انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں سے شناسائی اختیار کرتا ہے اور اپنی پسند کے انسان کو اپنے حلقۂ احباب میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوستی کی بنیاد فکری ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بالعموم مشاغل، پسند اور ناپسند کی یکسانیت پر ہوتی ہے۔ مخلص دوست زندگی میں ایک دوسرے کی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اہلِ ایمان کی دوستیوں کی بنیاد کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 71 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ان (میں سے) بعض دوست ہیں بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے دوست ہیں) وہ حکم دیتے ہیں نیکی کا اور روکتے ہیں برائی سے اور وہ قائم کرتے ہیں نماز اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی‘ یہی لوگ ہیں کہ عنقریب اللہ رحم فرمائے گا اُ ن پر‘ بے شک اللہ بہت غالب اور نہایت حکمت والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان باہم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہیں۔وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے، نمازوں کو قائم کرتے، زکوٰۃ کو ادا کرتے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ نتیجتاً وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق بن جاتے ہیں۔
اس کے مد مقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کا بھی ذکر کیا کہ جو ایک دوسرے میں سے ہوتے ہیں اور وہ برائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مکمل معاونت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 67 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''منافق مرد اور منافق عورتیں اُن کے بعض‘ بعض سے ہیں، وہ حکم دیتے ہیں برائی کا اور منع کرتے ہیں نیکی سے اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو (خرچ کرنے سے) اُنہوں نے بھلا دیا اللہ کو تو اُس نے (بھی )بھلا دیا اُنہیں‘ بے شک منافق ہیں ہی نافرمان‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ منافقین منکر کا حکم دیتے اور معروف سے روکتے ہیں اور انفاق فی سبیل سے پیچھے رہتے ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ کو فراموش کرنے والے ان منافقین کو اللہ تبارک وتعالیٰ بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے بعض دیگر مقامات پر بری دوستی کے انجامِ بد کا بھی ذکر کیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ فرقان کی آیات 27 تا 29 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو اور کہے گا: اے کا ش میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ کا رستہ۔ ہائے بربادی! کاش میں فلاں کو نہ بناتا (اپنا) دلی دوست۔ بلاشبہ اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس) ذکر(یعنی قرآن )سے، اس کے بعد کہ جب وہ آیامیرے پاس اور ہے شیطان انسان کو (عین موقع پر) چھوڑ جانے والا (یعنی دغا دینے والا)‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو انسان اپنے دوست کے پیچھے لگ کر اللہ کے رسولﷺ کے راستے سے انحراف کرتا ہے اس کو قیامت کے روز ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے مدمقابل وہ لوگ جو تقویٰ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دوستی اختیار کرتے ہیں کل قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو جنتوں میں داخل فرما دیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زخرف کی آیات 67سے 70میں ارشاد فرماتے ہیں: ''سب دلی دوست اس دن ان میں سے بعض بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے ) دشمن ہوں گے سوائے متقیوں کے (کہ وہ باہم دوست ہی رہیں گے)۔ (اہلِ تقویٰ کو کہا جائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے (اور وہ لوگ) جو ایمان لائے ہماری آیات پر اور وہ فرمانبردار تھے( ان سے کہا جائے گا) داخل ہو جاؤ جنت میں‘ تم اور تمہاری بیویاں‘ تم خوش کیے جاؤ گے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس بات کو بھی بیان فرمایا کہ جب انسان بے چینی اور بے قراری کا شکار ہو تو اس کو اللہ والوں کی صحبت کو اختیار کرنا چاہیے اس سے انسان کو صبر کے حصول میں آسانی ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کی صحبت سے اعراض کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے ذکرسے غافل ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیت نمبر28 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور روکے رکھیں اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام کو‘ (اور) وہ چاہتے ہیں اس کی خوشنودی اور نہ تجاوز کریں آپ کی آنکھیں ان سے، آپ چاہتے ہیں دنیوی زندگی کی زینت کو اور نہ اطاعت کریں (اس کی) جسے ہم نے غافل کر دیا اس کے دل کو اپنے ذکر سے اور اس نے پیروی کی اپنی خواہش کی اور ہے اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ انسان کو اللہ والوں کی صحبت کو اختیار کرنا چاہیے اور ان لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہیے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے غافل ہوں اس لیے کہ اہلِ تقویٰ کی صحبت اختیار کرنے والے لوگوں میں تقویٰ اور للہیت پیدا ہوتی ہے جبکہ یادِ الٰہی سے غفلت برتنے والے لوگوں کی صحبت اختیار کرکے انسان ذکرِ الٰہی اور یادِ الٰہی سے دور ہو جاتاہے۔ دوستی کے بنیادوں کے حوالے سے ایک اہم حدیث پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سنن ابو داؤد اور جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے‘‘۔ جہاں کتاب وسنت سے دوستی کی بنیاد واضح ہوتی ہے وہیں پر اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوست کے دوست پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں اس حوالے سے کتاب وسنت میں بہت سے اہم امورنشاندہی کی گئی ہے۔ چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔دوست کے لیے وہ پسند کرنا جو اپنے لیے پسند ہو: انسان کو ہمیشہ اپنے دوست کے لیے وہی کچھ پسند کرنا چاہیے جو اپنے لیے پسند ہو، اس حوالے سے بخاری ومسلم کی اہم حدیث درج ذیل ہے: ''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘۔
2۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت: دوست کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کا معاون ہونا چاہیے اس حوالے سے قرآنِ کریم میں جہاں اہلِ ایمان کی باہم دوستی کا ذکر ہے وہیں اس مسئلے کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کی جائے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوا: ''اور ایک دوسرے کی مدد کرو نیکی اور پرہیز گاری (کے کاموں ) پر۔‘‘
3۔ برائی کے کاموں میں عدم معاونت: انسان کا اپنے دوست سے اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کی برائی کے کاموں میں معاونت نہ کریں۔ بعض دوست ہر اچھے اور برے کاموں میں دوسرے دوستوں کی معاونت کرتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو گناہ اور زیادتی (کے کاموں )پر‘‘۔
4۔ اہلِ ایمان کی ایک دوسرے کی بیمار پرسی اور جنازوں میں شرکت: اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کی بیمار پرسی کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کے جنازوں میں شرکت بھی کرنی چاہیے، اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: ''مسلمان کے حق مسلمان پر چھ ہیں، جب تو اس سے ملے تو سلام کہہ، جب وہ تجھے بلائے تو اس کے پاس جا (دعوت قبول کر)، جب تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کر، جب اسے چھینک آئے تو اسے ''یرحمک اللہ‘‘ کہہ، جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کر اور جب فوت ہو تو اس کے جنازے کے ساتھ جا‘‘۔
5۔ انتقال کے بعد اہلِ خانہ کی خبرگیری : انسان کو اپنے دوست کے انتقال کے بعد ان کے اہلِ خانہ کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ اپنے دوست احباب کی وفات کے بعد اور اسی طرح صحابہ کرامؓ بھی اپنے دوستوں کی وفات کے بعد اُن کے اہلِ خانہ کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد اہلِ بیت سے آپﷺ کی نسبت سے بہت زیادہ پیار کااظہار کیا کرتے اور ان کے ساتھ شفقت اور محبت والا معاملہ کیا کرتے تھے۔
6۔ دوست کی وفات کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت: اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان کو اپنے سے پہلے ایمان میں سبقت لے جانے والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنا چاہیے اور ان کے بارے میں اگر دل میں کوئی کینہ یا خلش ہو تو اس کو دور کر دینا چاہیے۔ اس حوالے سے سورۂ حشر کی آیت نمبر10 انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں اہلِ ایمان کی دعا کا ذکر ہے کہ وہ یوں دُعا کرتے ہیں : ''اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے (اُن )بھائیوں کو جنہوں نے ہم سے پہل کی ایمان لانے میں اور نہ ڈال ہمارے دلوں میں کوئی کینہ ان (لوگوں ) کے لیے جو ایمان لائے‘‘۔
ہمیں کتاب وسنت میں مذکور دوستی سے متعلق احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور دوستی کے اصول اور ضوابط کو کتاب وسنت کی روشنی میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو دوستوں کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین !