"AIZ" (space) message & send to 7575

دورۂ بہاولپور

بہاولپور پاکستان کا ایک اہم ضلع ہے اور اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ بہاولپور کے رہنے والے لوگ زندہ دل، خوش اخلاق اور ملنسار ہیں۔ اہلِ بہاولپور دین اور دینی تحریکوں سے کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں بھی بہاولپور سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات ہمیشہ متحرک رہی ہیں۔ یہاں پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنان نے بھی لوگوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ موجودہ گورنر پنجاب انجینئر بلیغ الرحمن کا تعلق بھی بہاولپور کے ساتھ ہے۔ جماعتِ اسلامی کے معروف راہنما ڈاکٹر وسیم اختر بھی ضلع بہاولپور سے کئی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے چکے اور صوبائی اسمبلی میں بہاولپور کے لوگوں کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ بہاولپور کے لوگ کافی عرصے سے مجھ سے ضلعی دورے کے حوالے سے رابطہ کر رہے تھے۔ میں ماضی میں کئی مرتبہ بہاولپور جا چکا ہوں لیکن اب کئی برس سے ضلع بہاولپور جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔
30 ستمبر کو ضلع بہاولپور کے دوست احباب نے مجھے بہاولپور میں قرآن و سنہ موومنٹ کے ضلعی دفتر کے افتتاح کے ساتھ ساتھ احمد پور شرقیہ میں ہونے والی تحفظ ختم نبوت و ناموس صحابہؓ و اہلِ بیتؓکانفرنس میں خطاب کی دعوت دی۔ تحفظ ختم نبوت و ناموس صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کا عنوان یقینا ہر مسلمان کے لیے عقیدت، احترام اور کشش کا سبب ہے؛ چنانچہ میں نے بھی اس عنوان کی کشش کی وجہ سے دوستوں سے بہاولپور آنے کا وعدہ کر لیا۔ ماضی میں بہاولپور جانے کے لیے بالعموم ملتان روڈ کا راستہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اِس سفر کے دوران اِنسان غیر معمولی تھکاوٹ کا شکار ہو جایا کرتا تھا لیکن اب کچھ عرصے سے کراچی جانے والی ایک نئی موٹروے پر سفر کرتے ہوئے مسافر خانیوال انٹرچینج سے اتر کر بہاولپورکی طرف رُخ کر لیتے ہیں اور ساڑھے چار گھنٹوں میں اپنی منزلِ مقصود پہ پہنچ جاتے ہیں۔ ہم بہاولپور میں رات کے تقریباً آٹھ بجے داخل ہوئے تو بہاولپور شہر کی کشادہ سڑکیں اور وہاں کے معتدل موسم نے طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب کیے۔ ہمارے استقبال کے لیے قرآن و سنہ موومنٹ بہاولپور کے چیئرمین عبداللہ باری اور سرپرست اعلیٰ موسیٰ جوئیہ اپنے قریبی ساتھی شعیب امین بھائی کے ہمراہ موجود تھے۔ دفتر کی افتتاحی تقریب میں جماعت اسلامی کے ضلعی راہنما ذیشان بھائی بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر بہاولپور میں جاری سیاسی اور مذہبی تحریکوں کی کارکردگی کے حوالے سے گفت و شنید کی گئی۔ بہاولپور میں کچھ دیر قیام کے بعد دوست احباب کے ہمراہ احمد پور شرقیہ میں روانگی ہوئی۔ پنجاب کالج احمد پور شرقیہ میں دوستوں نے پریس کے ساتھیوں سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا جس میں ملک کے موجودہ حالات کے حوالے سے اظہارِ رائے کا موقع ملا۔ میں نے اپنی گزارشات کو صحافی دوستوں کے سامنے پیش کیا جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ:
پاکستان کا قیام ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے ہوا تھا لیکن بدنصیبی سے پاکستان صحیح معنوں میں تاحال ایک مثالی اسلامی جمہوری ریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ گو پاکستان کا آئین کتاب و سنت کی عملداری کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس کے باوجود سودی لین دین، قحبہ گری کے اڈے اور منشیات فروشی کا سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔ ان تمام قباحتوں سے ملک کو پاک کرنا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے بھی بہت سے ادوار گزرے ہیں اور کئی مرتبہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔ ملک کے معاملات کو حل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں کتاب و سنت کی عملداری انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے پیشی کا احساس یقینا انسان کو بددیانتی اور خیانت سے روکتا ہے۔ ہم بالعموم اپنی امانتیں دیندار اور شریف لوگوں کے حوالے کرتے ہیں لیکن ملکی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ہم اپنے ووٹ کا بالعموم درست استعمال نہیں کر پاتے۔ جب تک ہم اپنے ووٹ کا درست استعمال کرکے دیانتدار، ایماندار اور باکردار لوگوں کو اسمبلیوں میں نہیں پہنچائیں گے‘ اُس وقت تک ہمارے معاملات کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
پریس ٹاک کے بعد محمود پارک احمد پور شرقیہ میں ایک بہت بڑی تحفظِ ختم نبوت و ناموس صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ اس کانفرنس سے بہت سے جید اور مقتدر علما کرام نے خطاب کیا‘ میں نے بھی اس موقع پر کانفرنس کے شرکا سے خطاب کیا اور اُن کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اس دنیا میں ہر قسم کی تشنگی کو دور کرنے کے اسباب کو پیدا کیا ہے۔ خالقِ دو جہاں نے جہاں انسانوں کی خوراک، غذا اور لباس کا بندوبست فرمایا وہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دل کی طمانیت کے لیے انسان کو اولاد جیسی نعت سے بھی نوازا اور زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے لیے شریکِ حیات کی شکل میں انسان کو ایک ساتھی بھی عطا فرمایا۔ جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی مادی ضروریات کو پورا کیا وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی روحانی تشنگی کو دور کرنے کے لیے انبیاء کرام اور رُسل اللہ علیہم السلام کو بھی مبعوث فرمایا۔
انبیاء کرام اور رُسل اللہ علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بنیادی طور پر یہ تھا کہ ان کے نقش قدم پر چل کر‘ سیدھے راستے کو اختیارکر کے‘ انسان دنیا و آخرت میں سربلند ہو جائے۔ مختلف ادوار اور زمانوں میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام انسانوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو مبعوث فرما دیا اور آپﷺ کی ذات پاک کوجمیع انسانیت کا مقتدا و پیشوا اور راہنما بنا دیا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 158 میں کچھ یوں فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے اے لوگو! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو جمیع انسانیت کا مقتدا بنانے کے بعد آپﷺ کے اُسوہ کو جمیع انسانیت کے لیے اُسوہ کامل بنا دیا اور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا ''بلاشبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔
نبی کریم ﷺ کی اطاعت کرنے والا شخص درحقیقت فقط آپﷺ کی اطاعت نہیں کرتا بلکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بھی فرمانبرداری کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۂ نساء کی آیت نمبر 80 میں کچھ یوں بیان فرمایا ''جو اطاعت کرے گا رسول کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ کی‘‘۔ اِسی طرح وہ شخص جو اللہ تبارک وتعالیٰ سے محبت کرتا ہے‘ اُس کو بھی اِس بات کی تلقین کی گئی کہ اُسے رسول اللہﷺ کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کو اپنا محبوب بنا کر اُس کی خطاؤں کو معاف کردیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اِس حقیقت کو سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 31 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''آپ کہہ دیجئے اگر ہو تم محبت کرتے اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گااور وہ معاف کر دے گا، تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘۔
جہاں قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو معیارِ حق اور آپﷺ کے اُسوۂ حسنہ کو کامیابی اور فلاح کا ضامن قرار دیا، وہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو بھی بیان فرما دیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپﷺ پر نبوت و رسالت کے سلسلے کو تمام کر دیا ہے؛ چنانچہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد ہوا ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مَردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔
گو کہ قرآنِ مجید کی آیت مذکورہ اور دیگر بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کو اپنا آخری نبی بنایا ہے لیکن اس کے باوجود اِس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے نبی کریمﷺ کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا؛ چنانچہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور سجاح نے قرونِ اولیٰ ہی میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیے اور یہ تمام بدطینت، بدکردار اور بدنیت لوگ ناکامی اور رسوائی سے دوچار ہوئے۔ سامراجیت کے دور میں بھی بہت سے لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جن میں علی محمد باب، حسین علی مازندانی، مرزا غلام احمد قادیانی، علیجاہ محمد اور راشد الخلیفہ جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان کے دعوے خود ساختہ تھے اور ان کو کتاب و سنت کی کسی بھی اعتبار سے کوئی تائید حاصل نہ تھی۔ علمائے امت نے کتاب و سنت کی روشنی میں ایک اجماعی فیصلہ صادر کیا ہے کہ آیاتِ بینات اوراحادیثِ طیبہ کی غیر شرعی تاویل کی کوئی گجائش موجود نہیں اور اُن گروہوں کو دائرہِ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے متفقہ فتوے جاری کیے گئے جو رسول کریمﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہیں، وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہیں۔ بعد ازاں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی اس فیصلے کو پاس کیا گیا کہ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی بھی شخص‘ جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے‘ وہ خود بھی اور اُس کے ماننے والے بھی دائرہِ اسلام سے خارج ہیں۔ اب یہ بات پاکستان کے آئین اور قانون کاحصہ بن چکی ہے اور بہت سے ملکوں میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اِس متفقہ فیصلے کو ایک سند کی حیثیت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ بات شرعی اور آئینی طور پر طے ہونے کے باوجود کئی مرتبہ پاکستان کے آئین اور قانون کے متفقہ فیصلے کے خلاف سازشیں کی جاتی رہیں جو علمائے امت کی باریک نظر کی وجہ سے ناکام ہو جاتی رہیں۔ اہلِ پاکستان حرمت رسول اور ختم نبوت پر اپنا سب کچھ لٹانے کے لیے آمادہ و تیار ہیں۔ جب بھی کبھی اس حوالے سے ماضی میں کوئی سازش کی گئی‘ جیسے اُس کو ناکام بنایا گیا‘ مستقبل میں بھی اس طرح کی کسی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام دینی طبقات ایک پیج پر جمع ہوکر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کانفرنس میں شرکا نے بڑی توجہ سے مقررین کی باتیں سنیں اور بھرپور انداز سے اُن کے خطابات کی بھرپور تائید کی۔ احمد پور شرقیہ میں چودھری عبدالسلام، ڈاکٹر خالد احسان اور دیگر بہت سے احباب نے مہمانوں کے لیے پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ رات کے پچھلے پہر اِس کانفرنس سے خطاب کے بعدواپس لاہور کی طرف سفرشروع ہوا اور یوں دورۂ بہاولپور اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے ہوئے مکمل ہوگیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دین، ملک اور ملت کی خیرخواہی اور مفاد کے لیے کام کرنے والے تمام دوست احباب کو اجر دے اور ہم سب کو اپنے ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں