انسان زندگی کے سفر کے دوران مختلف سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور درسگاہوں سے گزرتے ہوئے پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس دوران اس کی ملاقات قسم قسم کے لوگوں سے ہوتی ہے۔بعض لوگوں کی طرف اس کی طبیعت مائل ہوتی ہے جبکہ وہ بعض سے گریز اور احتراز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سوچ وفکر، مزاج، مشاغل اور مقاصد کی ہم آہنگی کی وجہ سے انسان دوستی کی لڑی میں پرویا جاتا ہے۔ اسی طرح طبیعتوں، نظریات اور اہداف کے اختلاف کی وجہ سے انسان لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ معاشرے میں جہاں انسان کے اعزہ واقارب، اہلِ خانہ، بیوی بچے اور بہن بھائی اس کی شخصیت کی تعمیر اور استحکام کا ذریعہ ہیں‘ وہیں اس کے دوست احباب بھی اس کی شخصیت کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے اور مخلص دوستوں کا مل جانا یقینا کسی نعمت سے کم نہیں اور برے اور مفاد پرست دوستوں کا میسر آ جانا یقینا انسان کے لیے ہر اعتبار سے خسارے کا سبب ہے۔
قرآنِ مجیدکے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ منافقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں جبکہ اہلِ ایمان ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں۔ منافقوں کی ہم آہنگی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 67میں ارشاد فرماتے ہیں: ''منافق مرد اور منافق عورتیں‘ اُن کے بعض بعض سے ہیں‘ وہ حکم دیتے ہیں برائی کا اور منع کرتے ہیں نیکی سے۔ اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو (خرچ کرنے سے) اُنہوں نے بھلا دیا اللہ کو تو اُس نے (بھی) بھلا دیا انہیں‘ بے شک منافق ہیں ہی نافرمان‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منافق لوگوں کو غلط راستے پر چلانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ غلط مشن پر کاربند رہتے ہیں اور نتیجتاً انجامِ بد سے دو چار ہو جاتے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر68 میں ارشاد فرماتے ہیں:'' وعدہ کیا ہے اللہ نے منافق مردوں سے اور منافق عورتوں سے اور کافر وں سے جہنم کی آگ کا، ہمیشہ رہنے والے ہیں اُس میں وہ کافی ہے اُنہیں اور لعنت کی اُن پر اللہ نے۔ اور اُن کے لیے عذاب ہے ہمیشہ رہنے والا‘‘۔
اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کی باہم دوستی کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر 71میں کچھ یوں فرمایا ہے: ''اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں‘ ان کے بعض دوست ہیں بعض (یعنی ایک دوسرے)کے‘ وہ حکم دیتے ہیں نیکی کا اور روکتے ہیں برائی سے۔ اور وہ قائم کرتے ہیں نماز اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اُس کے رسول کی۔ یہی (لوگ ہیں کہ) عنقریب رحم فرمائے گا اُن پر اللہ‘ بے شک اللہ بہت غالب، نہایت حکمت والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے، نمازوں کو قائم کرتے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں اور ایسے لوگوں پر یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ رحم فرمائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان کے راستے پر چلنے والے مومنین کی کامیابی کا ذکر قرآنِ مجیدمیں بڑے واضح الفاظ میں فرمایاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 72ارشاد فرماتے ہیں: ''وعدہ کیا ہے اللہ نے مومن مردوں سے اور مومن عورتوں سے (ایسے )باغات کا (کہ) بہتی ہیں اُن کے نیچے سے نہریں‘ وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اُن میں اور پاکیزہ مکانوں کا ہمیشگی کے باغات میں اور خوشنودی اللہ کی طرف سے سب سے بڑھ کر ہو گی‘ یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔
قرآنِ مجیدکے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے دن تمام دوستیاں منقطع ہو جائیں گی‘ اگر دوستی باقی رہے گی تو اُن لوگوں کی باقی رہے گی جو ایمان اور تقویٰ کے راستے پر ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زخرف کی آیت نمبر 67میں ارشاد فرماتے ہیں: ''سب دلی دوست اس دن ان میں سے بعض بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے) دشمن ہوں گے‘ سوائے متقیوں کے (کہ وہ باہم دوست ہی رہیں گے) ۔
اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے دن اُن لوگوں کے انجام کا بھی ذکر کیا جنہوں نے اپنے دوست کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کے راستے کو چھوڑ دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیات 27سے 29میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو‘ کہے گا: اے کاش میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی! کاش! میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ یقینا اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس اور ہے شیطان انسان کو (عین موقع پر) چھوڑ جانے والا(یعنی دغا دینے والا)۔
ان باتوں کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی دوستی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اور دین کی نسبت سے ہونی چاہیے۔ جو لوگ ایسی دوستی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یقینا وہ دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو اپنے لیے سمیٹ لیتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے جب انسان کسی سے دوستی کرتا ہے تواس حوالے سے اس پر بعض اہم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ دوست کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا: انسان کو ہمیشہ اپنے دوست کو نیکی کا حکم دیتے رہنا چاہیے اور برائی کے کاموں سے منع کرتے رہنا چاہیے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوست کو بگڑتا ہوا دیکھنے کے باوجود اس کو نصیحت نہیں کرتے بلکہ کئی مرتبہ اس کے غلط کاموں کو دیکھ کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید دوست کو اس کے مشاغل میں دیکھ کر خاموش رہنا ہی دوستی ہے۔ درحقیقت یہ طرزِ عمل انتہائی غلط ہے‘ انسان کو دین اور دنیا کی بھلائی کے کاموں کے حوالے دوست کو حکم دیتے رہنا چاہیے اور جب کسی غلط کام میں اس کو ملوث دیکھے تواس کو اس سے روک دینا چاہیے۔
2۔ نیکی کے کاموں میں معاونت اور برائی کے کاموں میں عدم معاونت: دوستی کا تقاضا جہاں پر اچھی بات کرنا ہے وہیں پر بھلائی کے کاموں میں معاونت کرنا بھی دوست کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جو بندہ اپنے دوست کے بھلائی کے کاموں میں اس کا معاون بن جاتا ہے تو یقینا وہ دوستی کے حق کو ادا کر دیتا ہے اور جو برائی کے کاموں میں وضاحت کے ساتھ عدم شمولیت کا مظاہرہ کرتا ہے وہ بھی دوست کی فکر کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ایک دوسرے کی مدد کرو نیکی اور پرہیز گاری (کے کاموں) میں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو گناہ اور زیادتی (کے کاموں) پر اور تم اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ‘‘۔
3۔ دوست کی خوشی، غمی میں شرکت: دوستی کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوست کی خوشیوں میں شریک ہو اور اس کی خوشی کے موقع پر اس کی حوصلہ افزائی کرے اور جب اس پر کوئی غم، بیماری یا ابتلا آئے تو ایسی صورت میں اس کے ساتھ بھر پور تعاون کرے اور اُس کو دلاسہ دے۔ کئی لوگ اچھے اوقات میں دوستی کو نبھاتے اور دوست کی تلخی کے ایام میں اس کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ یہ امر کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ جہاں پر دوست کی خوشیوں میں اس کو مبارک باد دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں پر دوست کو ابتلا اورمصیبت میں دیکھ کر اس کی معاونت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر دوست کسی مالی ابتلا کا شکار ہو جائے تو مناسب طریقے سے اس کی مالی اعانت کرنا بھی کارِ خیر ہے جو یقینا انسان کے لیے باعث اجروثواب ہے۔
4۔ دوست کا دفاع اور ذکرِ خیر : اپنے دوست کا جائز بات پر دفاع کرنا اور اس پر لگنے والے غلط الزام کو دھونے کی کوشش کرنا بھی ایک اچھے دوست کی نشانی ہے۔ کئی لوگ چہرے پر یا سامنے آکر تو دوستی نبھاتے ہیں لیکن عدم موجودگی میں اپنے دوست کی غیبت کرنے والوں میں خود شامل ہو جاتے ہیں۔ انہیں سورہ حجرات کی آیت نمبر 12میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بیان کردہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے: ''اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی دوسرے کی‘ کیا تم میں سے کوئی ایک (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا؟ توتم ناپسند کرتے ہو اُسے۔ اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔
5۔ دوست کے جنازے میں شرکت: اگرکسی قریب دوست یا ساتھی کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرنی چاہیے اور اس کے لیے خلوصِ دل سے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اس کے اہلِ خانہ کو دلاسہ دینا چاہیے۔
6۔ دوست کے لیے دعائے خیر اور اس کے لواحقین کا خیال: انسان کو دوست کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے اور اس کے لواحقین کے ساتھ بھی خیر والا معاملہ جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو لوگ اپنے دوستوں کے لیے دعائے خیر کرتے اورا ن کے لواحقین اور پسماندگان کا خیال کرتے ہیں یقینا وہ لوگ اپنے لیے بھی بھلائیوں کو جمع کر لیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے اس عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے لیے ایسا انتظام فرماتا ہے کہ لوگ اس کے مر جانے کے بعد اس کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے اور اس کے اہلِ خانہ اور لواحقین کے کام آتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے دوستوں کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!