ہر سال شعبان کے مہینے میں ملک بھر کے مختلف مدارس میں تکمیلِ بخاری شریف کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی تقاریب میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی مرکز قرآن وسنہ‘ لارنس روڈ لاہور پر تکمیلِ تقریبِ بخاری شریف کا انعقاد ہوا‘ جس میں فارغ ہونے والے طلبہ کو سندِ فراغت اور نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دیے گئے۔ مرکز قرآن و سنہ کے اساتذہ بہت محنت اور عرق ریزی کے ساتھ طلبہ کو کتاب و سنت کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لاہور اور گرد و نواح کے طلبہ دینی تعلیم حاصل کرنے لیے بڑے ذوق اور عزم سے اس درسگاہ میں آتے ہیں‘ اسی طرح چوک دالگراں کا مدرسہ بھی لاہور میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ حافظ عبدالغفار روپڑی نے اس سال بھی تقریبِ تکمیلِ بخاری شریف میں مجھے شرکت کی دعوت دی۔ جب کبھی میں اس قسم کی مجالس میں شرکت کرتا ہوں تو میرے ذہن میں حضرت امام بخاریؒ کی شخصیت سے متعلق مختلف طرح کے تصورات اور خیالات گردش کرنے لگتے ہیں اور میں آپؒ کی عظمت کے احساسات کو دل اور دماغ کی گہرائیوں میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔
حضرت امام بخاریؒ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو عظیم اور بلند مقام عطا کیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو ایک عظیم مقصد کے لیے وقف کیے رکھا۔ جو لوگ بھی اپنی زندگیوں کو کسی عظیم مقصد کے لیے وقف کر دیتے ہیں‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 195 میں اس حوالے سے بہت خوبصورت ارشاد فرمایا: ''بلاشبہ میں نہیں ضائع کرتا عمل‘ کسی عمل کرنے والے کا‘ تم میں سے (خواہ) مرد ہو یا عورت‘‘۔ اسی طرح سورۂ مزمل کی آیت نمبر 20 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے اعمال کی قبولیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ''اور جو کچھ تم آگے بھیجو گے‘ اپنے لیے کسی قسم کی بھلائی کا کام‘ تو پاؤ گے تم اسے موجود اللہ کے پاس‘‘۔ اخروی اجر کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ اخلاص سے کیے گئے کام کو دنیا میں بھی باقی رکھتا ہے۔
حضرت امام بخاریؒ کی جدوجہد اور کاوش جس عظیم مقصد کے لیے تھی درحقیقت ہر مومن و مسلم کو اس عظیم مقصد کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہیے؛ البتہ یہ عظمت ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتی۔ امام بخاریؒ تمام عمر دین کی خدمت کے لیے وقف رہے۔ ہمیں بھی اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دین کی عظمت کا ذکر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 میں کچھ یوں کیا: ''آج مکمل کر دیا ہے میں نے تمہارے لیے تمہارا دین اور پوری کر دی تم پر اپنی نعمت اور پسند کر لیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین‘‘۔
دین کی بنیاد اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب اور نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اس بات کو واضح فرمایا کہ نبی کریمﷺ کے ارشاداتِ عالیہ پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بعض لوگ تنہا قرآنِ مجید کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی توضیح‘ تشریح اور تفسیر کی ذمہ داری اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تفویض فرمائی تھی؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ النحل کی آیت نمبر 43 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہم نے آپ پہ ذکر (کلام اللہ) کو نازل کیا تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لیے‘ جو نازل کیا گیا ان کی طرف‘‘۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا: ''بلاشبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی حیاتِ طیبہ میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت نمبر 80 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''جو اطاعت کرے گا اللہ کے رسول کی تو وہ درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ کی‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں یہ بات بھی واضح فرمائی کہ جو لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت کے طلبگار ہیں انہیں رسول اللہﷺ کی اتباع کرنی چاہیے۔ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیں کہ اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے‘ تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی واضح فرمایا کہ جو لوگ حضرت رسول اللہﷺ کے ارشاداتِ عالیہ کو اپنے تنازعات کے حل کے لیے تسلیم نہیں کرتے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت کی قسم اٹھاتے ہیں کہ‘ وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے۔
ایمانیات میں اس بات کا انتہائی بلند مقام ہے کہ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے حبیبﷺ کی بات کو اپنے تنازعات میں حرفِ آخر سمجھے۔ قرآنِ مجید کے بہت سے مقامات پہ یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جب تک رسول اللہﷺکی تشریحات (احادیث) کو قرآنِ مجید کے مقامات کے ساتھ نہ ملایا جائے‘ قرآنِ مجید کے درست مفہوم کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ چنانچہ ہمیں فہم دین کے لیے قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ کے فرامین اور احادیث کی طرف ہر صورت مراجعت کرنا پڑتی ہے۔
حضرت امام بخاریؒ کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو نبی کریمﷺ کے فرامین مبارک کی جمع اور تدوین کے لیے وقف کیے رکھا۔ آپؒ نے اپنے پاس موجود تقریباً چھ لاکھ احادیث میں سے 7500 کے قریب ایسی احادیث کو جمع کیا جن کی اسناد میں کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ حضرت امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کو اس انداز میں مرتب کیا کہ آپ نے پہلی حدیث اصلاحِ نیت کے حوالے سے نقل کی اور آخری حدیث میں آپ نے ان کلمات کا ذکر کیا جو زبان پر ہلکے‘ اللہ کو محبوب اور میزان میں بھاری ہیں۔ گویا کہ آپ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ دین نیت کی اصلاح سے شروع ہوتا ہے‘ میزانِ عدل میں نیکیوں کے تُل جانے کے بعد انسان کی اخروی کامیابی پر مکمل ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاریؒ نے اپنی اس کتاب میں زندگی کے جملہ اُمور سے متعلقہ احادیث کو جمع کرکے لوگوں کے لیے فہمِ دین کو آسان بنا دیا۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شخص صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف رجوع کرتا ہے تو بغیر کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے‘ نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے جن میں کوئی ایسی بات موجود نہیں جس پر تنقید یا اعتراض کی کوئی گنجائش موجود ہو۔ حضرت امامِ بخاریؒ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس عظیم کارنامے کی وجہ سے اس قدر قبولیت عطا فرمائی کہ آج بھی حضرت امام بخاریؒ کا نام حدیث کے باب میں ایک حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ کی اس محنت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ضائع نہیں ہونے دیا اور آج تک دنیا بھر کی درس گاہوں میں صحیح بخاری کو انتہائی توجہ اور انہماک سے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے اور لوگ صدیوں گزر جانے کے باوجود بھی آپؒ کے اس عظیم کارنامے سے مستفید ہوتے اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور ارشاداتِ عالیہ کو آگے پھیلانے کے لیے آپ کی کتاب سے رجوع کرتے ہیں۔ متعدد صدیاں گزر جانے کے باوجود صحیح بخاری انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو کردار ادا کر رہی ہے یقینا یہ حضرت امام بخاریؒ کے خلوص کی بیّن دلیل ہے۔
حضرت امامِ بخاریؒ کا یہ عظیم کارنامہ ہر خیر کے طالب میں ایک تحریک پیدا کرتا ہے کہ اگر ہم بھی اپنے آپ کو خیر کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کیے رکھیں تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت میں قبولیت سے ضرور نوازے گا۔ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کی بھی مخلصانہ کاوشوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نبی کریمﷺ کی کامل اتباع کرنے کی توفیق دے اور حضرت امام بخاریؒ کی اس عظیم کتاب سے استفادہ کرنے والوں میں شامل فرمائے‘ آمین!