تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصدلوگوں کو دینی اور دنیاوی تعلیمات سے آراستہ اور پیراستہ کرنا ہوتا ہے۔انسان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن کامیابیوں کے دروازے کھولے ہیں ان میں سے کوئی کامیابی بھی علم میں اضافے کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزمرکی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘۔ اسی طرح سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر 11 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے‘ جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں‘ درجے بلند کر دے گا‘‘۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جو مقامِ بلند عطا کیا‘ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صفتِ علم سے متصف فرمایا تھا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے سامنے فرشتوں کو جھکنے کا حکم دیا۔ جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی اس فضیلت کو تسلیم نہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ بنا دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکومت عطا کی تھی لیکن اس حکومت کے عطا کرنے کے باوجود جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُن پر اپنی نعمتوں کا ذکر کیا تو اس میں علم کو خصوصیت سے ذکر کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ النمل کی آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم نے یقینا داؤد اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا اور دونوں نے کہا: تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ حضرت شموئیل علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے لوگوں نے ایک بادشاہ کی قیادت کا مطالبہ کیا تھا تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہاکہ جنابِ طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا گیا ہے۔ جنابِ طالوت صاحبِ مال نہ تھے؛ چنانچہ ان کی قوم کے لوگوں کو ان پر اعتراض ہوا تو اس موقع پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ نے حضرت طالوت کو علم اور طاقت عطا کی ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صاحبِ علم شخص کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر لوگوں پر فوقیت عطا کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود نبی کریمﷺ پر اس وحی کا نزول فرمایا کہ آپ اپنے علم میں اضافے کے لیے دعا مانگا کریں۔ چنانچہ سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 114 میں ارشاد ہوا ''اور کہہ دیجئے کہ اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما دے‘‘۔ یہاں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علم ایک ایسی نعمت ہے جس کے بارے میں انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے اضافے کی دعا مانگنی چاہیے۔
تعلیمی ادارے‘ جو انسان کو علم سکھاتے ہیں‘ ان میں دینی تعلیم سکھانے والے اداروں کا مقام اس اعتبار سے بلند ہے کہ وہ ایسے علم کی ترسیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی سے متعلق ہے جبکہ دنیاوی علوم کو سمجھنا اس اعتبار سے لازم و مفید ہے کہ ان کے ذریعے انسان دنیاوی امور کو احسن طریقے سے سرانجام دے پاتا ہے۔ دینی اداروں کا کام جہاں علم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے‘ وہیں علم کے تقاضوں کو پورا کرنا اور طالب علموں کی تربیت کرنا بھی ان اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک دینی ادارے میں قرآن و سنت کی تعلیم تو دی جائے مگر طلبہ کو عمل، خلوص اور ریاکاری سے بچ بچا کر زندگی گزارنے کا راستہ نہ دکھلایا جائے تو ایسا ادارہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہا۔ اسی طرح وہ تعلیمی ادارے‘ جو انسان کو دنیاوی اعتبارسے علم دیتے ہیں اور جہاں معاشرتی اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کے حوالے سے طلبہ تک علم کی ترسیل کی جاتی ہے‘ اُن اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی ان تعلیمات سے اپنے طالب علموں کو ضرور آگاہ کریں جن کا تعلق انسان کو ایک بہتر انسان بنانے سے ہے۔ اگر کوئی انسان دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ تو ہو لیکن وہ علم کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے غلط راستے پہ چل نکلے اور غرور، تکبر، ریاکاری اور خود پسندی کا شکار ہو جائے تو ایسے تعلیمی ادارے کو کسی بھی طور پر مثالی تعلیمی ادارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مثالی تعلیمی ادارے کی ذمہ داری جہاں انسان کو اچھے اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرنا ہے وہیں شرم و حیا کی دعوت دینا اور اس حوالے سے اس کی راہ نمائی کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ جب ہم شرم و حیا کے حوالے سے کتاب و سنت کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو حیا کا وصف بہت زیادہ پسند ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورۂ بنی اسرائیل میں اس امر کا اعلان فرمایا ''خبردار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ النور کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوا ''جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مندرہتے ہیں‘ ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں‘‘۔ سورۃ النور ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سنگین نوعیت کی سزا کا ذکر کیا ہے اور غیر شادی شدہ بدکار مرد اور عورت کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا ہے۔ جبکہ احادیث مبارکہ میں شادی شدہ بدکار مرد اور عورت کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں برائی کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کا ذکر کیا وہاں قوم لوط کے فعل شنیع کا بھی ذکر کیا کہ جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس لیے تباہ و برباد کر دیا تھاکہ وہ ہم جنس پرستی جیسے گناہ کا ارتکاب کیا کرتے تھے‘ اُن پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی اور ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
تعلیمی اداروں کا مقصد انسانوں کے کردار کو بہتر بنانا، ان کو اخلاقی اقدار کا پابند بنانا اور شرم و حیا کے راستے پر چلانا ہے۔ احادیث مبارکہ میں شرم و حیا کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
(1) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ''ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔
(2) سنن ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ کر رہا تھا، اس پر آپﷺ نے فرمایا ''اسے چھوڑ دو، بلاشبہ حیا ایمان سے ہے‘‘۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ حیا کی کس قدر اہمیت ہے لیکن بدنصیبی سے ہمارے معاشرے میں اس وقت تعلیمی اداروں میں تعلیم تو کسی حد تک دی جا رہی ہے مگر تربیت کے معاملے میں بہت زیادہ کوتاہیوں کامظاہرہ کیا جا رہا ہے جن میں ایک بڑی کوتاہی تعلیمی اداروں میں پائے جانے والی غیر اخلاقی رویے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بہاولپور یونیورسٹی کے حوالے سے ایک سکینڈل منظر عام پر آیا تھا‘ جس میں بڑی تعداد میں طالبات کی نازیبا وڈیوز کا انکشاف ہوا تھا۔ اس طرح کے واقعات کے ساتھ ساتھ بعض تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کی تقریبات بھی تسلسل سے منعقد ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہا ہے۔ مرد و زن کا اختلاط کسی بھی طور پر دونوں کی اخلاقی حالت کے لیے بہتر نہیں ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں حیا کو فروغ دینے کے بجائے بے حیائی کو فروغ دیا جائے گا تو اس کے نتائج انتہائی ہولناک برآمد ہوں گے اور آنے والی نسل کسی بھی طور پر مثالی کردار کی حامل نہیں ہو گی۔ جس قوم میں نکاح کے بجائے زناکاری کو فروغ حاصل ہو جائے‘ اس قوم کے مستقبل کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک عرصہ سے قحبہ گری کا دھندہ اپنے عروج پر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر جیسے بلوں کی وجہ سے بھی ملک میں اخلاقی انحطاط دیکھنے کو ملتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اس قسم کے رویے ہر اعتبار سے باعثِ تشویش ہیں۔
اس قسم کے معاملات کے تدارک کے لیے جہاں کالج، یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہاں علمائے دین کو بھی اپنے خطبات اور دروس میں ان معاملات کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہیے۔ والدین کو بھی اپنی اولاد پر خصوصیت سے توجہ دینی چاہیے اور تعلیمی اداروں میں اس قسم کے معاملات کی حوصلہ شکنی کے لیے خط و کتابت کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ سے مضبوط رابطے استوار کرکے بھی اس طرح کے پروگراموں کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے اخلاقی انحطاط پر قابو پانے کے لیے سخت قسم کے آرڈیننس جاری کرنے چاہئیں اور اس قسم کی تمام مخرب الاخلاق تقریبات پر پابندی لگا دینی چاہیے جن سے نہ صرف یہ کہ تعلیمی اداروں کا وقار مجروح ہوتا ہے بلکہ پاکستان کے نظریاتی تشخص پر بھی حرف آتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور اس میں کسی بھی طور پر بے حیائی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ حیا کے فروغ کے لیے ہمارے ملک میں موجود مذہبی اور دینی طبقات کو مؤثر انداز سے ایک مربوط تحریک چلانی چاہیے تاکہ تعلیمی اداروں کو بے حیائی اور بد اخلاقی سے دور رکھ کر پاکیزہ ماحول میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جا سکے۔