اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے‘ جس کو ایک طویل اور لمبی سیاسی جدوجہد اور بے شمار قربانیاں دینے کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد شہید ہوئے، معصوم بچوں کو لہو میں تڑپایا گیا، بہنوں‘ ماؤں اور بیٹیوں کے دوپٹوں کو نوچا گیا، بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھروں کو خیرباد کہا، اپنے کھیتوں کھلیانوں اور جائیدادوں کو چھوڑ کر وہ پاکستان میں آکر آباد ہوئے۔ اتنی قربانیوں کے بعد بھی لوگ اس بات پر خوش تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو آزادی کی نعمت سے نوازا ہے۔ اس نعمت کی قدر آج بھی ہر باشعور اور محب ملک و ملت کے دل میں موجود ہے اور لوگ پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کے ہمہ وقت خواہاں رہتے ہیں۔ بدنصیبی سے پاکستان میں بہت سے سیاسی اور معاشی بحران ایسے ابھرتے ہیں جن کی وجہ سے ریاست کے استحکام کے لیے مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی بقا، استحکام اور ترقی کے حوالے سے جہاں سیاست دان اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہاں پاکستان کے دفاعی ادارے بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
چند روز قبل دفاعی ادارے کے ایک اہم ذمہ دار نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتلایا کہ 17 تاریخ کو جی ایچ کیو میں علما و مشائخ کی آرمی چیف کے ساتھ ایک نشست ہے جس میں آپ کی شرکت دیگر علماء کے ہمراہ انتہائی ضروری ہے۔ 17 نومبر کو چونکہ جمعہ کا دن تھا، اس لیے اس میٹنگ میں شرکت کرنا آسان نہ تھا جبکہ ملک و ملت کے استحکام کے حوالے سے ہونے والی اس اہم میٹنگ میں شرکت کے لیے چونکہ ملک بھر سے جید علما اور اکابرین تشریف لا رہے تھے‘ اس لیے ان کی ہمراہی میں افواجِ پاکستان کے سربراہ کے ساتھ ہونے والے اس پروگرام میں شرکت اپنی جگہ غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی؛ چنانچہ میں نے ہامی بھر لی۔ اس میٹنگ میں شرکت کے لیے جمعرات کی شام کو لاہور سے روانگی ہوئی اور رات 11 بجے میں راولپنڈی پہنچ گیا۔ راولپنڈی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ملک بھر سے جید علماء کرام اور اکابرین راولپنڈی تشریف لا چکے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر، مولانا طاہر اشرفی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، قاری حنیف جالندھری اور مولانا زاہد الراشدی سمیت دیگر بہت سی نمایاں شخصیات اور ممتاز اکابرین وہاں موجود تھے۔ جمعہ کی صبح نو بجے‘ ناشتے کے بعد گیریژن میس کی طرف روانگی ہوئی جہاں پر ملک بھر سے جمع ہونے والے 150 کے لگ بھگ علما، مشائخ اور اکابرین موجود تھے۔ گیریژن میس سے تمام اکابرین کو خصوصی ٹرانسپورٹ کے ذریعے جی ایچ کیو روانہ کیا گیا۔ جی ایچ کیوکا خوبصورت سیمینار ہال ایک عجیب منظر پیش کر رہا تھا کہ علما اور اکابرینِ ملت بڑی تعداد میں سیمینار میں ملک کی بقا اور استحکام کے لیے غور و خوض کرنے کے لیے موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر ہال میں داخل ہوئے۔ علما اور اکابرین نے بھرپور طریقے سے ان کا استقبال کیا۔ نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا۔ تلاوتِ قرآنِ مجید کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بہت سے اہم امور کے حوالے سے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس موقع پر جو گفتگو کی‘ اس کے خلاصے کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
پاکستان بلاشبہ ایک اسلامی‘ فلاحی اور نظریاتی ریاست ہے جس کا قیام اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے عہد کے ساتھ ہوا تھا۔ پاکستان کا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے۔ پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے کوشاں رہنا جہاں ایک قومی ذمہ داری ہے وہیں ملی اعتبار سے یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ایک فریضہ بھی ہے جس کو انجام دینے کے لیے پوری قوم کو متحد اور منظم رہنا چاہیے۔ جنرل عاصم منیر نے اس موقع پر اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مدینہ طیبہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی اور کلمہ طیبہ کی بنیاد والی ریاست کا دفاع یقینا ہماری ایمانی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بات بھی کی کہ افواجِ پاکستان ملک کی داخلی سلامتی اور سرحدوں پر ہونے والی جارحیت کا راستہ روکنے کے لیے ہر وقت مستعد و تیار ہیں۔ الحمدللہ! پاکستان میں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی تمام تر استعداد اور صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے اس بات کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عطا قرار دیا کہ بہت سے مسائل اور الجھنوں کے باوجود پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور اس کے پاس اپنے دفاع کے لیے بہترین ذرائع اور وسائل موجود ہیں، جن کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان احسن انداز سے اپنے دفاعی معاملات کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ قیا مِ پاکستان کا ایک مقصد اپنے باسیوں کو پُرامن زندگی فراہم کرنا بھی تھا لیکن اس حوالے سے پاکستان کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ اس دہشت گردی کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اداروں کے اہلکار اور عوام الناس جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔ اس ناسور کو کچلنے کے لیے انہوں نے علما کی مرتب کردہ دستاویز ''پیغامِ پاکستان‘‘ پربھی تحسین کا اظہار کیا کہ علما نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ نبھایا اور دہشت گردی کی تمام اقسام کی بھرپور انداز میں مذمت کی۔
انہوں نے ا س موقع پر یہ بھی کہا کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکی باشندوں کا انخلا پاکستان کے ریاستی اداروں کی قانونی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے ہم اپنے کردار کو پوری طرح ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں علما سے بھی تعاون کی اپیل کی۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور یہ بتلایا گیا کہ پاکستان کی تمام تر ہمدردیاں اہلِ فلسطین کے ساتھ ہیں اور اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے عالمِ اسلام خصوصاً سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک‘ جو مثبت اقدامات کرنے کا فیصلہ کریں گے‘ پاکستان بھی ان کے ہمراہ ہو گا۔ جنرل عاصم منیر کی تقریر میں جہاں غیر معمولی تسلسل اور ربط پایا جاتا تھا وہیں ان کے خطاب میں قرآنِ مجید کی آیات اور احادیث طیبہ سے بھی بہت خوبصورت انداز میں استنباط کیا گیا تھا۔ ان کے استنباط اور مدلل گفتگو کو سن کریقینا علما ایک مرتبہ چونک گئے اور انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان کے دفاع کی ذمہ داری ادا کرنے والا سپہ سالار اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت اور کلامِ اقبال پر بھی گہری نظر رکھتا ہے۔ اس موقع پر بہت سے اکابرین نے بہترین انداز میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پاکستان کو دفاعی اعتبار سے لاحق چیلنجز کے حوالے سے جنرل عاصم منیر کو اس بات کا یقین دلایا کہ ہم اس حوالے سے تمام تر ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرنے کو تیار ہیں۔
اس پروگرام میں مجھے بھی اپنے خیالات کو پیش کرنے کا موقع ملا۔ میں نے جن خیالات کو اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں پیش کیا‘ ان کو بھی میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے دو طبقات پر غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طبقہ دفاعی اور عسکری اداروں کا ہے جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تمام تر پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو دفاعِ پاکستان کے لیے استعمال کریں۔ اس کے بعد دوسری اہم ذمہ داری علما کرام پر عائد ہوتی ہے جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی چوکیداری اور پاسداری کرتے ہیں۔ آئینِ پاکستان میں ملک کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے جو خدوخال واضح کیے گئے ہیں، علما ان کی پہرے داری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورۃ الانفال میں اہلِ ایمان کو باہمی تنازعات سے منع کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی ہمتیں کم ہونے، پھسلنے اور ان کی ہوا کے اکھڑ جانے کے خدشات ہیں۔ پاکستان کے تحفظ کا فریضہ چونکہ افواجِ پاکستان اور علما کرام سرانجام دے رہے ہیں، اس لیے اس کے تحفظ کے لیے ذمہ داری سرانجام دینے والے دونوں طبقات کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جس کی سیاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنا عوام کا استحقاق ہے۔ اس حوالے سے عوام کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر یکسو ہے کہ سیاست میں کسی غیر سیاسی عنصر کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور جہاں تک تعلق ہے پاکستان کے دفاع کا‘ تو اس مسئلے پر بھی کسی قسم کا کوئی اختلاف موجود نہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں اور علما کو ایک پیج پر رہنا چاہیے۔ بدنصیبی سے اس ملک میں بہت سے ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جن سے پاکستان کا نظریاتی تشخص مجروح ہوتا ہے، جن میں ٹرانس جینڈر بل، عورت مارچ اور اس قسم کے دیگر بہت سے معاملات شامل ہیں۔ ان معاملات کی بڑھوتری کے لیے جو تنظیمیں اور ادارے کردار ادا کرتے ہیں، ان کو روکنا اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے لیے کوشاں رہنا‘ یہ پاکستان کے اداروں اور اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔ علمائے دین اور دفاعی اداروں کو پاکستان کی بقا و استحکام اور ترقی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ترجیحی بنیادوں پر ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کی غفلت اور کمی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
اجلاس کے دوران نمازِ جمعہ کا وقفہ ہوا اور تمام علما اور مشائخ نے جی ایچ کیو کی مسجد میں نماز ادا کی اور پاکستان کے لیے اپنی نیک تمناؤں اور دعاؤں کو بارگاہِ رب العالمین میں پیش کیا۔ اجلا س کے بعد جنرل عاصم منیر نے علماء کے ساتھ گر م جوشی سے ملاقات کی۔ اجلاس کے اختتام پر بہترین عصرانے کا اہتمام کیا گیا تھا اور یوں یہ اجلاس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کے ہمراہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔