمانی۔ (وہ) ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں‘ نہیں وہ چاہیں گے اس سے جگہ بدلنا‘‘۔ ان آیات مبارکہ پر غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ناکامی اور نامرادی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو اپنی آخرت کو فراموش کرکے فقط دنیا کے لیے کوشاں رہیں گے اور عروج اور کامیابی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو ایمان اور عملِ صالح کے راستے کو اختیار کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے مقصدِ تخلیق کو پہنچانتے ہوئے آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!